عورتیں اپنے خلاف کہاں چوکتی ہیں

(۱)جہیز کی وباء سے کافی تعداد میں لڑکیاں خود کشی کرتی ہیں یا بیکار گھروں میں سڑتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے خلاف عورتیں از خود بھی ذمہ دار ہیں کہ جہیز طلبی میں گھر کے مردوں کے ساتھ یہ بھی اس میں کافی پیش پیش ہوتی ہیں بلکہ خاصا زور دکھاتی ہیں لیکن ایک عورت پر ظلم کے خلاف اور اپنی جنسیت کی بقا و حفاظت پر دل و جان سے حق گوئی وبے باکی سے گریز کرتی ہیں ۔

(۲)اگر کو ئی عورت گاؤں یا ضلعی سطح پر کو ئی عہدہ حاصل کرتی ہیں تو اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اس کے گھر کاکوئی مرد یا اس کا شوہر ہی سب کچھ ہوتا ہے اوروہ محض ایک کٹپتلی کی بن جاتی ہیں نیز مردوں ککے مقابلے میں اپنی کمتری کا احساس دلاتی ہیں اس طرح کے اوربھی مسائل کو اسی پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔

(۳)عورتوں پر جنسی زیادتیاں ہوتی ہیں یہ انھیں کبھی بھی اچھا نہیں لگتاہو گا لیکن کیا وجہ ہے کہ وہ کبھی یک جا ہو کر حکومت سے’’غیر مخلوط مستحکم نظام تعلیم ‘‘ کا مطالبہ نہیں کرتیں اور نہ خو کبھی اس کو مسئلے کا حل سمجھتی ہیں جب کہ اس سے ان کے لیے بہت سی اسامیاں نکلیں گی اوروہ برسر روزگار ہوکر خود کفیل بنیں گی۔اسی طرح زندگی کے اور بھی مسائل مثلا عورتوں کے لیے مخصوص بس ،مخصوص ٹرین ،مخصوص آفیشیل ورک،خوردو نوش کے مخصوص شاپس اور ہوٹلساوربینک وغیرہ کو قیاس کیا جاسکتاہے ۔کہ اسی میں ان کی حقیقی آزادی کا تصور بھی پنہا ہے ۔

(۴)آج جو لباس عام طور پر مارڈن لڑکیاں پہنتی ہیں عام طور پر وہ پہلے صرف مرد پہنتے تھے لیکن یہ عورتوں کی کمزوری کہیے کہ جہاں انھیں اپنی نسوانیت کو گوناں گوناں خوبیوں سے آراستہ کرنے میں اپنی خودداری سمجھتیں اپنے کو مردانہ سانچے میں ڈھال کر اپنی توہین کے درپئے ہیں۔ جب کہ وہ لباس جو صرف عورتوں کے لیے بنے تھے یا وہ زیوارت جو عورتوں کے ہیں مر د نہیں البتہ کچھ نا مرد پہنتے ہیں۔اسی طرح کی اور بہت سی باتیں ہیں جہاں عورتیں اپنے وجود کو خود گھٹاتی ہوئی نظر آتی ہیں حتیٰ کہ اب تو مردوں کی طرح بال وغیرہ بھی کٹا کر وہ اپنی نسوانیت کا جنازہ نکال چکی ہیں حالانکہ یہ ان کے لیے درحقیقت ایسی ہی شرم کی بات ہے جیسے کے مردوں کے لیے اپنی نسوانیت کے اظہار میں ہے ۔

(۵)اسلام نے حق میراث عورتوں کو عطا کیا اور پھر بہت سے ملکوں نے اسے تسلیم کیا بلکہ قانونی حیثیت بھی دی لیکن اس کے باوجود عورت کمیونٹی اس سے غافل ہے اور کھل کر سامنے نہیں آتی جب کہ اگر اس پر صحیح طور پر عمل ہو جائے تو عورت معاشرے کی راہ سے بہت سے مشکلیں از خود دفع ہوجائیں گی۔

(۶)آج بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اپنے بیٹو ں کی شادیوں میں دہیز کو کچھ نہیں سمجھتے اور وہ صرف بچیوں کی اچھی پرسنالٹی چاہتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ عورتیں اپنی یا اپنی لاڑلیوں کی شادی کے انتظام و انصرام کی فکر میں ذخیرہ اندوزی تو کرتے ہیں لیکن شخصیت سازی پہ بہت کم زور دیتی ہیں جب کہ جدید وسائل کے سہارے ان پسماندہ لڑکیوں کو بہ آسانی شکل و صورت اور لیاقت کے لحاظ سے مانجھا اور سنوارا جاسکتاہے لیکن عورتیں اس پر سنجیدہ نہیں دکھائی دیتیں اور صرف تقدیر پر بھروسہ کیے دوسروں کے سہارے پڑی رہتی ہیں یا کوئی گندہ کھیل کھیل کر کسی کو پھانس کر ہر دو کی زندگی اجیرن کردیتی ہیں ۔لیکن حکومت سے ایسی پالیسی بنانے یا ایسے ادارے کھولنے کا مطالبہ نہیں کرتیں جہاں انھیں قابل قبول بنایا جاسکے ۔یہ تو بس شادی اور بچے کی پیدائش کے وقت حکومت کے دو چار سکے پاکر بہت خوش ہو جاتی ہیں جو دس میں بہ مشکل تین کو بھی میسر نہیں ہوپاتا جب کہ جو اسکیم پوری نسل عوررت کے لیے مفید ہوتی اس تک ان کا ذہن ہی نہیں پہنچتا ۔

(۷)آج کے جدید معاشرے نے تو عورتوں کو ایک اور گورکھ دھندے میں پھنسا ڈالا ۔جسے عورتوں نے بہ خوشی تسلیم بھی کرلیااور یہ ہے’’ یوم خواتین‘‘ جس میں انھیں صرف ’ حقوقِ نسواں کے کھلی کھلی اورغیر حقیقی آزادی دلانے کا فلسہ سمجھایا جاتاہے اور اسی میں انھیں یہ بھی پڑھایا جاتا ہے کہ میراث ان کے لیے ایک پرایا مال ہے اور میراث سے دست برداری نامہ بھی لکھوایا جاتاہے ۔یہ تو غیر شعوری طور پر انھیں گمراہ کرنے کے ہتھکنڈے کے علاوہ ہمیں اور کچھ نہیں لگتا۔ ہم پوچھتے ہیں کہ یوم خواتین منانے کی آخر ضرورت کیا ہے وہ بھی سال میں ایک مرتبہ !یوم مرد تو نہیں منائے جاتے! کیا آج کا معاشرہ انھیں اس لائق بھی نہیں سمجھتا کہ وہ زندہ ہیں ! تو پھر انھیں مخصوص دن میں کیوں زندہ کیا جاتا ہے؟۔ جب کہ ناقص العقل تو آج بھی اسے اپنی شان سمجھ رہی ہیں حالاں کہ یہ ان کی شکست اور کمزوری کا پیش خیمہ ہے۔ جب انسان انسان برابر ہیں تو جو مرد کے حقوق ہیں انھیں ملے اور جو عورتوں کے ہیں وہ انھیں ملے۔ ان کے لیے دن مخصوص کر کے ان کی ناکا می کا پر چار یہ کیا تماشہ ہے !عورتوں کو اس پر غور کرنا چاہئے تھا لیکن وہ مردوں کے بچھا ئے جال میں پھنس کر اپنی کمزوری دکھا گئیں اور یو خواتین کو گلے لگا لیا ۔

Md Nooruddin
About the Author: Md Nooruddin Read More Articles by Md Nooruddin: 10 Articles with 24824 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.