طلاق،طلاق،طلاق۔ یہ وہ الفاظ ہیں
جو کہ باہم اکٹھے رہنے والےدو انسانوں کو جدا کر دیتے ہیں۔ طلاق اللہ کے
ہاں ایک نہایت ہی ناپسندیدہ عمل ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں شرح
طلاق میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ہمارےملک میں1950 کے
بعد 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔1995 میں فیملی کورٹس میں خواتین کی جانب سے خلع
لینے کی شرح دو فیصد تھی جو کہ اب تقریباً 49 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
اس اضافے میں بہت سارے عوامل کارفرما ہیں۔جن میں سے سب سے اہم مسٔلہ ملازمت
پیشہ خواتین کے ساتھ پیش آتا ہے۔اکژملازمت پیشہ خواتین کا خیال ہوتا ہے کہ
وہ اس ملک سے تعلیم کے حصول کا قرض اگر اپنے ہنر سے واپس نہ کر دیں تو یہ
قوم کے ساتھ ذیادتی ہوگی۔ مثال کے طور پر ایک لڑکی ایم۔بی۔بی۔ایس کی ڈگری
حاصل کرنے کے بعد محض خٓاتون خانہ بن جائے تو یہ ملک اور معاشرے کے ساتھ
ناانصافی ہوگی۔
ایسی خواتین کا یقیناًفرض بنتا ہے کہ وہ اپنے ذمہ عائد ہونے والے فرائض ادا
کر کے فعال شہری بنیں لیکن اِن کے ساتھ ساتھ انھیں گھر اور بچوں کی ذمہ
داریاں بھی ادا کرنا پڑتی ہیں۔یہ دہری تہری ذمہ داریاں جہاں کچھ خواتین
احسن طریقے سے سر انجام دیتی ہیں وہیں بہت سی خواتین کے لئے مسائل کا باعث
بن جاتی ہیں۔ کہیں دباؤ میں آکر وہ ڈپریشن،بلڈ پریشراور بہت سی دوسری
امراض میں مبتلا ہوجاتی ہیں اور کہیں مایوسی کی انتہا انہیں طلاق لینے کے
ناپسندیدہ اور تلخ فیصلے کے لئے مجبور کر دیتی ہے۔
طلاق لینے والی خواتین میں اکثریت ملازمت پیشہ خواتین کی ہے کیونکہ میاں
بیوی دونوں میں ایک دوسرے کے لئے وقت نہ ہونے کی بنا پر فاصلے بڑھ جاتے
ہیں۔جس سے اختلافات جنم لیتے ہیں۔ لھٰذا خواتین کو اپنے اردگرد موجود لوگوں
کو یہ باور کروانا چاہیے کہ وہ معاشرے کا ایک متحرک اور ذمہ دار کردار ہے
جو کہ اپنے فرائض مستعدی سے سرانجام دے رہی ہے اور گھر والوں کو بھی اس کا
احساس ہونا چاہیے کہ وہ بھی ایک انسان ہے۔ اتنی ذمہ داریوں میں اگر وہ کچھ
وقت نہ دے سکے تو یہ اس کی مجبوری ہے۔ خواتین کو بھی ملازمت سے قبل اپنے
گھریلو حالات کو مدِنظر رکھنا چاہیے۔
عطیہ نورین
لاہور گیریژن یونیورسٹی |