از: رسول صاحب ‘ ڈائرکٹر صفا
کالجس‘ کرنول
ہمارا ملک غیر مذہبی جمہوریت کے دستور کو 1950ئ میں اختیار کیا۔ یہ دستور
ہندوستان کے مذہبی اقلیتوں سے یہ وعدہ کئے ہوئے ہے کہ مذہبی اقلیتوں کو
مماثل حفاظت اور مماثل شہریت کے حقوق قانون کے دائرے میں دے گا۔ اور اپنے
مذہب پر چلنے اور اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کی پوری آزادی دی جائے گی۔ قومی
کمیشن برائے اقلیت آئین 1992کے تحت مرکزی حکومت میں یہ صاف بتایا گیا ہے کہ
5مذہبی اقلیتیں ہیں ‘ ان میں (۱) مسلم ‘ (۲) عیسائی‘ (۳) پارسی (۴) بدھ
اسیٹ‘ (۵) سکھ مذہب کے ماننے والے ہیں۔ ہندوستانی قانون کے تحت ہر شہری کو
مساوی مرتبہ ‘ مساوی موقعہ‘ حکومت کی جانب سے دیا جانا چاہئے۔ یہ مساوی
مواقع چاہے تعلیم میں ہوںیا حکومتی جائدادیں فراہم کرنے کے لئے ہوں۔ جب
آرٹیکل 14(مماثلت) کی رسائی‘ آرٹیکل15(تعلیم )کی رسائی‘ اور آرٹیکل
16(عوامی روزگار) کی رسائی ہیں‘تو ان آرٹیکلس کے مطابق مسلم ‘عیسائی‘ پارسی‘
بدھ اسیٹ‘سکھ مذہب کے لوگوں کو ان کا حق دیا جانا چاہئے۔آرٹیکل 15جزئ( 4)
کے مطابق پچھڑے ہوئے طبقات یا ایس ٹی‘ ایس سی ‘ زمرے کی تعلیمی اور سماجی
ترقی کے لئے خصوصی توجہ دی جانی چاہئے۔خصوصی طور پر یہ دیکھاجا رہا ہے کہ
سماجی اور معاشی طور پر پچھڑے طبقات کے زمرے میں صرف ایس سی اور ایس ٹیس کو
بتایا جارہا ہے۔ آرٹیکل 15جزءنمبر (5)میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ریاست کو
چاہئے کہ وہ پچھڑے ہوئے طبقات کی تعلیمی اور سماجی ترقی کے لئے خصوصی توجہ
دیکر ان کے داخلے خانگی یا غیر خانگی تعلیمی اداروں میں شریک کروایا جائے۔
اسی طرح آرٹیکل 16میں یہ بتایا گیا ہے کہ حکومتی جائدادوں میں بھی ریاست
مماثل مواقع فراہم کرے‘ نہ کہ مذہبی بنیاد پر ان کے ساتھ ناانصافی
کرے۔آرٹیکل 16جزءنمبر (4)میں یہ بتایا گیا ہے کہ پچھڑے ہوئے طبقات کے تقرر
کے لئے رزرویشن بنایا جائے۔ مذکورہ بالا آرٹیکلس 16,15,14خود مختار نہیں
ہیں۔ان میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا اگر کوئی انہیں سمجھنے میں ناکام ہو
جائے اور مذہبی بنیادپر قائم رہے تو یہ بات غلط ہے۔ مذہبی اعتبار سے بھی
مماثلت بتانا یہ غیرقانونی ہے۔ واضح ہو کہ ہندوستان میں مذاہب سماجی اور
معاشی پہچان رکھتے ہیں ‘انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
2006ئ میں وزیر اعظم من موہن سنگھ نے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنائی تھی‘ جس
کے چیرمین جسٹس راجیندر سچار تھے۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں یہ واضح کردیا
کہ سماجی اور معاشی طور پر سب سے پچھڑا ہوا طبقہ مسلم اقلیتوں کا ہے۔
ہندوستان کے مسلمانوں کا اوسط مماثلت کے اعتبارسے ایس سی ‘ ایس ٹیس طبقے کی
برابری کرتاہے۔ سچار نے اپنی رپورٹ میں قوم کے قائدین کی توجہ مسلمانوں کی
گھٹتی ہوئی تعلیمی اور پسماندگی کے علاوہ سماجی خدمات پر بھی مرکوز
کروائی۔انہوں نے اپنی رپورٹ کے اختتام میں بتایا کہ مسلم طبقہ عملی طور پر
پسماندہ ہے۔ راجیندر سچارکمیٹی کی رپورٹ نے مسلمانوں کو سماجی انصاف دلوایا۔
رپورٹ پیش کرنے کے 6سال بعد مسلمانوں کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے حال
ہی میں” سچار رپورٹ کے 6سال بعد“ عنوان پر ایک جائزہ اجلاس نئی دہلی میں
منعقد ہوا۔ جس میں راجیندر سچار کمیٹی کے رکن ابو صالح شریف نے اس بات پر
روشنی ڈالی کہ مسلم طبقے کی کسی قسم سے ترقی نہیں ہو پائی ہے۔ نہ ہی کوئی
تعلیم ادارے قائم ہو سکے ہیں‘ نہ ہی مسلمانوں کے لئے کوئی خاص مواقع ترقی
کے مل پائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہی اختلاف تعلیمی اداروں میں باقی ہے جو
سچار کمیٹی نے پیش کیا تھا۔تعلیمی پسماندگی اسی طرح پست ہے‘ جیسا کہ
2004-05میں تھی‘ اور اسی طرح 2009-10میں بھی ۔ دسویں جماعت میں مسلم طلبہ
کے داخلے ایس سی‘ ایس ٹی سے بھی کم ہیں۔اور اعلیٰ تعلیم کی طرف جب نظر ڈالی
جائے تو حالت بہت ہی بری ہو جاتی ہے۔ اسی طرح روزگار کی جانب نظر دوڑائی
جائے تو مسلم نوجوانوں کے لئے راستے ہی نظر نہیں آتے۔ مہاتما گاندھی رورل
ایمپلائمنٹ (MGNRES)اسکیم سے مسلمانوں کی شرکت نہیں رہے گی۔ جب کہ رزرو
بینک آف انڈیا کے خصوصی ہدایات ہی ہیں ۔ حالات کو سمجھنے کے لئے اگر ریاست
آندھراپردیش کے سرکاری تقررات کو دیکھیں۔نیشنل سیمپل سروے آف گورنمنٹ آف
انڈیا مسلم کانسٹی ٹیو کے تحت 8.5فیصد جملہ آبادی کے لحاظ سے۔ حالاتِ حاضرہ
سے متعلق آئی اے ایس‘ اور آئی پی ایس کے زمروں میں مسلمان کچھ اس طرح ہیں :
(۱) 326آئی اے ایس افسران میں صرف11آئی اے ایس مسلم افسران ہیں ۔ فیصد کے
اعتبارسے 3.37
(۲) 165آئی پی ایس افسران میں صرف06آئی اے ایس مسلم افسران ہیں ۔ فیصد کے
اعتبارسے 3.63
(۳) دیگر حکومتی عہدوں میں مسلم افسران 3فیصد سے زائد نہیں ہیں۔اگر ہم
سیاست پر نظر ڈالیں تو 294اراکین اسمبلی میں سے صرف 13مسلم اراکین ہیں۔جس
کا فیصد4.42ہے۔ اور 42اراکین پارلیمان میں سے صرف دو اراکین پالیمان ہیں‘
جن کا فصید 4.76ہے۔اگر سیاسی میدان میں مسلمانوں کی رہنمائی دیکھی جائے تو
یہ واضح طور پر کہا جاسکتا ہے کہ کسی مسلم کو بطور صدر یا نائب صدر منتخب
کرنا بہت ہی آسان ہے مگر کسی مسلم رکن کو لوکل‘ پنچایت ‘ سرپنچ یا کسی
مقامی باڈی کے چیرمین منتخب نہیں کرپائیں گے۔ اسی طرح ضلعی سطح پربھی جس
میں مسلم دانشور اور کسی مسلم چالاک اور اچھا خاصا تجربہ رکھنے والا بھی
کوئی بھی مسلمان نہیں ملے گا۔ جناب ابو صالح شریف نے سمینار میں تقریر کے
دوران بتایا تھا کہ وزارت برائے اقلیتی معاملات اتنی پیچیدگی سے کام کررہی
ہے کہ مسلم اکثریتی اضلاع میں 37800(سائنتیس ہزارآٹھ سوکروڑ) مارچ2011تک
تقسیم کرنے کے لئے کہا گیا تو اتنی سی قلیل رقم بھی مسلم اکثیریتی اضلاع
میں تقسیم نہیں کی گئی۔ اور تعجت کی بات یہ ہے کہ 22.8فیصد یعنی
جملہ856(آٹھ چھپن کروڑ) ہی تقسیم کر پائے۔ سچار کمیٹی نے ان آنکڑوں کے
ذریعہ مسلم طبقہ کی خستہ حالت کو کھلے انداز میںپیش کیا۔ جبکہ رنگا ناتھ
مشرا کمیشن نے حکومت کو واضح طور پر کہہ گیا کہ مذہبی اور قومی اقلیت کمزور
طبقات کو خصوصی توجہ کے لئے دفعہ 46کے مطابق ترقی کے لئے اہل ہیں۔رنگا ناتھ
مشرا کمیشن نے حکومت سے یہ سفارش کی کہ مسلمانوں کو تعلیمی و روزگار میدان
میں 10فیصد تحفظات فراہم کرے یا کم از کم 8.5 فیصد تو مہیا کرے۔ حتیٰ کہ
سوپریم کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں یہ کہا کہ منڈل ججمنٹ میں یہ مسلّم ہے
کہ ہمہ قسم کے درجات تعلیمی اور روزگار میدان میں ہمہ قسم کے مذاہب ہیں۔
اور انہیں ذیلی تحفظات فراہم کریں۔ جس میں کم از کم 27فیصد تحفظ غیر دستور
نہیں ہیں۔ مسلم طبقہ میں دیگر پچھڑے ہوئے طبقات میں سے 27فیصد میں سے
صرف5.5فیصد ہی مل پایاہے۔ سنٹر فار ایکویٹی اسٹدیز کے صدر NACکے رکن ہرش
منڈیر نے یہ حکومت سے یہ سفارش کی کہ مسلمانوں کی حالت کو بہتر کرنے کے لئے
بجٹ میں 14فیصد دیں۔ اور مسلم طبقہ کے لئے بھی ایس سی ایس ٹی سب پلانس کی
تعمیر کریں۔حکومت نے ان کی شفارش پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے اگر مسلمانوں
کو تعلیمی میدان میں بالخصوص اعلیٰ تعلیمی میدان میں تحفظات فراہم کرنے پر
ہائیکورٹ اور سوپریم کورٹ ان تحفظات کو مذہبی قرار دیکر روک دیتی ہے۔یہ
دیکھ کر بڑا تعجب ہوتا ہے کہ کبھی عدلیہ اپنے فیصلے سنا کر حکومت کی دی
ہوئی تحفظات پر روک لگا دیتی ہے۔تو کبھی حکومت تحفظات فراہم کرنے میں ناکام
ہو جاتی ہے۔ آئین کے اعتبار سے ذیلی تحفظات نہ بنائیں تو اس مسلم طبقہ اچھا
خاصا نقصان ہوسکتاہے۔ مذکور بالا سے یہ صاف ظہار ہوتاہے کہ مسلمانوں کو جن
کے اہم پہلو سے ہٹادیا جارہا ہے۔ وجوہات حسبِ ذیل ہیں :
(۱) کبھی حکومتی افسران غریب مسلم طبقے کے اسکیمس پر عمل کرنے کے لئے ڈرتے
ہیں کہ کہیں ان کو مسلم پرست کا الزام نہیں لگ جائے۔
(۲) کبھی حکومت ایسے پالیسیز اختیار کرتی ہے کہ مسلمانوں کے لئے نافذ کئے
گئے اسکیمس ان کی انگلیوں تک نہیں پہنچ پاتے۔
(۳) حکومت حقیقی طور پر تعلیمی اور معاشی طورپر پسماندہ مسلم افراد کو
پہچاننے میں نا کام ہوئی گئی ہے۔
مسلمانوں کی صورتحال کو مزید بگڑنے سے بچانے کے لئے حکومت کو چاہئے کہ
مسلمانوں کے لئے علاحدہ بجٹ اور سب پلانس تیار کریں۔ جیسا کہ ایس سی اور
ایس ٹیس کے لئے تیار کئے گئے ہیں۔ صرف سب پلانس تیار کرنے سے ہی کام نہیں
چلتا بلکہ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس پر سختی سے عمل آوری کے لئے خصوصی کورٹس
اور ادارے تیار کئے جائیں۔ جن کے مراکز ضلعی‘ ریاستی اور قومی سطح پر ہوں۔
اور ان اسکیموں پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ منظور شدہ اسکول غریب مسلمان
افراد کی زندگیوں کو بچا لیں۔ اور ان اداروں کو بھی ذمہ داری سے کام کرنا
ہوگا۔ تاکہ غریب مسلمانوں کا مال غریب سے غریب مسلمان تک پہنچے۔ اب وقت کی
یہ ضرورت ہے کہ کل مسلم طبقات اتحاد کا مظاہرکریں اور تمام سیکولرسیاسی
پارٹیو ں کو مجبور کریں کہ وہ غیرمذہبی رویہ اختیار کریں۔
(۱) ہمہ قسم کے فلاحی اسکیمس مسلمانوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کریں‘ جس
سے غریب ترین مسلمان کو ہی اس کا فائدہ پہنچے۔
(۲) آئین کے مطابق اقلیتی مسلم طبقے کو تعلیمی روزگار اور سیاسی شعبوں میں
تحفظات فراہم کریں۔ تاکہ مسلم طبقے کی جڑیں مضبوط ہوسکیں۔اُس طرح جس طرح کہ
ایس سی ایس ٹیس غیر مسلم پچھڑے ہوئے طبقات کو تحفظات فراہم کئے گئے ہیں۔
مسلمانوں کا یہ مسئلہ سیکولرسیاسی پارٹیوں کے لئے ایک امتحان ہے۔ مسلمانوں
کو قوم کے سیاسی پارٹیوں سے ا میدیں وابستہ ہیں۔ اب وقت کی اہم ضرورت ہے کہ
اپنے آپ کو غیر مذہبی سیاسی پارٹیاں کہنے والے اور مسلمانوں کے ہونٹوں پر
کامیابی حاصل کرنے والے اور مسلم سیاسی قائدین بھی مسلمانوں کے ساتھ ہو رہی
تباہی و بربادی کو روکیں۔ اور ان کی حمایت کرتے ہوئے انہیں آگے بڑھائیں۔
مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ایسی پارٹیوںکو ہی اپنا قیمتی ووٹ دیں اور غیر
مذہبی ہو او ر مسلمانوں کی ترقی چاہتا ہو۔ |