مادہ پرستی اور دنیا کی حرص و
لالچ کی کثرت انسانی سرشت میں چند ایک اخلاقی برائیوں کی رغبت میں اضافہ کر
دیتی ہے۔ اس دنیا کی حقیقت کچھ بھی نہیں بلکہ” ایک مچھر کے پر“ کے برابر
بھی نہیں جس پر ہم سب کا ایمان بھی ہے مگر جب ہم اپنے شب و روز کا بنظرِ
عمیق جائزہ لیتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ شاید اس بات پر ہمارا دعویٰ کچھ
زبانی سا ہے، سوائے ان خوش نصیبوں کے جنھیں اللہ کی خاص توفیق و نصرت میسّر
رہتی ہے۔ ہمارے وجود میںجہاں اور بہت سی اخلاقی کمزوریاں سرایت کیئے ہوئے
ہیں وہاں ”ماپ تول“ میں کمی کا رحجان ایک ناسور کی طرح پورے معاشرے کو اپنی
لپیٹ میں لیئے ہوئے ہے۔ تقریباً معاشرے کا کثیر طبقہ اس اخلاقی برائی کے
زیر اثر دنیا و آخرت میں جوابدہی سے بے خوف اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔
مقدار اور وزن کی کمی کے ساتھ ساتھ معیار میں بھی کمی کا رحجان خاص طور پر
قابل ذکر ہے۔ اشیائے خوردو نوش میں ملاوٹ بھی اسی زمرے میں آتی ہے جو فی
زمانہ بڑے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ معاوضہ تو معیاری چیز کا حاصل کیا جاتا ہے
مگر فروخت غیر معیاری چیز کی جاتی ہے اور یہ بڑی ستم ظریفی ہے۔ اب یہ
بیماری پورے معاشرے میں ہر سطح پر پائی جاتی ہے۔ اسی اخلاقی پسماندگی و
پستی کے وجود کے پیش نظر انسان کسی بھی سطح پر عدل و انصاف کے تقاضے پورے
کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔ ”انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول میں
کم نہ دو“(سورة رحمان، آیت۹) قرآن کریم کی اس آیت کے سیاق و سباق سے معلوم
ہوتا ہے کہ جہاں ماپ تول کا ذکر آتا ہے وہاں عدل و انصاف کو کلیدی حیثیت
حاصل رہتی ہے۔ علاوہ ازیں ماپ تول سے مراد عام زندگی میں لوگوں کے مابین
فیصلے صادر کرتے وقت بھی ہر سطح پر عدل و انصاف کے قیام کو اولیت دینا
بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ سورة حدید کی آیت 25 میں لفظ ”میزان“ سے
مراد ”انصاف اور ترازو “لیا گیا ہے یعنی تول کر پورا عدل کے ساتھ دو۔ اس سے
دونوں مقاصد کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں اس اخلاقی صفت کا
فقدان دراصل نا انصافی اور عدمِ مساوات کا موجب بنتا ہے جو حقیقی معنوں میں
معاشرتی تباہی و بربادی کو بنیاد فراہم کرتا ہے۔ پھر یوں ہی حرام خوری کی
لذتوں میں گرفتار ہو کر انسان اپنے تمام نیک اعمال کو غارت کر دیتا ہے اور
اُسے احساس تک بھی نہیں ہو پاتا۔
معاشرے کی اکثریت کو مال و زر میں اضافے کی دوڑ اور ایک دوسرے سے سبقت لے
جانے کے جنون میں تمام اخلاقی حدود کو پامال کرتے وقت ذرا بھی خیال نہیں
رہتا کہ بالآخر کسی اتھارٹی کے سامنے جوابدہی کے عمل سے گزرنا ہے۔ یہ بات
بھی ہر خاص و عام کے مشاہدہ میں رہتی ہے کہ اشیائے خورد و نوش کے علاوہ
دیگر ضروریات زندگی کی اشیاءکے معیار اور مقدار میں کس قدر بد دیانتی کا
مظاہرہ کرتے ہوئے نت نئے انداز میں ایسے گھناؤنے کاروبار کو عوام کے اندر
مقبول کرنے پر محنت کی جاتی ہے جس سے صحیح اور غلط، معیاری اور غیر معیاری
ہونے کا فرق مٹ چکاہے، کھرے کھوٹے کی پہچان ناممکن ہو گئی۔ یہ اخلاقی برائی
کوئی معمولی برائی نہیں بلکہ ایسا رویہ تو یقیناً گناہِ عظیم ہے۔ دھوکہ دہی
سے مال تو فروخت ہو جاتا ہے مگر اس میں خیر و برکت نام کی کوئی چیز نہیں
رہتی ۔ ایسے کاروبار میں انتہائی عیاری سے دوسروںکے حقوق کو غصب کر کے اپنے
لیئے بڑے شوق سے جہنم خریدی جاتی ہے۔ ایک مسلم معاشرے سے تعلق رکھنے کی
بنیاد پر ہمیں خصوصی طور پر اس اخلاقی خرابی سے اجتناب کرنے کی سختی سے
ہدایت ہوئی ہے مگر بد قسمتی سے دنیا کی قوموں کے اندر شاید سب سے زیادہ ہم
ہی اس لعنت میں ملوث ہیں۔ قرآن کریم میں تو ہمارے لیئے واضح پیغام ہے کہ
”اور جب ناپنے لگو تو بھرپور پیمانے سے ناپو اور سیدھی ترازو سے تولا کرو
یہی بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت اچھا ہے“ (سورة بنی اسرائیل، آیت
35 ) اس آیت کی روشنی میں دیکھا جائے تو ایک واضح رہنمائی حاصل ہو جانے کے
بعد اپنی روش کو بدلنے میں مزید لیت و لعل سے کام لینا کسی بھی بڑے عذاب
الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اس اخلاقی خرابی کی مزید تباہی اور
ہولناکی کا اندازہ سورة المطففینکی ابتدائی چھ آیات سے لگایا جا سکتا ہے جن
میں بتایا گیا ہے کہ ”بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی، کہ جب
لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں، اور جب انھیں ناپ کر یا
تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں، کیا انھیں مرنے کے بعد جی اٹھنے کا خیال
نہیں، اس عظیم دن کے لیئے، جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے“۔
اتنی بڑی وعید کے بعد جن کے دلوں میں رتی برابر بھی ایمان ہے وہ اللہ کی
کتاب کو پس پشت کیسے ڈال سکتے ہیں مگر حقائق شاید اس کے برعکس گواہی دے رہے
ہیں۔ ناپ تول میں ڈنڈی ما رنے والے آخرت کی ذلت و تباہی کے اسباب مہیا کرنے
کے ساتھ ساتھ اس دنیا پر ہی اپنے کیئے کا انجام پا لیتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی
ایک حدیث بھی اس ضمن میں گوش گزار کر دینا انتہائی قرین انصاف ہو گا کہ:
”جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے، تو اس پر قحط سالی، سخت محنت اور
حکمرانوں کا ظلم مسلط کر دیا جاتا ہے“ (ابن ماجہ، حدیث نمبر4019 )۔ اس قدر
غیر اخلاقی جرم میں ملوث افراد یا قوم کیا اس بات سے نہیں ڈرتے کہ ایک بڑا
ہولناک دن آنے والا ہے جس میں ہر شخص کو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونا ہے۔ یہ
قبیح حرکات ایسے ہی لوگوں سے سرزد ہوتی ہیں جنھیں یا تو اس کی ہولناکی کا
علم نہیں ہوتا یا پھروہ اپنے دلوں میں اللہ رب العزت کا خوف اور قیامت کا
ڈر نہیں رکھتے۔ |