احمد بیٹا سیڑیاں اُترتے وقت
سبحان اللہ پڑھتے ہیں ثواب ملے گااور اللہ تعالیٰ بھی خوش ہوگا۔ماں نے بیٹے
کوسمجھایا کچھ دیر بعد بچے نے آکرماں سے شکایت کی امی مجھے سمیع اللہ نے
مارا ہے، کہاں ہے وہ ماں فورا بیٹے کی انگلی پکڑکر باہر نکلی اور سمیع اللہ
کے گھر کے دروازے کے باہر کھڑے ہوکر زور زور سے اول فول بولنے لگی ،بیٹا
جھوٹ نہیں بولتے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے پھر جنت بھی نہیں ملتی اور دوزخ
میں جانا پڑتاہے ،احمد کی ماں نے احمد کی غلط بیانی پراُسے سمجھاتے ہوئے
کہاتواحمد بولا جی امی میں آئندہ جھوٹ نہیں بولوں گا۔قارئین محترم آخر یہ
جھوٹ چیزکانام ؟میرے خیال میں اُس غلط بیانی کانام ہے جس کاحقیقت سے کوئی
تعلق نہ ہو،جیساکہ آپ اخبار پڑھ رہے ہوںتو آپ کوکسی دوست کافون آجائے وہ
پوچھے آپ کیاکررہے ہیں اور آپ کہیں ابھی نہاکرآیا ہوں ناشتہ تیار کررہاہوں
۔حالانکہ آپ اخبار پڑھ رہے تھے لیکن آپ نے اپنے دوست کووہ بات بتائی جس کا
حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔بات وہیں سے شروع کرتے ہیں ۔اسی شام نور کے
گھر اس کی کچھ اور دوست آئیں نور نے اپنی دوست علیشاہ کودیکھتے ہی کہا
چلوجاﺅ ہمارے گھر سے نکلوصبح تم نے مجھے اپنے کھلونوں سے کھیلنے نہیں دیا
تھا،اس لئے اب میں تمہیں اپنے گھر میں نہیں آنے دوں گی ،،علیشاہ نے
التجائیہ لہجے میں کہا میں تمہیں اپنے کھلونے دے دوں گی لیکن پلیز تم مجھے
اپنی وہ کاپی دے دوجس پہ تم نے آج کاہوم ورک کیاہے۔نہیں میں نہیں دوں گی تم
نکلوابھی میرے گھر سے باہرتم نے مجھے صبح اپنے کھلونے نہیں دیے تھے۔علیشاہ
افسردہ اور غمگین صورت لئے نور کے گھرسے چلی گئی ۔نور کی ماں نے یہ سب اپنی
آنکھوں سے دیکھااور سنا لیکن نور سے کچھ نہ کہااور نہ ہی علیشاہ
کوروکا۔اپنے بچوں کوحقوق اللہ کا درس دینے والے والدین یہ کیوں بھول جاتے
ہیںکہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی تعلیم بھی ضروری ہے ،کیونکہ
حقوق اللہ تومعاف ہوسکتے ہیںلیکن حقوق العباد اُس وقت تک معاف نہیں ہونگے
جب تک اللہ کے بندے خود معاف نہ کردیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حقوق
اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی بھی تاکید کی ہے ۔اپنی مخلوق سے پیار
کرنے اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا بارہاحکم دیا ہے آپ نے بھی ایک دوسرے
سے پیار ومحبت کادرس دیا ہے ۔اسلام نے تمام مسلمانوں کوبھائی بھائی قرار دے
کر ایک دوسرے کے حقوق فرض کردیئے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کے بچوں
کا اخلاق تباہ کرنے میں زیادہ قصور تربیت کاہے،مائیں اپنے بچوں کو حقوق
اللہ اور دین کے بنیادی احکامات تو سکھاتی ہیں لیکن انہیں مسجد میں نماز
پڑھنے ،قاری صاحب سے سپارہ پڑھنے تو بھیجتی ہیں لیکن اُن کی تربیت کرتے وقت
حقوق العباد کے بارے میں بتانا ہی بھول جاتی ہیں۔اللہ خوش اور ناخوش،جنت کے
ملنے یادوزخ میں پھینک دیئے جانے کاڈر سناکر نماز پڑھنے،قرآن سیکھنے ،پڑھنے
اور روزہ رکھنے پر توآمادہ کرلیتی ہیں لیکن یہ نہیں بتاتیں کہ کسی کادل
دکھانا بہت بُری بات ہے۔یہ توسیکھایا جاتا ہے کہ جھوٹ نہیں بولنا لیکن یہ
نہیں سیکھایاجاتا کہ بیٹاکسی کی دل آزاری نہیں کرنی چاہئے،یہ توسیکھایا
جاتا ہے کہ چوری نہیں کرنی چاہئے لیکن یہ نہیں سیکھایاجاتاکہ معاف کر دینا
اچھی اور نیکی کی بات ہے۔یہ رحمان کی صفت ہے،یہ کیوں نہیںبتایا جاتا کہ جب
کسی میں عیب یابُری بات دیکھوتو اسے پیار سے سمجھاﺅاوراس سے لڑائی جھگڑانہ
کروجب کچھ کھاﺅ پیﺅمل بانٹ کرکھاﺅ،جوچیز تمہیں اپنے لئے اچھی لگے اسے
دوسروں کے لیے بھی پسند کرو،جب کوئی بڑادکھائی دے توفوراسلام کرو،کبھی اپنے
بچوں کے ہاتھ سے کسی غریب کوکچھ پیسے نہیں دلواتے ،بچوں میں کسی غریب
یایتیم بچوں سے ہمدردی و محبت کا شعور بیدار نہیںکیا جاتاہمارے ہمسایہ نے
کب سے کھانا نہیں کھایا،اس کے پاس کچھ پہننے کوہے یانہیں۔مائیں اپنے بچوں
کی پرورش کرتے وقت بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں جودرحقیقت بچوں کی شخصیت
کوبنانے ،بگاڑنے میںاہم کردار اداکرتی ہیں کونظر انداز کردیتی ہیں۔حالانکہ
یہی وہ تربیت ہے جوبچوںکوکامیاب انسان اور اچھا مسلمان بناتی ہیں ۔ان
کومومن کے درجے تک پہنچاتی ہیں کیونکہ مومن تووہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے
دوسرے انسان اور تمام مسلمان محفوظ رہیںیہ نہیں کہ حقوق اللہ کونظرانداز
کردیاجائے بلکہ حقوق اللہ سے حقوق العباد تک کا سفر ہونا چاہیے ۔یہی سفر
اصل منزل تک پہنچائے گاوہ منزل جسے پاکردین و دنیادونوں میں یقینی کامیابی
و کامرانی حاصل کی جا سکتی ہے۔بچوںکوجب قرآن پڑھنے پر آمادہ کیا جائے
توساتھ میںیہ بھی سکھایا جائے اور پڑھایاجائے کہ قرآن کریم میں کیا لکھاہے
،قرآن کریم ہمیں کیا درس دیتااور اُس پر عمل کس طرح کرناہے۔میں سمجھتا ہوں
کہ بچوں میں حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کاشعور بیدار کرکے ایک قابل رشک
معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے ۔ |