وہ تینوں مرد میلے میں گھوم پھر
کر میلے کو انجوائے کررہے تھے ان کا تعلق عرب امارات سے تھا وہ تینوں نہایت
ہی متناسب قد کاٹھ کے ساتھ ساتھ چہرے مہرے سے بھی خوبصورتی کا پیکر تھے
خالق نے انہیں نہایت ہی تراش خراش کرکے بنایا تھا اور ایک نظر پڑنے کے بعد
دوبارہ دیکھنا ضروری ہوجاتا تھالیکن یہی خوبصورتی ان کیلئے اس قوت مصیبت بن
گئی جب سعودی پولیس (شرطوں) نے انہیں میلے سے گرفتار کرلیا اور ہیڈ کوارٹر
لے گئے اور کچھ پوچھ گچھ اور ضروری کارروائی کے بعدانہیں جہاز میں سوار
کراکے ڈی پورٹ کردیا گیا یعنی انہیں واپس ان کے وطن بھیج دیا گیا۔ جانے سے
پہلے انہوں نے سوال کیا کہ آخر ہمیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے ہمارا جرم
کیا ہے؟ تو انہیں بتایا گیا کہ چونکہ تم تینوں نہایت ہی خوبصورت ہو اور
تمہاری وجہ سے سعودی خواتین کے بہکنے کا اندیشہ ہے اور فتنے کا خطرہ ہے اس
لئے تم اس ملک میں نہیں رہ سکتے لہذا گورنمنٹ کے حکم پر اس ملک سے واپس
تمہیں اپنے ملک بھیجا جارہا ہے۔بظاہر تو یہ عمل ایک خبر لئے ہوئے تو ہے
لیکن کوئی خاص بات دکھائی نہیں دیتی مگر میں چند باتیں کا موازنہ اور احاطہ
حکومت پاکستان اور اس کی پاورفل مشینری سے کرناچاہونگا-
میلہ ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں پر لوگ کسی خاص وجہ کے تحت اکٹھے ہوتے ہیں
اور کسی بزرگ کے مزار پر منایا اور لگایا جاتا ہے جہاں پر ایک ہی وقت میں
بہت سے ایونٹ ہورہے ہوتے ہیں کہیں پر اونٹ ناچ رہے ہوتے ہیں تو کہیں گھوڑوں
کا رقص اور ڈور ہورہی ہوتی ہے کہیں پر کتوں سے کتوں تو کہیں ریچھ اور کتوں
کی خونخوار لڑائی سے لوگ محظوظ ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ موت کا کنواں اپنی
طرف لوگوں کو متوجہ کررہا ہوتا ہے تو کہیں سرکس سے لوگوں کو attract کیا
جاتا ہے یعنی کہ ایک عجیب سی بدنظمی اور بے ترتیبی ہوتی ہے اور اسی بے
ترتیبی اور بے ڈھنگے پن کی وجہ سے کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں اور یہ خبریں
عام ہوتی ہیں کہ فلاں کا بیٹا بیٹی بچہ یا بچی بھیڑ میں گم ہوگئی ہے اور اس
افراتفری میں انہیں تلاش کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے حتی کہ ترقی یافتہ
ملکوں کے میلوں میں بھی ایسا ہی بے ڈھنگا پن اور بے ہنگم سا ماحول ہوتا ہے
لیکن میں داد دیتا ہوں سعودی عرب کی فورس اور حکومت کو جو کہ ہر معاملہ پر
اپنی آنکھیں کھلی رکھے ہوئے ہیں انہیں اپنی رعایا کی یہاں تک فکر ہے کہ ایک
میلے میں گھومنے والے لوگوں کو نہ صرف واچ کیا جاتا ہے بلکہ ہر شخص کا غیر
معمولی مشاہدہ کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ میلے میں گھومنے پھرنے والے
تین لوگوں کو واچ کرلیا گیااور نہ صرف واچ کیا گیابلکہ یہ بات محسوس کی گئی
کہ یہ لوگ extra ordinary خوبصورت دکھائی دیتے ہیں-
پاکستان میں ہماری فورسز اور ایجنسیاں جن کو رکھا اور بنایا ہی ان مقاصد
کیلئے ہے کہ وہ ملک میں افراتفری لاقانونیت نقص عامہ اور بالخصوص دہشت گردی
کے حوالے سے ملوث افراد کوٹریس کریں اور عوام کو امن و تحفظ فراہم کریں مگر
بے سود۔ ہزاروں دہشت گرد ملک کے کونے کونے میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ بتایا
جاتا ہے کہ آج دس دہشت گردسندھ میں داخل ہوگئے ہیں تو کل پانچ پنجاب میں
داخل ہونے والے ہیںتین افغان بارڈر کراس کرکے پاکستان میں داخل ہوچکے ہیں
کل لاہور میں بلاسٹ کا خطرہ ہے تو آج کوئٹہ میں پچاس سے زائد بم بلاسٹ میں
مارے گئے ۔ ہماری فعال ایجنسی خبر دیتی ہے کہ ایک دہشت گرد گروہ اسلام آباد
کی سڑکوں پر پیدل مارچ کررہا ہے ۔ لیکن شاباش ہے ہماری ان فورسز کو کہ آج
تک کوئی دہشت گردانکی کاوشوں اور محنت سے پکڑا گیا ہے اور نہ ہی ماراجاسکا۔
ربوں(خدا کی طرف سے)کوئی پکڑا گیا یا مارا گیا توالگ بات ہے ان کی محنت سے
تو بالکل نہیں۔
ہاں اگر بات کی جائے ان کی پھرتیوں اور کارکردگی کی تو ہزاروں بے گناہ
لوگوں کو پکڑ کر غائب کرنے میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتےں۔ ایسے بہت سے لوگ
ہیں جنہیں غائب کردیا گیا ہے اور ان کے لواحقین روتے پیٹتے رہ گئے کورٹس
حتی کہ سپریم کورٹس کے دروازے پر دستک دی گئی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا سپریم
کورٹ بھی بار بار کہہ کہہ کر تھک چکی ہے-
دوسرا یہ کہ فتنے اور شر سے بچانے کیلئے سعودی حکومت تو کیا ہر گورنمنٹ
چاہتی ہے کہ ہمارے ملک میں عوام سکون و آرام سے معمولات زندگی گزاریں لیکن
پاکستان میں معاملہ الٹ ہے یہاںپرحکمرانوں کی اولین کوشش ہوتی ہے کہ عوام
کو آرام و سکون سے آشنا ہی نہ ہونے دیا جائے ایسا نہ ہو کہ یہ ان کی ڈیمانڈ
کریں۔ انہیں معلوم ہے کہ اگر عوام سکون میں آگئی تو پھر ہمارا آرام و سکون
غارت ہوجائیگااور اپنی شامت بلانے سے ہر کوئی بچنا چاہتا ہے بالخصوص حکمران
پاکستان اور اس کے کرتا دھرتا سوائے مشرف کے(فی الحال) ہماری حکمرانوں کی
ترجیح ہے کہ ملک اور عوام میں سکون نام کی کوئی چیز اگر ہے تو اسے چھین لیا
جائے۔ شر فتنہ انگیزی بلوے قتل و غار ت دہشت گردی جیسے عفریت تحفے میں دے
کر اپنے اپنے عشرت کدوں میں داد عیش دے رہے ہیں اور عوام جائے کھو کھاتے۔
کچھ حکمران تو اس قدر بے غیرتی اور ڈھٹائی کا مظاہر ہ کرچکے ہیں ان کے
ساتھ” کتے خوانی“ہونے کے باوجود وہ دن کو رات اور رات کو دن کہتے رہے اور
پھر All is OK کا نعرہ لگا کربے حسی کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر لگاتے رہے ۔
آصف علی رزداری رحمان ملک یوسف رضا گیلانی راجہ رینٹل شریف برادران چوہدری
برادران اور ان کے بادشاہ و شہنشاہ سید پرویز مشرف۔ اور پرویز مشرف تو وہ
ہیں کہ جس کے اقتدار میں ہوتے ہوئے عوام کو سکون مل سکا نہ کہ اقتدار کے
بعد۔مشرف کے شاہی دور میں بھی عوام سڑکوں پر تھی پولیس وکلااور ججز میں
گھمسان کا رن تھا پھر ملک سے بھیج دیا گیا اور آج پھر واپس آکر اقتدار میں
نہ ہوتے ہوئے بھی عوام پولیس وکلا کو پھر آزمائش میں ڈالا ہوا ہے یعنی کے
مر کے بھی چین نہ آیا تو کدھر جائیں گے کے مترادف عوام کو پھر چکی میں پیسا
جارہا ہے اور حکومت کی کوئی پلاننگ کہیں پر قابل عمل ہوتی دکھائی نہیں دیتی
بس اللہ ہی ہمارا حامی و ناصر ہے- |