مکافات عمل

21اگست 2008مظفر آباد میںایک خاکروب کی بچی جاں بحق ہو گئی،مسلمان یہ مانتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے مگر صفائی کرنا اپنی تو ہین سمجھتا ہے لہٰذا اس مقصد کے لیے ہم نے ملک بھر میں یہ ذمہ داری ایک اقلیت کے ذمے لگا رکھی ہے وہ ہی ہمارے باتھ رومز سے لیکر کر گلی محلوں اور سڑکوں کی صفائی کر تے ہیں وہ اپنی ڈیوٹی پوری تندہی اور دیانت داری سے ادا کرتے ہیں تا کہ گندگی اور غلاظت سے پھیلنے والی بیماریوں سے ان کے اہل وطن (جن میں97فی صد مسلمان ہیں)محفو ظ رہ سکیں،مگر ہم بجائے ان کے مشکور ہوں ان کو حرف غلط سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ انتہائی حقارت کا رویہ روا رکھا جاتا ہے ،حالانکہ وہ خود گندے نہیں گندگی صاف کرنے والے ہوتے ہیں ،اب صفائی کرنے والے اور آلائشیں اٹھانے والوں پر کیسے گندہ ہونے کا فتویٰ صادر کیا جا سکتا ہے کم از کم یہ اپنی سمجھ سے تو بالا ہی ہے،تو بات ہو رہی تھی خاکروب کی بیٹی کی جو مظفر آباد میں انتقال کر گئی،اس کے عزیزو اقارب اسے دفن کرنے کے لیے قبرستان میں لائے تو چونکہ اس کا تعلق ایک اقلیت سے تھا تو اہل مظفر آباد کی غیرت ایمانی کیسے گوار ا کرتی کہ ایک معصوم بچی جس کاتعلق نہ صرف ایک غیر مسلم اقلیت سے ہے بلکہ اس کا باپ بھی ایک نہایت غریب اور مفلوک الحال دوسروں کے گھروں اور گلی محلوں میں صفائی کرنے والا شخص تھا جس کی کوئی قانونی و معاشی حیثیت نہ تھی سو مومنین نے صف آرائی کر لی اورنام نہاد مفتیان کرام نے اپنے توپ وتفنگ یعنی لاﺅڈ اسپیکرز سنبھال کے مسمانوں کو جوش وغیرت دلانا شروع کردی کہ اگر اس بچی کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا گیاتو مظفر آباد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی نہ صرف مظفر آباد بلکہ احتجاج کا دائرہ پورے ملک تک وسیع کر دیا جائے گاغربت کا مارا باپ اپنی بچی کی نعش سڑک پر رکھ کے اپنے چند اہل خانہ کے ہمراہ تین دن بیٹھا منتیں ترلے کرتا رہا مگر وہ جن کو حکم دیا گیا کہ کرو مہربانی تم اہل زمیں پر کے کان پر جوں تک نہ رینگی آس پاس کرسچئین قبرستان نہ ہونے کی وجہ سے کسی کو کچھ سمجھ نہ آرہی تھی یہاں تک کہ مرنے مارنے پر تلے بیٹھے بھی اند ر سے نہ صرف پریشان تھے بلکہ انہیں بھی اس کا کوئی حل نظر نہیں آرہا تھا کہ اب ہو گا کیا، دفن نہ کرنے دیتے تو نعش خراب ہوتی اور دفن کرنے دیتے تو نام نہاد انا آڑے آتی،ادھر مسیحی برادری نے بھی احتجاج کی کال دے دی کہ ہم اس وقت تک صفائی کی ڈیوٹی نہیں کرینگے جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو جاتا،وزیراعظم آزاد کشمیر برطانیہ کے دورے پر تھے اور کوئی اتنا اہل تھا نہیں جو کوئی قابل عمل تجویز دیتاکافی رد و کد کے بعد فیصلہ ہوا کہ چونکہ سیالکوٹ میں مسیحی قبرستان ہے لہٰذا اس بچی کو وہاں دفن کرنے کا انتظام کیا جائے،بلدیہ مظفر آباد سے ایمبولینس کی بجائے ایک ٹویوٹا پک اپ اس بدنصیب اور لاوارث خاندان کو دی گئی جس میں سوار ہو کر یہ خاندان مظفر آباد سے سیالکوٹ پہنچا جہاں اس بچی کو دفن کیا گیالیکن یہ سچی اسٹوری ابھی ختم نہیں ہوئی،دن رات کے لگاتار سفر کے بعداس خاندان کے آرام کا کہیں کوئی بندوبست نہ تھا اور گاڑی کے ڈرائیور کو بھی یہی حکم تھا کہ جیسے ہی بچی کی میت کو دفن کر دیا جائے فوراً واپس چل پڑنا ہے کیوں کہ غالباً یہ پک اپ بلدیہ ایڈمنسٹریٹر کے گھر لگے پودوں کو پانی دینے یا کسی ایسی ہی دیگر ڈیوٹی پر معمور تھی،یہ گاڑی جن دس بارہ افراد کو لیکر گئی تھی انہی کو لیکر واپس مظفر آباد کی جانب عازم سفر ہوئی راستے میں مسلسل سفر اور تکان کی وجہ سے نہ جانے کب ڈرائیور سو گیا اور گاڑی اپنے تمام مسافروں سمیت دریائے جہلم میں جا گری اور کوئی ایک بھی فرد نہ صرف زندہ نہ بچا بلکہ کسی کی بھی نعش تک نہ ملی ایک لحاظ سے غالباً قدرت نے ان پہ یہ مہربانی ضرور کی کہ اگر ان کی نعشیں ملتی تو ایک دفعہ پھر ان کے دفنانے پر اہل ایماں کی شمشیریں بے نیام ہو جاتیں اور پھر بلدیہ کی پک اپ کی بجائے اب کی بار ٹرک پہ انہیں کسی دوردراز علاقے میں بھیجنا پڑتا،یہ خبر جونہی مظفر آباد پہنچی تو ہر درددل رکھنے والا شخص اندر سے کٹ کر رہ گیاپورا علاقہ سوگوار ہو گیا سیکرٹری مذہبی امور اکرم سہیل نے نظم کہہ ڈالی :کاش یہ کربلا ہوتا:وزیراعظم نے آتے ہی مسیحی برادری کے قبرستان کے لیے منظفرآباد کے علاقے ماکڑی میں پانچ کنال زمین کا ٹکڑا اور چار لاکھ روپے اس کی چاردیواری کے لیے وقف کر دیے لیکن شاید تب تک وزیر اعظم کے فیصلے سے پہلے سب سے بڑی عدالت سے کچھ اور فیصلہ صادر ہو چکا تھا اکیس اگست سے 8 اکتوبر تک غالباًایک مہینہ اور اٹھار ہ دن بنتے ہیں جی صرف اڑتالیس دن بعد جب لوگوں کے ذہن سے یہ واقعہ تقریباً نکل چکا تھا یا نکل رہا تھا کہ زمین نے انگڑائی لی اور لاکھوں ہزاروں جو کسی کو اپنے قبرستان میں دفن نہیں ہونے دے رہے تھے وہ اور ان کے بے شمارپھول جیسے معصوم بچے بے گورو کفن کوئی کہیں دب گیا تو کوئی کہیں دفن ہو گیا نہ کفن نصیب ہو ا نہ غسل،جو اسکول میں تھے کتابیں سامنے کھلی رہ گئیں،جو ناشتہ کر رہے تھے آدھا سلائس منہ میں باقی آدھا ہاتھ میں ہی رہ گیابازاروں ہسپتالوں،گھروں دفتروںسمیت کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں قیامت نہیں ٹوٹی اور کسی کو کہیں جائے پناہ نہیں مل رہی تھی،دیکھتے ہی دیکھتے پورا شہر جہاں ایک قبرستان کو اپنا کہہ کر ایک معصوم بچی کو دفن کرنے کی اجازت نہی دی گئی وہ پو رے کا پورا شہر ہی قبرستان بن گیا اور اسی وزیراعظم کو کہنا پڑ گیا کہ میں تو لگتا ہے قبرستان کا وزیر اعطم ہوں،عبرت سرائے دہر ہے ،،،،یہاں میرا مقصد اس کہانی کو بیان کر کے کوئی توجیح تلاش کرنا ہر گز نہیں بس صرف اتنی عرض کرنا گذارش ہے کہ انسان جو بظاہر طرم خاں بنا پھرتا ہے اسے اس کی حقیقت بتانا مقصود ہے کہ کبھی بھی کوئی زمیں پہ خدا بننے کی کوشش نہ کرے، مجھے یہ سارا واقعہ اپنے مفرور کمانڈو المعروف میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں کا انجام دیکھ کر یا د آئی ہے،خیر اس کا انجام کوئی اتنا انوکھا بھی نہیں کیوں کہ دنیا بھر کے ڈکٹیٹروں اور غاصبوں کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے،مگر المیہ یہ ہے کہ کوئی اس سے سبق حاصل نہیں کرتا،ایوب خان،یحیٰ،ضیاالحق بلکہ ہٹلر،حسنی مبارک،معمر قذافی،زین العابدین،رضا شاہ پہلوی،اور صدام حسین کتنے نام گنواﺅں اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو تقریباً سب کا انجام مختلف انداز میں ایک جیسا ہی ہے،کوئی بھی ڈکٹیٹر جب اقتدار پہ قابض ہوتا ہے تو رعونت اور فرعونیت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو خداکا اوتار سمجھتا ہے اور اپنے منہ سے نکلی ہر بات کو حرف آخر،تمام آمروں میں ایک قدر مشترک ہوتی ہے کہ کہ یہ اقتدار کے وقت جتنے بہادر بنتے ہیں اقتدار کے جانے کے بعد اتنے ہی بزدل اور گیدڑ نما،اپنے کمانڈو گرفتاری کا فیصلہ سنتے ہی عدالت سے بھاگ گئے تو انوکھی بات نہیں ،صدام حسین کو بھی ویرانے گھر کی کھولی سے نکالا گیا تھا،تیونس کے زین العابدین نے بھاگ کے ہمسایوں کے ہاں پناہ لی،حسن مبارک جو تیس سال تک فراعین مصر کی طرح اپنے عوام کی گردن پہ سوار رہا اور چڑیا پر نہیں مار سکتی تھی اس کے حکم کے بغیر آج عالم یہ ہے کہ عدالت میں اسٹریچر پر ڈال کر پیشی پہ لایا جاتا ہے،رضا شاہ پہلوی کا انجام بھی دنیا نہیں بھولی اپنے ہاں بھی حالات مختلف نہیں،مگر ایک قدر مختلف ضرور ہے کہ ادھر ڈھٹائی کا عالم ذرا زیادہ ہے کیوں کہ کمانڈو صاحب فرما رہے ہیں کہ مجھے تو جوتا پڑا مگر جوتا مارنے والے کو کتنے جو تے پڑے وہ کسی نے نہیں دیکھا ،مآشااللہ کیسی فہم و فراست نصیب ہو ئی ہے جناب کو ،اور پھر عدالت سے بھاگ گئے اور جان بخشی کے لیے منتیں اور ترلے ،ابھی ذرا ساہی کڑا وقت آیا تو اماں یاد آگئیں جناب ابھی تو نانی اماں بھی یاد آئیں گی ویسے بہتر ہوتا کہ جناب کمانڈو ملکہ جذبات قصوری صاحب کی بجائے خود درخواست کرتے کہ مجھے اما ں کے پاس جانے دیا جائے،اور میری اپنی رائے بھی یہی ہے کہ کسی کو بھی ماں کے قدموں سے دور نہیں کیا جانا چاہیئے مگر کیا کیجیئے کمانڈو صاحب دنیا مکافا ت عمل ہے یہاں جو بویا جاتا ہے وہی کاٹنا پڑتا ہے ،کتنے لوگوں کو آپ نے ان کی ماﺅں سے دور کیا،عافیہ صدیقی کی ماں کے بارے میںآپ کا کیا خیال ہے اوروہ سینکڑوں جو آپ نے اپنے آقا کی قربان گا ہ پہ ڈالروں کی بھینٹ چڑھا دیئے ان کی مائیں کس حال میں ہیں کبھی سوچا،وہ ہزاروں جو گھروں سے غائب ہو گئے پل پل جیتی پل پل مرتی ان کی ماﺅں کے بارے میں تو آج تک آپ کو خیال نہیں آیا،ڈرون حملوں کی اجازت کے نتیجے میں کٹتے پھٹتے بچوں کے زخمی جسم جنہوں نے ان کی ماﺅں کے کلیجے چیر دیئے ان ماﺅں کے بارے میں کیا خیال ہے، لال مسجد میں آگ و فاسفورس سے بھسم ہوتی معصوم بچے بچیوں کی ماﺅں کے بارے میں تو کبھی آپ کو خیال نہیں آیا ہو گا نا ،اورشہباز شریف جب تمہاری قید میںتھا تو اس کی ماں بھی اس سے ملنے گئی تھی،اور جناب کو یاد ہوگا اپنا تبصرہ کہ شریفوں کو اندر جاتے ہی امی یاد آگئی،آج اپنے بارے میں کیا خیال ہے،آپ تو ابھی اندر بھی نہیں گئے اور یہ حالت ہے،مگر آپ کے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں آپ کے اپنے کارنامے اور کرتوت آپ کے سامنے آرہے ہیں اور گھبرا کیوں گئے ابھی سے، ابھی تو عشق کے بے شمار امتحان باقی ہیں، ابھی تو بے نظیر بھٹو اور اکبر بگٹی کی روحیں بھی آپ کے آس پاس ہی منڈلا رہی ہیں،آپ تو توقع سے بھی زیادہ بزدل نکلے،کہاں قومی اسمبلی اور شاہراہ دستور پہ مکے لہرانے والا رعونت شعار جرنیل اور کہاں منمناتا اور بھاگتا مشرف،ہمت کریں اور شیر بن کے اپنے کیے کو تسلیم کریں دوسروں کو اس میں مت گھسیٹیں ساری دنیا جانتی ہے کہ کس کا کیا کردار رہا،اور وہ جو پنڈورا بکس کھلنے سے ڈراتے ہیں ان سے بھی گذارش ہے کہ سستی شہرت سے گریز کریں کھلنے دیں جو بکس بھی کھلتا ہے کبھی نہ کبھی تو اس سلسلے کا آغاز ہونا ہے تو کیوں نہ ابھی سے سہی،ہر کسی کو خواہ وہ کسی بھی منصب پر ہی کیوں نہ ہو اگر اس نے کچھ غلط کیا ہے تو اس کے ساتھ قانون کے مطابق کاروائی ہونی چاہیے جی ہاں صرف اور صرف قانون کے مطابق،اگر اب کی بار کسی کو استثناءدیا گیا تو تاریخ آج کے ذمہ داروں کو کبھی معاف نہیں کرے گی کبھی بھی اور نہ ہی پھر دوبارہ کبھی یہ ملک سیدھی سمت کی جانب روانہ ہو سکے گا،،،،،اللہ ہم سب پر رحم کرے-