نیدر لینڈز

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

(Netherlands)
(30اپریل:قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)

نیدرلینڈ بنیادی طور پر ولندی اقوام کا وطن ہے ،اسے مملکت ہائے نیدرلینڈ زکہاجاتاہے۔یہ شمال مغربی یورپ میں واقع ہے،اس کے شمال اور مغرب میں ’’بحیرہ شمال‘‘کے سواحل ہیں،جنوب میں ’’بیلجئم‘‘کا ملک ہے،مشرق میں جرمنی کی مملکت ہے۔سمندرکے پانیوں میں نیدرلینڈزکی حدود مذکورہ ملکوں کے ساتھ ساتھ برطانیہ سے بھی ملتی ہیں۔یہ پارلیمانی جمہوریری نظام کی حامل مرکزکے تحت چلنے والی ریاست ہے۔’’ایمسٹردم‘‘یہاں کا دارالحکومت ہے اور حکمران ’’ہاگو‘‘نامی مقام پر اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔اس ملک کو بعض اوقات ’’ہالینڈ‘‘کے نام سے بھی یاد کیاجاتاہے شاید اس کی وجہ مملکت کے دوبڑے صوبوں،شمالی ہالینڈ اور جنوبی ہالینڈ کی بین الاقوامی شہرت ہے۔ نیدرلینڈزاپنے عالمی کردارمیں بہت سی عالمی تنظیموں جیسے یورپی یونین،نیٹو،تنظیم برائے معاشی تعاون وترقی(OECD)اورعالمی تنظیم صحت(WHO)کا تاسیسی رکن ملک ہے۔نیدرلینڈزکی سرزمین پر بہت ساری عالمی تنظیموں کے مرکزی دفاتربھی ہیں جن کی میزبانی کا شرف اس ملک کو حاصل ہے ،ان تنظیموں میں سرفہرست ’’تنظیم برائے ممانعت کیمیائی ہتھیار‘‘(Organization for the Prohibition of Chemical Weapons)ہے،اس کے علاوہ دنیابھر کی پانچ بڑی عدالتوں کے صدردفاتر بھی نیدرلینڈزمیں واقع ہیں؛مستحکم عدالت پنچائت(Permanent Court of Arbitration)،عالمی عدالت انصاف،خصوصی عالمی عدالت برائے جرائم سابقہ یوگوسلایہ (International Criminal Tribunal for the Former Yugoslavia)،عالمی عدالت برائے جرائم (The International Criminal Court)اور خصوصی عدالت برائے لبنان( The Special Tribunal for Lebanon)۔’’ادارہ ارض‘‘کے زیراہتمام اپریل 2012کے سروے کے مطابق نیدرلینڈ دنیاچوتھا خوشحال ترین ملک ہے۔یہاں دنیاکے تقریباََتمام مذاہب کی نمائندگی پائی جاتی ہے،یورپ کی معاشی ترقی میں اس وقت نیدرلینڈزایک حدتک کلیدی کردارکاحامل ہے،پونے دوکروڑ کے لگ بھگ یہاں کی آبادی ہے اور ’’ڈچ‘‘دفتری و قومی زبان کے طورپر رائج ہے۔

رومن ایمپائر چارلس پنجم اور اسکے بعد شاہ اسپین کے دور میں نیدرلینڈزکاعلاقہ’’سترہ صوبوں‘‘میں سے ایک تھا،علاقے کی تاریخ میں یہ سترہ صوبے اپنی جداگانہ جغرافیائی و سیاسی شناخت رکھتے ہیں۔اس وقت کے نیدرلینڈزمیں موجودہ بیلجئم،لیگژم برگ اور فرانس اور جرمنی کے کچھ سرحدی علاقے بھی شامل تھے۔1568ء میں ان ’’سترہ صوبوں‘‘اور اسپین کے درمیان اسی سالہ طویل جنگ ہوئی۔اس دوران1578ء میں’’سترہ صوبوں‘‘کے شمالی نصف نے اپنی الگ سے ’’جوٹرچ‘‘نام کی ایک ریاست بنالی۔نیدرلینڈزکاتاسیسی پتھر اسی ریاست میں رکھ دیاگیاتھاجہاں سے گویا نیدرلینڈزکی تاریخ کاباقائدہ آغاز ہوا۔1648ء میں اسپین کے بادشاہ شاہ فلپ چہارم نے اس ریاست کوباقائدہ طورپر تسلیم کرلیا۔آزادی کے بعدہالینڈاورزی لینڈسمیت سات صوبوں نے مل کر ’’ریاست ہائے متحدہ نیدرلینڈز‘‘کی بنیادرکھی۔اس وقت کے مطابق ان ساتوں صوبوں میں اگرچہ الگ الگ حکومتیں تھیں لیکن بہت سے معاملات مرکزکے پاس بھی تھے اور ساتوں صوبوں کے نمائندے مل کر مرکزکی پالیسی مرتب کرتے تھے۔ماہرین معاشیات کے مطابق سرمایادارانہ معاشی نظام کی جنم بھونی یہی مملکت تھی۔سترہویں صدی کے وسط میں اسی ’’ریاست ہائے متحدہ نیدرلینڈز‘‘سے انسانوں کا استحصال کرنے والے سرمادارانہ نظام نے اپنا سفرشروع کیااور ’’ایمسٹرڈم‘‘اس نظام کے تحت چلنے والے معاشی نظام کا پہلا بڑا شہر قرارپایااور دنیائے انسانی کا پہلا مکمل اسٹاک ایکسچینج یہیں قائم کیاگیا۔

نیدرلینڈزپر فرانسیسی غلبہ کازمانہ بھی گزرالیکن 1813ء میں نپولین کو یہاں بدترین شکست کاسامناکرناپڑااور اس نے مجبوراََ فرانسیسی افواج یہاں سے نکال لیں۔موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نیدرلینڈزکے شاہی خاندان کاایک شہزادہ ولیم اول یہاں داخل ہوااور16مارچ1815ء کواس نے نیدرلینڈزمیں اپنی آئینی بادشاہت کااعلان کردیا۔اس دوران نیدرلینڈزمیں غلامی کی تجارت عروج پر تھی اور آج کی انسانیت کے ٹھیکداراس وقت انسانوں کے شکاری اور انسانوں کے بہت بڑے تاجر تھے۔1863میں نیدرلینڈزمیں غلامی کے خاتمے کااعلان کردیاگیاجوبلآخر1873میں جاکرختم ہوئی۔اس طرح یورپی اقوام نے فرد کی غلامی کو ختم کر کے تو قوموں کو غلام بنانا شروع کر دیااور نیدرلینڈ کے ولندیزیوں نے انڈونیشیاکی گردن میں طوق غلامی ڈالا۔انیسویں صدی میں نیدرلینڈزکی معاشی ترقی پڑوسی ممالک کی نسبت بہت سست رہی۔بیسویں صدی کے نصف اول میں نیدرلینڈزمیں ایک لاکھ کے لگ بھگ یہودی موجودتھے،لیکن نازی جرمنی انہیں گرفتارکرکے توجرمنی اور پولینڈ میں لے گئے جن میں سے نیدرلینڈزکے کل 876یہودی بچ گئے اور باقی ہولوکاسٹ کی نذرہوگئے۔

آج نیدرلینڈزاپنی دوائیانہ پالیسیوں کی وجہ سے ایک شناخت رکھتاہے جہاں موت کو شکست دینے کی اور اسے آسان سے آسان ترکرنے کی قانون سازی عمل میں لائی گئی ہے۔ نیدرلینڈزدنیاپہلاملک ہے جہاں یکم اپریل2001سے ہم جنسیت کوقانونی تحفظ حاصل ہے۔یہ لادین عقلیت کی ایک اورجست ہے جس نے پہلے انسان کے اخلاقی معیارات کو زمین بوس کیااور اب قبیلہ بنی نوع بشرکے خاندانی نظام کے درپے ہے۔2005ء میں علاقے کے کچھ اور جزائربھی عوامی ریفرنڈم کے بعد نیدرلینڈزمیں شال ہو گئے اور یوں یہ ایک مکمل اور وسیع ریاست بن گئی۔اب اس کا کل رقبہ41,543مربع کلومیٹرہے۔انسانی قدموں سے پہلے آج سے دوہزارسالوں قبل تک نیدرلینڈزکاعلاقہ ساحلی جڑی بوٹیوں کی کثرت کے باعث دلدل کی شکل اختیارکرچکاتھا۔لہروں کی مسلسل یلغارسے یہ علاقہ کسی قدر قابل استعمال تو ہو گیالیکن جغرافیائی خصوصی حالت کے باعث سمندری سیلاب اس علاقے پر آج تک بے حد مہربان ہیں اور یہ مسئلہ صدیوں سے ایک زندہ وجاوید مسئلے کی حیثیت رکھتاہے۔نیدرلینڈزکاکم ازکم بھی دوتہائی علاقہ اس قدرتی آزمائش کا مسلسل شکار ہے۔ماضی میں دریاؤں پر باندھے گئے بند،قدیم طریقوں سے پانی کااخراج اور قدرتی آبی گزرگاہوں کی گہرائی و کھدائی سے اس مسئلے پر قابو پایاجاتارہاجبکہ اب عصری مشینری اور بھاری بھرکم تیکنالوجی سمندری سیلابی آسیب سے نبردآزماہے۔

نیدرلینڈز1815میں شاہی ریاست بنااور پھر1848سے پارلیمانی جمہوریت ہے۔بادشاہ وقت کو ریاست کے سربراہ ہونے کااعزازحاصل ہے جسے کچھ آئینی اختیارات حاصل ہیں جن میں کابینہ کی تشکیل کے دوران غیرجانبدارانہ رائے کااظہار بھی شامل ہے۔حکومت کی سربراہی ایوان میں اکثریتی جماعت کے نمائندہ کوحاصل ہوتی ہے جو وزیراعظم کہلاتاہے۔پارلیمان کے دوایوان ہیں،ایوان زیریں کے نمائندے چارسالوں کے لیے براہ راست منتخب کیے جاتے ہیں اور اسے قانون سازی کے اختیارات بھی حاصل ہیں۔صوبائی پارلیمان کے نمائندے ایوان بالا کے نمائندوں کاانتخاب کرتے ہیں،اس ایوان کو بھی قانون سازی کے محدود اختیارات حاصل ہیں۔مملکت بارہ صوبوں میں تقسیم ہے ہرصوبے کاانتظامی سربراہ گورنرکہلاتاہے۔صوبوں کو ضلعوں میں تقسیم کیاگیاہے اور مملکت میں آبی اضلاع بھی بنائے گئے ہیں جو ’’واٹربورڈز‘‘کے تحت کام کرتے ہیں اور اپنی اپنی حدود میں بحری سیلابی پانی اور پانیوں کے دیگرمعاملات نمٹاتے ہیں۔نیدرلینڈاگرچہ ایک سیکولرملک ہے لیکن بعض انتظامی اکائیوں میں جہاں عیسائی جماتیں اکثریت میں ہوتی ہیں وہاں کاروائی کاآغازدعائیہ کلمات سے کیاجاتاہے اورعیسائی مذہبی تہواروں میں چھٹی بھی دی جاتی ہے۔تین قومی سیاسی پارٹیوں کے غراض و مقاصد کی بنیادعیسائی مذہبی نظریات پر ہیں۔سیکولرازم کی یہ منافقت ہے کہ عیسائیت کے لیے ساری آزادیاں موجود ہیں اور جب اسلام کا نام آتاہے تو نیدرلینڈزکی حکومت مسلمان خواتین کے سکارف تک کو برداشت نہیں کرتی ۔

24دسمبر1610کونیدرلینڈزکی حکومت نے مراکش کے مسلمان حکمران کے ساتھ ایک دفاعی معاہدہ کیا،نیدرلینڈزکایہ اسلام سے پہلا تعارف تھا۔انیسویں صدی میں انڈونیشیاکے جزیروں پر جب جنگ آزادی کے بعد نیدرلینڈی ولندیزیوں کو نکالاگیاتوکچھ انڈونیشوی مسلمان نیدرلنڈزمیں جاکرآبادہوئے،مغربی یورپ کے اس خطہ ارضی میں یہ مسلمانوں کا پہلاپڑاؤتھا۔گزشتہ صدی کے اواخرمیں جب یورپی اقوام کاسودی معاشی نظام دیگردنیاؤں میں غربت کاباعث بناتوترکی اور مراکش کے مسلمانوں نے حصول رزق کے لیے نیدرلینڈزکارخ کیا۔اس کے بعد سے مختلف ملکوں کے مسلمان نیدرلینڈ جانے لگے۔اب وہاں کی آبادی کا کم و بیش 6%مسلمان ہیں۔چارسے پانچ سو مساجداورابتدائی و ثانوی مسلمان تعلیمی اداروں کی ایک مناسب تعدادموجودہے۔’’نیدرلینڈ مسلم پارٹی‘‘اور’’اسلامل ڈیموکریٹس‘‘وہاں کی دو سیاسی پارٹیاں ہیں جو قومی مسائل پر بھی اپنے موقف پیش کرتی رہتی ہیں جیسے ہم جنسوں کی قانونی شادی کو مسلمان سیاسی جماعتوں نے ناپسندکیاہے۔اب تک مقامی کونسلوں میں مسلمانوں کے کچھ نمائندے بھی منتخب ہو کر پہنچ چکے ہیں۔

Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 571982 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.