شادیوں کے مسائل اُور من پسند شادی (فیضانِ اِسم اعظم ۱۵)۔

فیضانِ اِسم اعظم ۱۵(شادیوں کے مسائل اُور من پسند شادی)۔

تحریر: جناب عشرت اقبال وارثی صاحب مد ظلہ العالی

میرا خیال تھا کہ،، آج ہر حالت میں عشق کے رنگ۔ فاتح اعظم کی آخری قسط آپکی نذر کردوں گا۔ لیکن موبائیل پر موصول ہُونے والے ایک میسج نے مجھے مجبور کردیا ۔ کہ آج فیضانِ اسم اعظم میں شادی سے متعلق مسائل کا اِحاطہ کروں۔۔۔ بچیوں کو کانچ سے تشبیہ شائد اِسی لئے دِی جاتی ہے۔ کہ،، اُنہیں سچے، جھوٹے،کھرے اُورکھوٹے میں تمیز کرنا آسان نہیں ہُوتا۔۔۔۔ جِن بچیوں کو والد کی محبت میسر نہیں آتی۔ وُہ عموماً خُود سے بڑی عُمر کے مَردوں سے جلد متاثر ہُوجاتی ہیں۔ اُور اگر انکی مناسب دیکھ بھال نہ کی جائے۔ تو یہ اکثر جذبات میں آکر ایسے مشکل فیصلے کر جاتی ہیں۔ کہ جنکا تدارک بھی زندگی بھر نہیں ہُوپاتا۔

یُوں تو یہ موضوع اَپنے اندر اتنی وُسعت رکھتا ہے۔ کہ ایک کالم میں اِسکا اِحاطہ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔۔۔ لیکن میں کوشش کرونگا ۔ کہ اپنے موضوع کو ایک خاص دائرے میں رکھوں ۔ تاکہ کم از کم کسی ایک قِسم کی بچیوں کا تو میرے لکھنے سے بھلا ہُوجائے۔۔۔۔ ہمارے معاشرے میں کہنے کو تو خاندانی سسٹم بھی بُہت توانا ہے اُور برادری سسٹم بھی بُہت مظبوط دِکھائی دیتا ہے۔ لیکن اگر اِس سسٹم کا بغور معائنہ کیا جائے تو معلوم ہُوگا کہ اِس سسٹم کو بھی مفادات کی دیمک چاٹ کر کھوکھلا کرچکی ہے۔ جِس میں امیروں کیلئے الگ قانون موجود ہے۔ اُور کمزور لُوگوں کیلئے الگ قانون موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امیر آدمی غریب کی پرواہ نہیں کرتا۔ اُور غریب کو امیر سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

عموماً یہ بات مشاہدے میں آئی ہے۔ کہ بچیوں کی پیدائش کیساتھ ہی مائیں بچیوں کی شادی کے خُواب بُننے لگتی ہیں۔ اُور جُوں جُوں بچیاں بلوغت کی دہلیز پر قدم رکھتی جاتی ہیں۔ یہی مائیں اپنے خواب بچیوں کے ذہن میں منتقل کرچکی ہُوتی ہیں۔۔۔۔ لیکن ہمارے معاشرے کی ایک یہ بھی بڑی بدقسمتی ہے۔ کہ اکثر بچیاں اچھے رشتوں کے انتظار میں اپنے بالوں میں چاندی سجا لیتی ہیں۔ لیکن اچھے رِشتے میسر نہیں آتے۔۔۔ جسکے بعد اِن لڑکیوں کی سُوچ میں خود اپنا جیون ساتھی ڈھونڈنے کی خواہش پیدا ہُوکر رفتہ رفتہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔۔۔۔ پھر ذرا کسی نے اِن کے آبگینے میں جھانکھ کر اِن سے دُو چار لچھے دار باتیں کیں۔ یہ وہیں اپنا دِل ہار بیٹھتی ہیں۔۔۔۔ کئی مَرد جب اِن لڑکیوں کو یہ یقین دِلانے کے بعد کہ،، میں دنیا یہاں کی وہاں ہُوجائے۔۔۔ لیکن شادی تُم ہی سے کرونگا۔ شیشے میں اُتار چکتے ہیں۔ تو اُن کی پہلی خاہش یہی ہُوتی ہے۔ کہ وُہ آنکھ بند کر کے اُن پر اعتماد کرسکتی ہیں۔ اُور پھر ایک دن وُہ بھی آتا ہے۔ جب وُہ بچیاں اپنا سب کچھ ہار کر تہی دامن ہُوچکی ہُوتی ہیں۔ جب تک حقیقت اُن کی سمجھ میں آتی ہے۔ تب تک پانی سر سے گُزر چُکا ہُوتا ہے۔

محترم قارئین جیسا کہ میں نے اپنے پہلے پیراگراف میں کہا۔ کہ بچیاں کانچ کی مِثل ہوتی ہیں۔۔۔۔ تو مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ ،، جہاں ایک طرف مردوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ مَرودوں میں انبیاٗ کرام علیہ السلام اُور صالحین تشریف لائے ہیں۔ تو دوسری طرف مردوں میں سے ہی کچھ ایسے قبیل کے لُوگ بھی موجود ہیں۔ جنہوں نے اپنی چرب زُبانی اُور لچھے دار باتوں سے ہزاروں نہیں لاکھوں بچیوں کو اپنے دام فریب میں مُبتلا کیا ہوگا۔ اُور جب اُنکا مطلب نکل گیا تو وُہ پالتو عقابوں کی طرح پُھر سے اُڑ جاتے ہیں۔

اسلئے میں اپنی تمام بیٹیوں اُور بہنوں سے کہوں گا۔ کہ وُہ کبھی بھی اللہ کریم کی رحمت سے مایوس نہ ہُوں۔ اگر اللہ کریم نے آپکا جُوڑ بنایا ہے۔۔۔ تو وُہ ضرور بالضرور آپکو مِل کر رہے گا۔۔۔۔ اِس لئے والدین کے موجود ہُوتے آپ ہرگز پریشان نہ ہُوں۔۔۔۔ آپ ذرا یہ تو سوچیں کہ اگر آپکی شادی اب تک نہیں ہُوئی ہے۔۔۔ تو کیا آپ کے بھائی آپ کیلئے فکرمند نہ ہُونگے۔۔۔۔ چاہے اُنہیں اس بات کا اظہار کرنا نہ آتا ہُو۔۔۔۔ کیا آپ کے والد جو بظاہر عشاء کے بعد سُوتے نظر آتے ہیں۔۔۔۔ کیا وُہ جوان بیٹی کے گھر میں موجود ہُوتے سکون کی نیند سُو پاتے ہُونگے۔۔۔ کیا آپکی والدہ کی آنکھیں آپکے متعلق سُوچتے سُوچتے بھیگ نہیں جاتی ہُونگی۔۔۔۔۔ اگر آپ اِس کے برخلاف سُوچتی ہیں۔ یا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے فیملی والوں کو آپکا خیال نہیں ہے۔ تو آپ میری خاطر ہی سہی ایک مرتبہ،، لاحول ولا قوۃ ،، پڑھ کر دُوبارہ اپبے دِل سے سوال کریں۔ آپکو اندازہ ہُوجائے گا۔ کہ وُہ صرف شیطانی وساوس ہیں۔ اسکے سَوا کچھ بھی نہیں۔۔۔۔

اِس لئے مہربانی فرماکر اپنے اُور اپنے والدین کے حال پر خُدا کیلئے رحم کھائیں۔۔۔۔ ورنہ بعد میں پچھتاوے کے سِوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ اُور میری جو بہنیں پہلے ہی کسی مرد کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر دھوکہ کھا چکی ہیں۔ وُہ خدا کے واسطے اس حدیث کے مفہوم پر نِگاہ دُوڑائیں۔کہ،، موٗمن ایک سوراخ سے دُو بار نہیں ڈسا جاتا۔۔۔۔ کیونکہ میرے پاس اکثر ایسے بھی میسج آتے ہیں۔ جسمیں میری یہ بچیاں مجھ سے کہتی ہیں۔ کہ آپ ایسا کوئی عمل بتادیں۔ جسکی وجہ سے ہماری اُس ہی شخص سے شادی ہُوجائے۔ کہ جِس نے ہمارے بھولپن سے کھیلتے ہُوئے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔۔۔ آپ یقین کریں۔۔۔ مجھے اُنکی اِس معصوم سُوچ پر حیرانی بھی ہُوتی ہے ۔ اُور افسوس بھی۔ یہ بیچاری کتنی بھولی بھالی بھیڑیں ہیں۔ جو ایک بار بھیڑئیے کا شِکار بننے کے باوجود اُنہی بھیڑیوں سے یہ توقع کررہی ہُوتی ہیں۔ کہ شائد اب اُس بھیڑیئے کو ہم پر ترس آجائے۔۔۔۔ اُور وُہ ہمیں پامال کرنے کے بجائے ہمارا نگہبان بن جائے۔ اُور ہماری حفاظت کرنے لگے۔۔۔۔ اِن بیچاریوں کو شائد یہ نہیں معلوم۔ کہ جب ایک مرتبہ بھیڑیئے کے مُنہ کو خُون لگ جاتا ہے۔ تب وُہ اِس خون کی لذت کا عادی بن جاتا ہے۔۔۔ وُہ رحمانی نہیں رِہتا بلکہ شیطان کا آلہ کار بن جاتا ہے۔۔۔۔ لیکن جسے اللہ توفیق دے۔

لیکن میرے آج کے میسج میں ایک بچی جسکی عمر شائد بیس برس سے پچیس برس کے درمیان ہُوگی۔ نے ایک عجیب خواہش کا اظہار کیا ہے۔ کہ اُسکے لئے کوئی معقول تو کجا ٖغیر معقول رشتہ بھی نہیں آتا۔۔۔۔ شائد اِسی وجہ سے اُسے ایک ایسے شخص سے مُحبت ہُوگئی ہے۔ جو اسکے والد کی عمر کا ہے۔ وُہ مایوسی کی گہرائی میں گرتی چلی جارہی ہے۔۔۔۔ سُونے پر سہاگہ یہ کہ وُہ شخص پہلے سے شادی شُدہ زندگی گُزار رہا ہے۔۔۔ اُور جوان بچوں کا باپ ہے۔اُور ایک حیات بیوی کا شوہر بھی ہے۔۔۔۔

ذرا سوچئیے ! تو سہی۔ بالفرض آپ کی شادی اُن صاحب سے ہُو بھی جاتی ہے۔ تو کیا آپ تمام عمر ایک ایسے انسان کے ساتھ بخوشی رِہ پائیں گی۔ جسکی جوان بیٹیاں آپکے برابر ہُوں۔ کیا وُہ بٹا ہُوا شخص آپکو وُہ محبت دے پائے گا۔ جسکی تمنا ہر ایک کنواری لڑکی کیاکرتی ہے۔۔۔ اگرچہ اسلام ایسے رِشتوں کی ممانعت نہیں ہے۔ بلکہ یہ سُنت مبارکہ بھی ہے۔۔۔ لیکن کہاں وُہ نفوسِ قُدسیہ اُور کہاں ہم لُوگ۔۔۔۔ وُہ معاشرہ جُدا تھا۔ اُور یہ معاشرہ جُدا ہے۔ وَہاں چار شادیاں عام بات تھی مرد کیلئے ۔۔۔ یہاں دُوسری بھی عذاب کی صورت بن جاتی ہے۔ لیکن کیا ہماری خواہشات ہماری سُوچ میں اُن نفوسِ قُدسیہ سے کوئی مماثلت ہے۔۔۔۔۔؟ جواب اپنے دِل سے پُوچھ لیجئے۔۔۔۔ اُور ذرا یہ بھی سُوچیئے گا۔ کہ جب پندرہ برس بعد آپ جوان ہی ہُونگی ۔ تو کیا وُہ شخص بستر نہ پکڑ چُکا ہُوگا۔۔۔ اُور جب آپ اپنے والدین کو اپنی پسند سے آگاہ کریں گی۔۔۔ تو اُن کے دِل پر کیا بیتے گی۔۔۔۔ ؟ کیا اُنہیں یہ احساس نہیں ہُوگا۔ کہ وُہ اپنی بچی کیلئے کوئی بہتر رشتہ نہ ڈھونڈ پائے۔۔۔۔ جسکی وجہ سے اُنکی بچی آج ایک بوڑھے شخص سے بھی شادی کیلئے تیار ہے۔ اِس لئے جذبات میں بہنے کے بجائے پرسَکون ہُو کر حقیت پر نِگاہ رکھیں۔۔۔ آپکو میری بات سمجھ میں آجائے گی۔

اسلئے میں اپنی تمام بہنوں کو ایک مشورہ دینا چاہتا ہُوں۔۔۔۔ کہ یہ فیصلہ اپنے والدین پر اِس یقین کیساتھ چھوڑ دیجئے۔ کہ اُن سے بہتر آپ کیلئے کوئی نہیں سُوچ سکتا۔۔۔۔ کوئی بھی نہیں۔۔۔ ہاں وُہ بچیاں ۔ کہ جنکے والدین حیات نہیں ہیں۔ وُہ ضرور اپنے لئے رشتہ تلاش کرسکتی ہیں۔ لیکن خدا کیلئے مردوں کی لچھے دار باتوں میں آنے کے بجائے اپنے انجام کی طرف نظر رکھیں۔ کہ مردوں کی شیریں زُبان کے پیچھے ضروری نہیں کہ ،، اُنکا دِل بھی پاکباز ہُو۔ اُور اُنکی نیت بھی صاف ہُو۔۔۔

آپ سُوچ رہی ہُونگی ۔ کہ وارثی صاحب کی باتیں بھی لچھےدار ہی ہیں۔۔۔ کہ مسئلہ کی طرف نشاندہی تو کردی۔ لیکن مسائل کا کوئی حل نہیں بتایا۔ کہ آخر اِس مسئلہ سے نِمٹا کیسے جائے۔۔۔۔؟ تو میری بہنوں میری آج کی بات کو بُہت دھیان سے پڑھنا ۔اُور اِن باتوں کو اپنی پاکیزہ چادر میں گرہ ڈال کر ہمیشہ یاد رکھنے کی بھرپور کوشش کرنا۔ تاکہ آپکو معلوم ہُوجائے۔ کہ آخر کیوں ہماری دعائیں قبول نہیں ہُوتیں۔ اُور آخر کیوں ہمارے گھر لاکھ دُعاوٗں کے باجود اچھے رشتے نہیں آتے۔۔۔؟

سب سے پہلی بات تو یہ ہے۔۔۔۔۔ کہ جِس کسی سے بھی جو شئے مانگی جائے۔۔۔۔ اُس میں تین خوبیوں کا ہُونا از بس ضروری ہے۔۔۔۔ اگر جس سے مانگا جائے اُور اُس میں ایک بھی خوبی کم ہُو۔۔۔ تو وُہ آپ کو کچھ نہیں دے پائے گا۔

پہلی خُوبی۔۔۔۔ کہ جو شئے مانگی جارہی ہُو۔ وُہ شئے اُس کے پاس موجود بھی ہُو۔ ورنہ ۔انکار ہُوجائے گا
دُوسری خُوبی ۔۔۔جس سے کوئی شئے مانگی جارہی ہُو۔۔۔ وُہ آپکو جانتا بھی ہُو۔ اُور آپ سے محبت بھی کرتا ہُو۔۔۔۔ اگر شئے تو موجود ہُو۔ لیکن دینے والا جانتا نہ ہُو۔ تب بھی انکار کا خدشہ ہے۔۔۔۔ اُور جانتا تو ہُو۔۔۔ لیکن آپ سے محبت نہ ہُو۔۔۔ تب بھی انکار کے چانسز ذیادہ ہیں۔

تیسری خُوبی۔۔۔ کہ،، دینے والا بخیل نہ ہُو طبعتاً سخی ہُو۔۔۔ ورنہ چاہے جانتا بھی ہُو۔۔۔ اُور محبت بھی رکھتا ہُو۔۔۔ اُور وُہ شئے بھی اُس کے پاس موجود ہُو۔۔۔لیکن اُسکا بُخل اُسے وُہ شئے دینے سے رُوک دے گا۔۔۔۔۔ امید ہے کہ آپ سب کو میری بات اچھی طرح سے سمجھ میں آگئی ہُوگی۔۔۔۔

اِن تین خُوبیوں کا تصور ذہن میں آتے ہی۔۔۔ اللہ کریم کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔۔۔ یا اُسکے مدنی محبوب ﷺ کا اِسم گرامی ذہن میں آتا ہے۔۔۔ ایک خالق ہے۔۔۔۔ اُور ایک خالق تو نہیں مگر خالق کا محبوب ہے۔۔۔۔ اُور محبوب صفت کا عکس ہُوتا ہے۔ اللہ کریم ہر شئے کا خالق بھی ہے اُور مالک بھی۔۔۔۔ لیکن قاسم(تقسیم کرنے والا) اُس نے اپنے محبوبﷺ کو بنادیا۔

وُہ کریم رَبّ اَپنے تمام بندوں سے بے انتہا محبت کرتا ہے۔۔۔۔ لیکن جان رحمت اپنے محبوبﷺ کو بنادیا۔
وُہ پروردیگار خود بھی سخی ہے۔ اُور قران پاک میں اُس نے اپنے محبوبﷺ کے لئے ارشاد فرمادیا۔ کہ یہ محبوبﷺ بخیل نہیں ہے۔
سیدی اعلحضرت نے اِن تمام باتوں کو ایک ہی شعر میں کیا خُوب فرمادِیا ۔۔۔

میں تُو مالک ہی کہوں گا۔کہ،، ہُو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محُب میں نہیں ۔میرا،تیرا

اب ایک تیر بحدف وظیفہ پیش خدمت ہے۔۔۔ ہر جمعرات کو عصر کی نماز کے بعد ایک پیکٹ ٹافیاں حسب توفیق قیمت کا منگوا لیا کریں۔ اُن ٹافیوں پر والدین مصطفےٰﷺ، شہدائے بدر اُور سیدنا غوث اعظم کی فاتحہ دِلوا کر چھوٹے بچوں میں عصر کی نماز کے بعد شادی کی نیت سے تقسیم فرمادیا کریں۔

مغرب کی نماز کے بعد دُو رکعت صلواۃ الحاجات پڑھ کر ایک تسبیح درودِ پاک کی پڑھیں۔۔۔ ۱۰۰ مرتبہ ،، یا لطیفُ یا رَشِیدُ اَرشِدنی پڑھ کر ۴۱ مرتبہ پھر درودِ پاک پڑھ لیا کریں۔ ایک مرتبہ سورہ رحمن پڑھ کر ۳۱ مرتبہ سورہ کوثر پڑھیں پھر ۴۱ مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھیں۔ آخر میں ۶۳ مرتبہ درود پاک پڑھ کر اپنے لئے بہتر رشتہ کی دُعا کریں۔۔۔۔ اُور تین خوبیوں والی بات کو ذہن میں رکھ کر اگر آپ نے اخلاص و یقین کامل سے دُعا کرلی۔۔۔۔ اُور اسکے بعد بھی اگر آپکی دُعا قبول نہ ہُو ۔ اُور اُس مانگے جانے والے رشتے میں کوئی قباحت بھی نہ ہُو۔۔۔ تو حشر میں میرا دامن پکڑ لیجئے گا۔۔۔۔انشا ءَ اللہ چند جمعرات کے مسلسل عمل کی برکت سے ایک نہیں بے شُمار رشتے آپ کی دہلیز پر آجائیں گے۔

اپنی من پسند شادی کیلئے اِس عمل کیساتھ ۷۷ مرتبہ حسبنااللہ و نعم الوکیل کا وظیفہ بھی آنکھ بند کرکے مطلوبہ شخص کو ذہن میں رکھتے ہُوئے کرلیں ۔ اُور ۷۷ کی تعداد پُوری ہُونے کے بعد اُس پر تصور میں دَم کردیں۔۔۔۔ اگر وُہ رشتہ آپ کے حق میں اچھا ہُوا۔۔۔ اُور اُس میں کوئی شرعی قباحت نہ ہُوئی تو انشااللہ وہ رشتہ بھی خود چل کر آپ کے در پر آجائے گا۔۔۔ لیکن بہتر یہی ہے۔۔۔ کہ من پسند شادی کے بجائے اللہ کریم کی ذات پر اپنی قسمت کا فیصلہ چھوڑ دیا جائے۔۔۔ کیونکہ وُہ ہم سے ذیادہ محبت رکھتا ہے۔ اُور ہمارے لئے کیا بہتر ہے۔ وہی بہتر جاننے والا ہے۔

اُس کے تو عام ہیں الطاف شہیدی سب پر
تُجھ سے کیا ضد تھی۔ اگر تو کسی قابل ہُوتا

والسلام مع الاکرام: آپکا عشرت اقبال وارثی

Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 371087 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.