وفا ق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلس عاملہ میں بارہا یہ تجویز آئی کہ دینی
مدارس اور وفاق المدارس کے کردار وخدمات کو اجاگر کرنے کے لیے عالمی اجتماع کا
انعقاد کیا جائے لیکن کئی وجوہ کی بناءپر اس تجویز پر کوئی فیصلہ نہیں کیا
جاسکا۔ ایک طرف اس اجتماع کی ضرورت ،اہمیت ،افادیت ،دوررَس اثرات اور عالمی
مقاصداکابر کے سامنے ہوتے اور دوسری طرف یہ احساس کہ یہ بھاری پتھر کیونکر
اٹھایا جائے گا ؟ اور موجود ہ ملکی حالات اور امن وامان کی دگرگوں صورتحال میں
اتنا بڑا ”رِسک“ کیسے لیا جائے؟ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اجتماع کی ضرورت کا
احساس بڑھتا گیا تا آنکہ 26/فروری2013ءکو جامعہ اشرفیہ لاہور میں منعقد ہونے
والے وفاق المدارس کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں نہ صرف یہ کہ اس اجتماع کے
انعقاد کا اصولی فیصلہ کیا گیا بلکہ اس کی تاریخوں کا تعین بھی کیا گیا اور اس
کے انعقاد کا ابتدائی خاکہ بھی تیا رکیا گیا ۔چنانچہ آئندہ سال یعنی 2014ءمیں
23,22,21مارچ کو اسلام آباد میں اس اجتماع کے انعقاد کافیصلہ کیا ہے ۔ اجتماع
کے موقع پر وفاق المدارس کے قیام اورتاسیس سے لے کر آج تک کے جملہ فضلاءکرام
اور حفاظِ قرآن کی دستار بندی بھی کی جائے گی اور دنیا بھر سے اہم عالمی شخصیات
اور پاکستان کے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کو بھی اس اجتماع کی
مختلف تقریبات میں مدعو کیا جائے گا ۔
50سالہ خدماتِ وفاق المدارس العربیہ عالمی اجتماع کے انعقاد کے اس فیصلے پر ملک
بھر میں خوشی ومسرت اور اطمینان وانبساط کا اظہار کیا جارہاہے اور اکثر اربابِ
مدارس ،وفاق المدارس کے فضلاءکرام اور دینی مدارس سے ہمدردی اور خیرخواہی رکھنے
والے احباب نے اس فیصلے کو”دیر آ ید درست آید“ کا مصداق قرار دیا ہے ۔بلکہ اکثر
لوگوں کا تو یہ کہنا ہے کہ اس طرح کے اجتماعات کے انعقاد کی روایت تو بہت پہلے
ڈال دینی چاہیے تھی ۔وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے اکابر کا بھی یہی خیا ل
ہے کہ اس اجتماع کے نہ صرف پاکستان بلکہ امت مسلمہ کے دینی ،تعلیمی اور تربیتی
مستقبل پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے ۔سب سے زیادہ ضرورت تو آج کے دور میںشدت سے
اس امر کی محسوس کی جا رہی ہے کہ اسلام ،اسلا م پسند طبقے ،دینی مدار س اور اہل
ِحق کی شان وشوکت اورقوت کا اظہار کیا جائے ۔اس شان و شوکت کے اظہار سے ایک تو
اسلام سے محبت رکھنے والوں کے عزائم اور حوصلے بلند ہوتے ہیں ۔مورال بلندہوتا
ہے۔
انسان کو قلبی اطمینان نصیب ہوتاہے اور کام کرنے کے جذبوں کو مہمیز ملتی ہے۔ جب
کہ اسلام دشمنوں ،اہل باطل اور سیکولر قوتوں کوا یک خاموش پیغام جاتاہے کہ وہ
ضرورت سے زیادہ اپنے پرَ پرُزے نکالنے سے گریز کریں چنانچہ ہمیں اپنے دین کے
مزاج میں یہ بات نظرا ٓتی ہے کہ حج کا عالمگیر اجتماع ہو یا عیدین کے تہوار ،
با جماعت نماز کی پابندی اور فضیلت ہو یا نمازِ جمعہ کی اہمیت.... اس میں
بنیادی طور پر اجتماعیت کا اظہار اور اخوت ومحبت کا درس ہی مقصود ہوتا ہے حتی
کہ اگر طواف کے دوران ”رَمل “ کے حکم کا فلسفہ دیکھا جائے تو فتنوں اور
پروپیگنڈے کے دور میں اس اجتماع کی ضرورت دو چند ہوجاتی ہے۔آج کے دور کا سب سے
بڑا المیہ یہ ہے کہ اہلِ دین اور اہل مدارس کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا
جاتاہے ۔کبھی ان کے سر دہشت گردی کا الزام تھونپا جاتاہے ،کبھی شدت پسندی کا
ملبہ ڈال دیا جاتاہے ،کبھی دنیا میں ہونے والے واقعات کے ڈانڈے مدارس کے ساتھ
ملائے جاتے ہیں اور کبھی کیا طوفان برپا کیا جاتاہے۔ ایسے میں بہت سے لوگ دفاعی
پوزیشن پر چلے جاتے ہیںجس سے اسلام دشمن قوتوں کو مزید کھل کھیلنے کا موقع دیا
جاتاہے ۔اس لیے اس بات کی ضرورت بھی بڑی شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ اس وقت
ملک بھر کے علماءاور ارباب ِمدارس ایک جگہ جمع ہو ں ،اسلام کے پیغامِ امن کا
اظہار ہو،اہلِ مدارس اور اہلِ حق کا موقف اور نقطہءنظر سامنے آئے ۔
اسی طرح اس بات کی ضرورت بھی محسوس کی جارہی ہے کہ وفاق المدارس العربیہ
پاکستان اور دینی مدارس کی 55,50سالہ خدمات کو اجاگر کیا جائے کیونکہ بہت سے
ایسے لوگ ہیں جو آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ مدرسہ محض کسی یتیم خانے کا نام ہے ،عشروں
پہلے کے کسی چھوٹے سے مکتب کا نام ہے ،لوگوں کے ٹکڑوں پر پلنے کا نام ہے ،بیڑیوں
میںجکڑے ہوئے بچوں اور دَر دَر پر وظیفہ مانگتے بچوں کا نام ہے اور شاید معاشرے
کے ٹھکرائے ہوئے لوگوں کو کسی مسجد میں چھوڑ آنے کا نام ہے ۔ان کی اس غلط فہمی
کا ازالہ بھی کرنے کی ضرورت ہے کہ مدرسہ نے اس معاشرے کو کیا دیا؟ وفاق المدارس
نے دینی اقدار وروایات کے تحفظ کے لیے ،تعلیم کے فروغ کے لیے، رجال ِکار کی
تیاری اور اہلِ علم کی فراہمی کے لیے کس قدر خدمات سرانجام دی ہیں ۔
اسی طرح اس اجتماع کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ ہمارے ہاں اکابر کو عموما یہ گلہ
ہوتاہے کہ اصاغر ان سے رابطہ نہیں رکھتے ،ان کے شاگردوںکا ان کی طرف اتنا رجوع
نہیں جتنا ہونا چاہیے ۔اداروں اور جامعات کے فضلاءاور ابناءمیں سے اگر چہ بڑی
تعداد اپنے اپنے اداروں اور اساتذہ سے جڑی ہوتی ہے لیکن ایک بڑی تعداد ایسی ہے
جو برسوں کبھی لوٹ کر اپنی جامعہ میں نہیں آتی ۔جن فضلا ءاور حفاظ نے اپنے
اداروں اور اساتذہ کرام سے کسی بھی وجہ سے رابطہ نہیں کیا یہ اجتماع ان تمام
رابطوں کی بحالی کا ذریعہ بنے گا۔ جبکہ اصاغر کا خیال ہوتاہے کہ اکابر ہماری
سرپرستی نہیں کرتے، ہمارے اوپر دست شفقت نہیں رکھتے ،ہمیں کام کرنے کے لیے رخ
اور لائن نہیں دیتے۔ یہ اجتماع انشا ءاللہ ان گلے شکوؤں کے ازالے کا ذریعہ بھی
بنے گا، اس کی برکت سے رابطے بحال ہوں گے ، دوریاں ختم ہوں گی اورقربتوں میں
اضافہ ہوگا ۔
میڈیا کی طرف سے ،سرکاری اداروں کی طرف سے ،دینی مدارس کے علماءاور فضلاءکو جس
امتیازی سلوک کا سامنا ہے امید کی جانی چاہیے کہ اتنے بڑے پیمانے پر اہلِ مدارس
اوراہلِ حق کی قوت اور شان وشوکت کے اظہار کے بعد اس امتیازی سلوک کا بھی خاتمہ
ہوگا ۔اسی طرح دنیا کے دیگر ممالک،جماعتوں اور طبقات کے سامنے بھی وفاق
المدارس، پاکستانی دینی مدارس اور اہلِ حق علماءکی خدمات واضح اندازسے پیش کی
جاسکیں گی۔
اس اجتماع میں عالم ِاسلام کی اہم شخصیات کو مدعو کرکے ان کے سامنے دینی مدارس
کی حیثیت ،اہمیت ،خدمات اور اثرات کو اجاگر کیا جائے گا جس کے نتیجے میں دنیا
کے مختلف خطوں میں کام کرنے والے پاکستانی مدارس کے فضلاءکے لیے آسانیاں بھی
پیدا ہوں گی اوریہ ا جتما ع ان کی تقویت کا سبب بھی ہوگا ۔اس اجتماع کی برکت سے
گزشتہ پچاس سالہ تاریخ کو مرتب کیا جائے گا ،ریکارڈ محفوظ ہوگا ،علماءکرام کا
کا م سامنے آئے گا ، مدارس کے فیض کا چرچا ہوگا ۔
یہ تو محض چند ایک پہلو ہیں ورنہ اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ خیر وعافیت او
رکامیابی سے اس اجتماع کے انعقاد کے بہت دوررس اثرات مرتب ہوں گے لیکن اس کے
لیے یہ ضروری ہے کہ ہم سب یکجا اوریکجان ہو کرکام میں جُت جائیں ۔ہمیں اجتماع
سے پہلے ہی اجتماعیت کا مظاہرہ کرنا ہوگا ،محنت کا اہتمام کرنا ہوگا ، دامے
،درمے ،سخنے ،قدمے جہاں اور جیسے بھی ہوسکے اس اجتماع کے لیے اپنی تمام تر
توانائیاں صرف کردینی چاہیں اورا س امید اور یقین کے ساتھ اس سفر کا آغاز کرنا
چاہیے کہ....وانتم الاعلون ان کنتم مومنین |