مَہ کوہ مجبوری دَہ(۲)

ملکی اخبارات اور تمام کالم نویس جس طرح الیکشن کے موضوع پر اپنے تجزیات پیش کر رہے ہیں ، وہ ایک کالمی صورتحال یہ ہے لیکن الیکشن مہم میں بہتے ہوئے اپنی قومی شناخت اور ثقافت کا ذکر اگر ہفتے میں ایک بار بھی نہ کروں تو یہ میر ی پختون قوم کے ساتھ بد دیانتی ہوگی ۔ پختون ادبی ثقافتی ٹولنہ کے ساتھ کیا گیا وعدہ میرے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ تیس دنوں میں اگر چار دن ایسے موضوع پر وقف کروں ،جس پر کوئی کالم نویس اس لئے ہاتھ نہیں اٹھا رہا کہ شائد ایسا عجیب محسوس ہوتا ہو ، لیکن میری قومی ثقافت کو اگر کوئی ملیا میٹ کرنے کا عزم رکھتا ہے تو مجھے اپنے قلم کی طاقت پر بھروسہ ہے ۔ انشا ءاللہ اگر میں اپنی ثقافت کو بچانے کےلئے چھوٹا سا کردار ادا نہ کرسکوں تو میرے لئے دیگر موضاعات پر کالم لکھنا ، سوہان روح بن جاتا ہے ، اس لئے سب سے کہتا ہوں کہ مہ کوہ میری مجبوری دہ (مت کرو مجبوری ہے )۔سوات کے علاقے جس قدر خوبصورت ہیں ایسی طرح وہاں کے لوگ بھی انتہائی نفیس ہیں ، گذشتہ دنوں جب میں سوات تھا تو ایک دل آویز پیاری سی شخصیت شیرین زادہ بدر سے ملاقات ہوئی ، ملنسار ، خدمت ، خلوص کے اس پیکر کو دیکھ یقین نہیں آتا تھا کہ اس قدر سنجیدہ شخصیت ، جو فائیو اسٹار ہوٹلز منجمنٹ میں ہو اور سوات کے سب سے خوبصورت مقام مرغزار میں موجود وائٹ پیلس کے منیجنگ ڈائریکٹر اور پھر بد ر منیر کے اس قدر پرستار کہ اُن کے نام سے ایک پرستار تنظیم کی سرپرستی بھی کرتے ہوں ، انھیں دیکھ کر کوئی یقین نہیں کرسکتا کہ شیرین زادہ بدر نے اپنا نام کے آگے تخلص بدر منیر سے متاثر ہوکر لگایا ہے۔ان کی کوششوں سے پشاور کی ایک معروف سڑک کا نام بھی بدر منیر کے نام پر رکھا گیا ۔میں نے آج یہی سوچا تھا کہ ان سے بدر منیر کے حوالے سے کوئی بات پوچھوں گا لیکن جب بھی ان کے معصوم چہرے کو سامنے پاتا ہوں تو ان کی دل آزاری والی کفیت نظروں کے سامنے دوڑ جاتی ہے کہ میری تلخ باتوں سے کہیں یہ بھی ناراض نہ ہوجائیں۔جب سے میں نے ہفتہ وار پشتو ثقافت کے حوالے سے کالم لکھنے کا سلسلہ شروع کیا ہے تو مختلف پرستار تنظیموں کی جانب سے ہر اداکار کے حوالے سے ایک شکایات کا پلندہ بھی ہوتا ہے کہ دیکھو قادر خان ، اس نے کیسا کام کیا ہے ۔ گزشتہ کالم میں لیاقت علی خان کو فحاشی کا دیوتا کہا تو ان کے پرستاروں پر قیامت گزر گئی کہ لیاقت علی خان اور ڈانس ڈائریکٹر نگاہ حسین بھی میرے قلم کی زد سے نہیں بچ سکے ، ان کی تنظیم کے ایک پرستار واحد ساگر نے مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن میرا رابطہ نمبر نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا نہیں کرسکے ، لیکن مجھے اُن کا پیغام مل گیا اس لئے اُن سے بھی وہی گزارش ہے کہ لیاقت علی خان نے پشتو فلموں کے کلچر کو فحش ڈھب میں لانے کا "کارنامہ"انجام دیکر اپنا نام سیاہ باب کا اضافہ کرلیا ہے۔نگاہ حسین کو ہی دیکھ لیں کہ اپنے نام کی عظمت کے برعکس اس "جاہل"کی کرئیو گرافی میں کس قدر بے حیائی اور عریانیت ہے ۔مصری عربیک ڈانس میں کمر اور اس کے نچلے حصے کو اس قدر کمال خوبصورتی کے ساتھ پرفارم کیا جاتا ہے کہ جسم کا ایک ایک حصہ فن موسیقی و رقص کی گواہی دیتا ہے ایسی طرح اٹالین رقص میں قدموں کے استعمال کے ساتھ فنکاروں کو کرائیو گراف اس قدر کمال فن سے نبھاتے ہیں کہ لب عش عش کہہ اٹھتے ہیں ، لیکن نگاہ حسین ، کمر کے نچلے پر اس قدر بد زوقی اور بے حیائی سے کیمرہ اور کرئیو گراف کراتا ہے کہ نگائیں شرم سے جھک جاتیں ہیں ، غیر فطری مناظر دیکھا کر نہ جانے کیا ثابت کرنا چاہتا ہے ، یہ مجھے آج تک سمجھ نہیں آسکا ، کبھی کبھی لگتا ہے کہ یہ کہیں خود بھی تو غیر فطری پیدا نہیں ہوا کہ ایسے پشتو فلموں میں ڈانسرز کے کمر کے نچلے حصے کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا ، یا پھر قدموں کے رقص پر جس طرح جسم کے زیریں حصوں کو عکس بند کیا جاتا ہے اس پر انھیں سوائے لعنت بھیجنے کے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔مجھ سے ایک دوست نے کہا کہ ان لوگوں کو فن ثقافت کا علمبردار کیوں سمجھ کر جی ہلکان کرتے ہو ،میں تسلیم کرتا ہوں کہ دنیا جانتی ہے کہ پختون ثقافت میں حیا اور شرم کا جس قدر پاس رکھا جاتا ہے اس سے پشتو فلموں میں کام کرنے والے چھو کر بھی نہیں گزرے ہونگے ، یہی وجہ ہے کہ پشتو فلموں کے سب سے مصروف اداکار شاہد خان پر سب سے زیادہ تنقید کی کیونکہ ان کی سب سے زیادہ فلمیں آرہی ہیں اور جس طرح پختون ثقافت کو ان کی فلمیں نقصان پہنچا رہی ہیں اس کا انھیں خود اندازہ بھی نہیں ہوگا۔اب بھی ان کی فلموں کے اشتہارات میں رقصاﺅں کی بے باکیاں دیکھ کر نہیں لگتا کہ شاہد خان ، اپنے والد لالہ سردار کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہیں ، مجھے آصف خان لالہ سے بھی گلہ ہے کہ انھوں نے ارباز خان کو بھی اس رنگ میں ڈھلنے کی اجازت دے دی ، جو پختون معاشرے میں سخت نا پسند کی جاتی ہیں ، میری مجبوری ہے کہ میں آصف خان لالہ کا دل سے احترام کرتا ہوں اس لئے ان پر ان کے رتبے کی بنا ءپر تنقید کرنے سے بڑی مشکل سے خود کو روک پاتا ہوں ۔بد ر منیر اور آصف خان پشتو فلموں کی وساطت سے پختون قوم کے ثقافتی ترجمان کہلائے جاتے ہیں ، ان کی دانستہ یا غیر دانستہ غلطیوں پر قلم نہیں اٹھاتا لیکن دل خون کے آنسو ضرور روتا ہے کہ جب ان کی فلموں میں بھی مغرب کی نقالی میں بے حیائی سے مزیں رقص موجود ہی نہیں بلکہ خود بھی اس کا حصہ ہوتے ہیں ۔ کسی نے مجھے کہا کہ یہ کمرشل بزنس ہے ، کسی عورت کو برقعہ پہنا کر دانس نہیں کرایا جاسکتا ۔میں بھی تسلیم کرتا ہوں ، لیکن ماضی کی ہیروئینوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ فحاشی کا دفاع کرنے والے دراصل قوم کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔ جو تنظیمیں ، جھوٹ بناﺅٹی فحش فلموں کی تعریف کرتی ہیں ، ان کا جرم بھی ناقابل معافی ہے۔فلموں میں عریاں اور فحش گانوں پر سر دھننے والوں کو اپنی اصلاح کی ضرورت ہے اور اس میں سب سے بڑا قصور پشتو فلمیڈائری لکھنے والے فلمی صحافیوں کا ہے جو چند اشتہارات کےلئے جھوٹے بیانات شائع کراتے ہیں ، یادگار کردار ، لاوزال اداکاری ،ناقابل فراموش فلم ، سپر دپر ہٹ فلمیں وغیرہ وغیرہ لکھ لکھ پوری پختون قوم کے ساتھ بد دیانتی کے مرتکب ایسے لوگ ہی تمام بگاڑ کےذمے دار ہیں۔زرد صحافت اور چند روپوںکےخاطر اپنے ضمیر کے خلاف لکھنا ایسا ہی ہے جیسا کسی بازاری عورت کے لئے اُوباش مرد تلاش کرنا والا دلال۔یقینی طور پر میں غیر مہذب الفاظ استعمال کر رہا ہوں لیکن کیا کروں کہ ان کی مجبوری ہے کہ یہ جھوٹ کو سچ کہہ کر لکھتے وقت یہ بھی نہیں سوچتے کہ وہ ناقابل معافی و ناقابل تلافی جرم کے مرتکب ہوکر کروڑوں انسانوں کی دل آزاری اور صدیوں کی تاریخ رکھنے والی قوم کی شناخت کو بھیانک طریقے سے مسخ کر رہے ہیں ۔سنسر بورڈ کے اراکیں ہوں یا فلمساز کے تقسیم کار ، سمیت تمام ایسے بیان لکھنے والے بھی بے حیائی کے فروغ میں اتنے ہی گناہ گار ہیں جتنے ایسی شرمناک فلم بنانے والے ہیں۔ نگاہ حسین ہوں ، شاہد خان ہوں ، ارباز خان ہو ، جہانگیر خان ہو ، شاہ سوار ہو یا کوئی بھی کتنا بڑا نام کیوں نہ ہو ،یہ اپنی روش تبدیل نہیں کرنا چاہتے تو پھر یہ اپنی قوم کی ثقافت کا کفن بیچنے والے گورکن ہونگے اگر اب بھی انھوں نے اپنی فلموں سے پختون ثقافت کے برخلاف عریانیت ، فحاشی اور بدمعاشی کلچر کو جاری رکھا ۔۔۔خاص طور پر پشتو فلمی ڈائری لکھنے والے یا پھر بقول عجب گل بی بی سی پاکستان نامی پرنس نیک محمد ندیم کی جولانیاں و شرارتیں!!!
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 660161 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.