30اپریل یوم شہداء پر خصوصی تحریر
آج یوم شہداءہے اور پوری قوم وطن پر قربان ہونے والے سرفروشوں کو ان کی عظیم
قربانیوں پر خراج تحسین پیش کررہی ہے۔ اس مٹی کی حفاظت میں پاکستان کے چپے چپے
کے باسیوں کا لہو کسی نہ کسی حوالے سے موجود ہے۔ اس خون میں شہداءکے لواحقین کے
آنسو بھی شامل ہیں۔ چند سال قبل میں پاک فوج کے تین شہداءکی نماز جنازہ میں
شریک تھا۔ وہ بہت رقت آمیز لمحات تھے۔ میری آنکھوں سے بہنے والے آنسو ان
شہداءکی قربانیوں کا نعم البدل ہرگز نہیں ہوسکتے۔ نماز جنازہ کے بعد میں ان
شہداءکو ان کے آبائی علاقوں کو روانہ کردیا گیا۔ یہ سوچ سوچ کر میرا دل بھر آیا
کہ ان شہداءکے اپنوں کا کیا حال ہوگا۔ یہ وہ شہداءہیں جنہوں نے اپنوں سے زیادہ
ملک و قوم کو ترجیح دی اور انہیں داغ مفارقت دے کر وطن کی حفاظت میں جان تک
گنوا دی۔ جب ان کے جسد خاکی ان کے پاس پہنچیں گے تو ان کے والدین، بہن بھائیوں،
بیٹے بیٹیوں اور بیواﺅں کا کیا حال ہوگا۔ وہ کیسے یہ صدمہ برداشت کرسکیں گے۔
مگر پھر ان ماﺅں، بیٹیوں اور بیواﺅں کے چہروں پر سجے اطمینان اور ان کی زبان پر
جاری اللہ کی مرضی کے الفاظ اور ان کے ملک کے کام آنے والے بیٹے، باپ اور شوہر
کی قربانی پر فخر و اعزاز نے میرے تمام سوالوں کے جوابات دے دیئے۔ اللہ تعالیٰ
ان شہداءکے درجات بلند کرے ۔ جب تک ہماری قوم میں قربانی کا جذبہ موجود ہے اس
وقت تک کوئی ہماری طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں کرسکتا۔ شہداءکی نماز
جنازہ کے بعدمیں نے اپنے کچھ جذبات قلم بند کرلئے جو یوم شہداءکے موقع پر نذر
قارئین ہیں۔
”فوجی جوانوں کا ایک جتھہ سبز ہلالی پرچم میں لپٹے شہداءکے تابوت اپنے کاندھوں
پر اٹھائے مخصوص فوجی انداز سے آگے بڑھ رہا تھا۔تیز ٹھنڈی ہوا کی سنسناہٹ نے
ماحول کو کافی پراسرار بنا دیا تھا۔ ہوا کا ایک تیز جھونکاشہیدانِ وطن کو سلامی
دیتا گزرا تولپٹے سبزہلالی پرچم لہرا اٹھے اور ان کی تہوں سے نکلنے والی مسحور
کن مہک نے وہاں موجود ہرکسی کو اپنے دام میں لے لیا ہر کوئی شہداءکی عظیم
قربانی کو خراج ِ تحسین پیش کرنے لگا۔ ان کے کارناموں نے حاضرین کے لہو میں
حرارت بھردی تھی۔شہداءنے اپنے لہو سے آزادی کے پیڑ کو سینچا تھا، دھرتی کے کونے
کونے کو سرسبزو شاداب کردیا تھا۔
فوجی جوانوں کی ٹولی گراﺅنڈ کے وسط میں پہنچ کر رک گئی۔ انہوں نے اس احترام اور
احتیاط سے تابوت زمین پر رکھے جیسے ماں اپنے ننھے بچے کوپالنے میںاتارتی ہے اور
سرسراتے قومی پرچم کے بیچ شہداءکے یونیفارم اور میڈل سجادیئے اور ایک طرف صف
آراءہوگئے۔
سورج کی کرنیں جنہیں بادلوں کی ٹکڑیوں نے بڑی دیر سے ڈھانپ رکھا تھا موقع پا کر
شہداءکو بوسا دینے اتریں تو تابوت پر رکھے شہید میجرصاحب کے چاند ستارے اس
انداز سے روشن ہوئے کہ انہوں نے حاضرین کی آنکھوں کو خیرہ کردیا شہید صوبیدار
کی سرخ پٹی بھی حرارت سے شعلہ بن گئی تھی اور شہید حوالدار کی تین فیتیاںفتح کا
نشان بناتے ہوئے یہ گواہی دے رہی تھیں کہ ان شہداءنے نہ صرف اپنی وردی اور ان
پر سجے نشانات کی لاج رکھ لی بلکہ قوم نے انہیں دفاعِ وطن کا جو فرض سونپا تھا
اس میں بھی وہ سرخرو ہوئے۔
نمازِ جنازہ پڑھائی گئی۔ پاک فوج کے ایک چاق چوبند دستے نے شہدا کو سلامی پیش
کی اور جسدِہائے خاکی ان کے آبائی علاقوں کو روانہ کردیئے گئے۔
جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یاد گار بنا دیا
شہیدکے گھر سے بھی روشنیوں کی لہر اٹھ رہی تھی۔پورا گاﺅں عجیب خوشبوﺅں سے معطر
تھا۔ کیا کبھی کسی نے اس ماں کی کیفیت کا اندازہ لگایا ہے جسے اپنے جواں سال
بیٹے کے جسدِ خاکی کا انتظار ہو؟
ماں جس کے لئے وہ اکثر شال لایا کرتا تھا، آج فخر اور وقارکے پھولوں سے کڑھائی
کیا سبزہلالی پرچم لایارہا ہےجسے اوڑھ کر وہ پھولے نہیں سمائے گی۔ فرطِ جذبات
سے اس کے آنسو چھلکنے ہی والے تھے مگر اس خیال سے کہ نجانے اس کا شہید جگر گوشہ
کچھ اورہی قیاس نہ کرلے آنسو ضبط کے بندھن میں بندھ گئے اور ٹھہر گئے کسی اور
وقت چھلکنے کے لئے
بہن بھی بے تاب ہے ۔ آج اس کا بھائی اپنی بہن کے لئے چوڑیاں نہیں ،جرات وبہادری
کے کھن کھن کرتے میڈل لارہا ہے۔
کسی کی نظر شہید کی ننھی سی معصوم بیٹی پر پڑی جواپنے جوتے تلاش کررہی تھی۔ وہ
جلدی جلدی ان جوتوں کو پہن لینا چاہتی تھی۔ اسے یاد ہے کہ جب بھی پاپا آتے ،
اسے پکار کر کہتے بیٹی ! جلد ی سے تیار ہوجاﺅ آج ہم گھومیں گے ،پھریں گے ۔ جب
وہ تیار ہوجاتی تو اکثر اس کے جوتے کھو جاتے اور بابا کو انتظار کرنا پڑتا۔آج
اس نے اپنے جوتے پہلے ہی ڈھونڈ لئے تھے۔ آج وہ اپنے پاپا کو انتظار نہیں کروانا
چاہتی تھی۔
یہ تھی اس شہید کی ننھی سی دنیا اگر وہ چاہتا تو اسے اپنی ہی دنیا میں مگن رہنے
سے کون روک سکتا تھا۔ مگر وہ قوم کا بیٹا تھا۔ اس نے اپنے فرض کی پکار پر اپنی
اس دنیا کو خیر باد کہہ کر بہت سوں کی ننھی دنیائیں بچالیں۔
آج یوم شہداءہے
زندہ قومیں اپنے شہداءکو کبھی فراموش نہیں کرتیں۔ آج انہیں خراجِ تحسین پیش
کرنے کا دن ہے۔ آج پوری قوم ان ماﺅں ، بہنوں اور بیٹیوں کو اسی طرح خوش آمدید
کہہ رہی ہے جس طرح انہوں نے اپنے شہید بیٹے، بھائی اور باپ کا استقبال محاذجنگ
سے فتح یاب لوٹنے پر کیا تھا۔
قوم ان بہادر ماﺅں کو سلام پیش کرتی ہے جنہوں نے اپنے بیٹے اس دھرتی کی حفاظت
کے لئے وقف کردیئے اور ان بیٹوں پر بھی عقیدت کے پھول نچھاور کرتی ہے جنہوں نے
اپنا آج ہمارے کل کے لئے قربان کردیا۔
صلہ شہید کیا ہے ، تب وتاب جاﺅدانہ
پاک فوج کو فخر ہے کہ اس کے دامن میں کھلنے والے پھول وطن کی آن بان اور شان پر
نچھاور ہونے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ ایک سولجر جب یونیفارم زیب تن کرتا ہے تو
انفرادی خول سے باہر نکل کر اجتماعی سوچ کا حامل ہوجاتا ہے۔ ایک گھر کی حفاظت
کی بجائے وطن کی حفاظت اس کامطمع نظر ہوتی ہے ۔قوم کے یہ بیٹے دشمن کی سازشوں
سے آگاہ ہیں۔ انہوں نے قوم کو کبھی مایوس نہیں کیا نہ کریں گے۔ وہ اپنے اسلاف
کے نقش قدم پرچلتے ہوئے پاکستان کے خلاف ہونے والی اندرونی اور بیرونی سازشوں
کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔ شہداءوطن کا لہو رنگ لائے گا اور پاکستان سے دہشت گردی،
انتہاءپسندی اور فرقہ واریت کے کانٹے ہمیشہ کے لئے صاف ہوجائیں گے۔ (ختم شد) |