الیکشن محض دس دن کے فاصلے پر ہیں، ہرجماعت دن رات کا فرق مٹائے بغےر تگ ودو میں
مصروف ہے، کہیں جلسے جلوس ہورہے ہیں تو کہیں خوف کے مارے ان کیمرہ اور بند کمرہ
اجلاس کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری طرف بم دھماکوں اور گولیوں کی بارش بھی تھمنے
کانام نہیں لے رہی۔ ہر جماعت اپنی پارٹی کا منشور سامنے لارہی ہے۔کوئی نوّے
دنوں میں امن وامان کا دعوے دار ہے توکوئی تین سال میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا
اعلان کرنے والا۔ کوئی تعلیم کاپھریرالہرانے کا وعدہ کرتا ہے تو کوئی وڈیرہ
نظام ختم کرنے کا بیان دیتاہے ۔ غرض ہر دوسرا اپنے آپ کو نجات دہندہ، انقلابی
اور تبدیلی لانے والا حکمران باور کراتا ہے۔اس میں شک نہیں کہ ننگوں کے حمام
معدودے چند مخلص اور امین بھی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان کی انفرادی محنت
اور جدوجہد سے تبدیلی ممکن ہے؟۔
آپ کیا سمجھتے ہیں، آپ اپنی فیکٹری ، کارخانے،دکان،دفتر،اسکول ومدرسہ اور
اسپتال وغیرہ میں کرپشن کا بازار گرم کیے رکھیں۔ جھوٹ، دھوکا دہی ،حرام خوری
اور مٹھی بھر غریب مزدوروں کا استحصال کرتے رہیں۔ ان سب مکروہ دھندوں کے باوجود
آپ کے حکمران اللہ کے نیک بندے ہوں گے؟ایں خیال است ومحال است وجنون۔
آپ اپنے بازار پر نظر ڈالیے۔آپ کسی دکان دار پر اعتماد نہیں کرسکتے۔ذرا بھر آپ
کی توجہ ادھر ادھر مبذول ہوئی ، آپ نے بھولے پن کا مظاہرہ کیاتو آپ کی جیب خالی
۔ پٹرول، ڈیزل اور سی این جی بھروانے کا آپ نے کہا اور موبائل فون پر کسی کے
ساتھ گفت و شنید میں مصروف ہوگئے توپانچ سو میں، دوسو ڈالنے والا اپنا حق
گردانے گا۔اسکول میں تعلیم کے نام کاروباری فیکٹرےاں قائم ہیں، جہاں تعلیم نام
تک کو نہیں۔ اگر کہیں محنت نظر آتی ہے تو تعلیم کی بجائے لارڈ میکالے کے نصاب
پر قویٰ صرف ہورہے ہوتے ہیں۔ اسپتالوں میں مسیحاؤں کے نام پر قاتل دھندناتے پھر
رہے ہیں۔پرائیویٹ اسپتالوں میں پیسے بٹورنے کی خاطر عام مرض ک لیے بھی آپریشن
تجویز کیا جاتاہے۔سرکاری اسپتالوں کی حالت ان مظلوموں سے دریافت کریں جن کا
پالا ان سے پڑاہو،تاریخ پر تاریخ دی جاتی ہے، جان بلب مریض عدم سفارش کی بناپر
نچلے طبقے کو رشوت دے دے کر تھک جاتا ہے، تب کہیں جاکر شنوائی ہوتی ہے۔آپ کسی
بھی شعبے پر نظر ڈالیے ۔ تجارت سے لے کر سیاست تک ، تعلیم سے لے کرامن وامان
نافذ کرنے والے اداروں تک ہرجگہ ابلیسیت ناچ رہی ہے۔ نچلے طبقے سے اعلیٰ
ایوانوں تک ہر ایک اپنے حصے کی شیطانیت دکھارہاہے۔گزشتہ دنوں رنگ ساز سے واسطہ
پڑا ۔الامان والحفیظ۔ رنگ کے ڈبوں میں ٹوکن ہوتے ہیں، جن پر مالک کا حق ہوتاہے،
رنگ ساز نظر بچاکر خود ہڑپ کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس پر متزاد یہ کہ ٹوکن کے
حصول کے لیے رنگ بہانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔
جب بھی عین موقع پر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ فرامین منطبق ہوتا
دیکھتاہوں بے اختیار محبت میں مزید اضافہ ہوجاتاہے۔آپﷺ کا قول مبارک ہے”تمہارے
اعمال تمہارے حکمران ہیں“۔ عوام برے اعمال میں مبتلا ہوں گے تو حکمران بھی برے،
عوام صراط مستقیم پر گامزن تو حکمران بھی اچھے ہوں گے۔ خود لوٹ کھسوٹ، چوری
ڈاکازنی، قتل ناحق،شراب وکباب اور دیگر خرمستےوں میں مشغول ہوں ، ووٹ فقط رشوت
لے کر دیں اور ان سب کے باوجود خواب اچھے حکمرانوں کے دیکھیں ۔ ایں خیال است
ومحال است وجنون۔ |