منشیات میں الجھتی زندگیاں

منشیا ت میں آج زندگیاں الجھتی جارہی ہیں ، ملک کے چپہ چیہ پر اس کا رجحان بڑھتاجارہا ہے ، جو کہ ملکی مفاد کے لئے تشوش کا باعث ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے روک تھام کے لئے غور وخوض جاری ہے ، اسی تناظر میں ایک خبر آئی کہ حکومت اس کے انسداد کے لئے قومی پالیسی بنانے جارہی ہے ، وزارت برائے سماجی حقوق وانصاف نے اس کے جائزہ کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے ، جس میں میڈیکل ماہرین کی بھی شمولیت ہے ، تشکیل شدہ کمیٹی نے مرکزی وزیر کماری شلیجا سے اس معاملہ میں گفت وشنید بھی کی ہے ۔

انسدا د منشیات کے لئے یہ کوئی پہلا قدم نہیں ہے ، بلکہ گاہ بہ گاہ کوئی نہ کوئی حکمت عملی اپنائی گئی ، 1985-86میں مرکزی وزارت برائے سما جی حقو ق وانصاف نے منصوبہ بندی کی تھی کہ منشیات کے استعمال میں کمی آئے ، رضاکارانہ طور پر اس مہم میں ریاستوں کی شمولیت بھی اختیار کی گئی تھی ، وزارت ابھی ملک میں تقریبا ً 737مراکز اوررضاکارانہ تنظیموں کی مدد سے ا س کے روک تھام کی کوشش کررہی ہے ، باوجود اس کے منشیات کا رجحان بڑ ھتا جارہا ہے ، اب یہ دیکھنا ہے کہ حکومت جو موجودہ قومی پالیسی لارہی ہے ، اس کا مثبت نتیجہ کس حد تک سامنے آتا ہے ۔

سب سے زیادہ تشویش کی بات تعلیمی اداروں میں اس کا بڑھتا رجحان ہے ، نوجوان نسل میں کا فروغ ہر شعبہ کے لئے تشویشنا ک امر ہے ۔ چند دنوں قبل چنئی میں متعدد تعلیمی اداروں کے طلباءکو نشیلی اشیا کے سپلائزر کے طورپر پکڑا گیا ، اسی طرح جالندھر پولس نے نشیلی اشیا ءکی خرید وفروخت کے معاملہ میں چار نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے ۔ ان کا تعلق خوشحال گھرانوں سے ہے اور وہ خود تعلیم یافتہ بھی ہےں ۔ ان کے پاس عالمی شہرت یافتہ تعلیمی اداروں کی ڈگریاں بھی ہیں ۔ پولس کا دعوی ہے کہ اب تک کی سب سے بڑی نشیلی اشیا کی خرید وفروخت کرنے والی یہ کھیپ ہے ۔ ان کی گرفتاری کے بعد متعدد اقسام کی نشیلی اشیاء34کلو 200گرام میتھا ایم فیٹامائن اور 19کلو فیڈرن وغیرہ بھی برآمد ہوئی ہےں ، جن کی قیمت بین الاقوامی بازار میں 200کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے ۔ ان نوجوانوں کی شناخت امن دیپ سنگھ چیما ، سکھوند رسنگھ عرف لڈو ، ہرکنول جیت سنگھ عرف روپا اور ہرجندر سنگھ کی شکل میں ہوئی ہے ۔ ان گینگ کا سرغنہ رنجیت سنگھ عرف راجہ ہے ۔ رنجیت سنگھ کے پاس جہاں دہلی سمیت متعدد شہروں میں مکانات اور دیگر املاک ہیں وہیں چیما کے پاس نیوزی لینڈ کا مستقل ریزیڈینٹ اسٹیٹس ہے ۔ چیما نے بی بی اے کیا ہے تو روپا کے پاس کیلی فورنیا جیسی عالمی شہرت یافتہ اعلی ومعیاری یونیورسٹی سے کیمیکل تکنیک پروسیسنگ میں ڈپلومہ کی ڈگری موجود ہے ۔

ایک سروے کے مطابق 77فیصد نشہ کرنے والوں کے عمر 11سے 18برس ہے اور زیادہ تر نوجوانوں کو منشیات کی لت کالج اور ہاسٹل کی آزادانہ زندگی سے لگتی ہے ۔ پنجاب کے چار اضلاع ’امرتسر ، جالندھر ، پٹیالا اور بھٹڈا ‘میں کئے گئے سروے کے مطابق 78.5فیصد نشہ کرنے کی عادت 16برس میں پڑتی ہے ۔
اس صورتحال پر متعدد سوالات ہوتے ہیں کہ آخر نوجوان نسل میں اس کا فروغ کیوں ہور ہا ہے ؟ آخر تعلیم یافتہ نوجوان منشیات کے اسمگلنگ میں کیوں پھنس جاتے ہیں ؟اس کے اسباب وعلل پر غورکرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اخلاقیات سے عاری نظام تعلیم سے طلبا بے راہ روہوتے جارہے ہیں ، دیگر برائیوں کی طرح منشیا ت کا رجحان ان میں پید اہونے لگتا ہے ، رہی سہی کسر ان کے والدین پوری کردیتے ہیں ۔ اگر نظام تعلیم میں اخلاقیات کو جگہ دے جاتی ہے تو معاشرہ سے بہت سی برائیوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے،مگر بدقسمتی کی بات ہے کہ صحتمند تعلیم کے لئے بے شمار اقدامات تو کئے جاتے ہیں ، مگر اخلاقیات کے پہلوکو اجاگر کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی ہے ۔ دہلی اجتماعی عصمت دری کے بعد صدرجمہوریہ اور وزیر اعظم نے بھی کہا تھا کہ جنسی تشد د کے روک تھام کے لئے تعلیمی نصاب میں اخلاقیا ت کو بھی جگہ دی جائے ۔ آج اگر قومی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح کے نظام تعلیم پر نگاہ ڈالیں تو بڑی مایوسی ہوگی ۔ نظام تعلیم کی خامیوں سے دل بے چین ہونے لگتاہے ۔ اس کی دیگر خامیوں سے قطع نظر عنقا ہوتی ”اخلاقیات “بھی سب سے بڑی خامی ہے ۔ اخلاقیات کے اسباق کے فقدان کی صورت میں ہی اعلی تعلیم یافتہ بھی اوچھی حرکتوں سے جھجھکتے نہیں ، انہیں جائز وناجائز اور حسن وقبح کی حدیں پھلانگتے شرم نہیں آتی ہے ۔ اخلاقیات سے عاری نصاب پڑھ کر ظاہرہے طلباءکے اندر ہمدردارنہ قوت پیدا نہیں ہوگی ، جاں نثاری اوروفاشعاری کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا ۔ دوسروں کے دکھ درد کا احساس نہیں ہوگا ، بلکہ قابل قدر ڈگری یافتگان بھی بے حسی کا ثبو ت دیں گے ۔

نوجوانوں کو اگر واقعی ملک وقوم کے حق میں مفید بنا نا ہے تو اس کے لئے موقع کے لحاظ سے تعلیمی نظام پر نگاہ ڈالنا ہوگی ۔ سرسید مرحوم نے کہاتھا ’جوتعلیم حسب احتیاج وقت نہ ہو وہ غیر مفید ہوتی ہے‘۔اسی طرح ایک دانا کا کہناہے ’اگر حسب احتیاج وقت لو گوں کی تعلیم وتربیت نہ ہوتو اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ لوگ اول مفلس اورمحتاج ، پھر نالائق وکاہل ، اس کے بعد ذلیل وخوار ،پھر چور و بد معاش ہوجاتے ہیں ‘۔
چنانچہ منشیات کے بڑھتے رجحان کے روک تھام کے لئے بھی ضروری ہے کہ تعلیمی نظام میں اخلاقیات کو اجاگر کیا جائے ،ا سی طرح حکومت سے کہیں زیادہ اس کے انسداد کے لئے والدین کو بیدار مغزی کا ثبوت دینا ضروری ہے ، کیونکہ اگروہ بھی منشات کے عادی ہوںگے تو ظاہر ہے کہ بچوں پر غلط اثرات مرتب ہوںگے ، پنچاب میں بے شمار والدین اپنے بچوں کو تعلیم اس وجہ سے نہیں دلواپارہے ہیں کہ وہ منشیات کے عادی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ان بچوں کے تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے فری اسکول چلائے جارہے ہیں ، اخباری رپورٹ کے مطابق پنچاب میں گذشتہ تیرہ برسوں سے ان غریب بچوں کے لئے اسکول چلانے والے اجیت سنگھ کا کہنا ہے کہ ان کے اسکول میں زیر تعلیم 656طلبا میں سے 70فیصد کے والدین ڈرگز کی وجہ سے اپنی جان گنواچکے ہیں ، بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کے بچوں پر منشات کے اثرات کیسے مرتب ہوں گے ۔

بلاشبہ منشیات کے انسداد میں حکومت ومعاشرہ کی بیداری ضروری ہے ، معاشرہ شاید ہی قابل ذکر حد تک اس کے روک تھام کا کام کررہا ہے ، البتہ حکومت گاہ بہ گاہ کچھ نہ کچھ کرتی رہتی ہے ، جو پیاس بجھانے کے لئے اوس چاٹنے کے مترادف ہے ، یہی وجہ ہے کہ کوئی خاطر خواہ فائدہ برآمد ہونے کے بجائے اس میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے ، کچھ دنوں قبل پنچاب دورہ پر مسٹر راہل گاندھی نے کہا کہ پنچاب کے دس نوجوانوں میں سے سات نشے کے عادی ہیں ، اس حقیقت پسندانہ بیان پر ریاستی حکومت نے جواب دیا کہ راہل گاندھی نے یہاں کے نوجوانوں کو نشانہ تنقید بناکر حکومت کو نشانہ بنایا ہے ، گویہ حقیقت سیاست کی بلی چڑھ گئی ،اگر واقعی حکومتیں نیک نیت ہوتیں اورمنشیات کاروک تھام مقصد ہوتا تو مشترکہ طورپر اس کے خاتمہ کے لئے اقدامات کرتیں ، واقعی راہل جی نے استہز اً یہ بیان دیا ، اس لئے ریاستی حکومت نے فی الفور جواب دیا ، اگر راہل اس حقیقت پر ریاستی حکومت سے نرم لہجہ میں گفتگو کرتے تو شاید حکومت اس کے انسدا کے لئے غوروفکر کرتی ۔ ریاستی حکومت کے فوری بیان کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں منشات کا بازار گرم نہیں ہے ، رپورٹ شاہد ہے کہ ہندوستان میں سب سے زیادہ منشیات کا استعمال پنچاب میں ہی ہوتاہے ، اس کے باوجود اس جانب اشارہ کرنے والوں کو جوابی نشانہ بنانا کہا ں کی عقلمندی ہے ، ریاستی حکومت کو تو ہوش کے ناخن لینا چاہئے تھا ۔

حکومت کی ایسی سیاسی بیان بازی میں ہی حقیقت دب کر رہ جاتی ہے ، اس کی ہرمنصوبہ بندی اورمہم کمزور ہوجاتی اور منشیات کا زوربڑھتا ہی جاتاہے ، حکومت حالیہ دنوں اس کے انسداد کے لئے جو قومی پالیسی تیار کرنے جارہی ہے ، دیکھنا ہے کہ اس کا فائدہ کتنا نظر آتاہے ، کیونکہ منصوبہ اور قانون کی کمی نہیں ہے ، مگر ان پر عمل درآمد کرنا چیلنچ سے کم نہیں ہے ، 2003میں یہ قانون بنایاگیا تھا کہ تعلیمی اداروں کے ارد گرد 100میٹرکی دوری تک معمولی معمولی نشیلی چیز کی خرید وفروخت نہیں ہوگی ، مگر آج تعلیمی اداروں کے سامنے کھلے عام ا س کی خرید وفروخت ہورہی ہے ، یہانتک کہ طلبا سرعام سگریٹ کی کش لگاتے پھر رہے ہیں اور تعلیمی اداروں میں جام چلائے جارہے ہیں ۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 100852 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More