دنیا بھر کے مسلمانوں کی ایک اہم کمزوری ان کا حد سے بڑھا
ہوا ڈر اور خوف ہے اسے آپ غیر ضروری ڈر اور خوف بھی کہہ سکتے ہیں۔ پچاس سے
زیادہ مسلم حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی مخالفت یا اس کی حکم عدولی
ان کی حکمرانی ختم کروادے گی۔ ہندوستان میں مرکزی یا کسی ریاستی کابینہ کا
وزیر مسلمانوں کے حق میں کچھ کہے گا تو اس کی وزارت چلی جائے گی۔ مسلمان
سرکاری افسر (خاص طور پر اعلیٰ) یہ سوچتا ہے کہ کسی مسلمان کی تائید یا اس
کو ترجیح دینے سے ملازمت جاسکتی ہے۔ بیشتر مسلمان اخبارات (مختلف زبانوں کے)
بھی مسلم مسائل پیش کرنے میں صحیح خبریں شائع کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ 1950ء
اور 1960ء بلکہ 1970ء میں فرقہ وارانہ منافرت کا دفعہ 153A کا اردو اخبارات
کے خلاف نہ صر ف بے دریغ بلکہ بے رحمانہ استعمال ہوتے ہوئے دیکھنے کے ہم
چشم دید گواہ اراوی ہی نہیں بلکہ اپنے کئی صحافی بھائیوں کی ’’روئیداد قفس‘‘
بھی پڑھی ہے۔ آج جبکہ حالات خاصے بدل چکے ہیں کئی بزرگ اور سینئر صحافی نہ
صرف خود خوف زدہ رہتے ہیں بلکہ جونیر صحافیوں کو ڈرتے رہنے اور محتاط رہنے
کی نہ صرف ترغیب دیتے ہیں بلکہ ان کی بات سننے کی صورت میں ان کی سرزنش بھی
کرتے ہیں خود ہمارے شہر میں ایسے محتاط حضرات کی مناسب تعداد موجود ہے۔
اپنی بات نہ کہنے ڈرنے خوف کھانے کی وجہ سے ہم خاصے نقصان اٹھاتے رہے ہیں
اور یہی حال رہا تو اٹھاتے رہے گے۔ آگے بڑھنے سے قبل ہم یہ بھی بتادیں کہ
آج ہی نہیں بلکہ اس وقت جب کہ میڈیا یا ذرائع ابلاغ صرف اخبارات تھے اس وقت
خبر رساں ایجنسیاں اور اخبارات مسلمانوں کے بارے میں خبریں نظر انداز کرتے
تھے مثلاً پارلیمان میں مختلف مسائل ہے مثلاً فسادات، کسی بات پر احتجاج یا
مسلم مطالبات کے بارے میں مسلمان ارکان کی تقاریر کا ذکر یاتو ہوتا ہی نہیں
تھا اگر ہوتا بھی تھا تو برائے نام۔ 1970ء کے بعد یوں بھی مسلم ارکان
پارلیمان یا اسمبلیوں میں تقریر کی زحمت ہی کم کرتے تھے یا کرتے بھی تو
مسلم مسائل پر ڈرتے ڈرتے کبھی کبھار کچھ بول لیتے تھے۔ مولوی اسماعیل،
بدرالدجیٰ، مولانا اسحق سنبھلی کی طرح بولنے والے تھے ہی نہیں۔ بنات والا،
صلاح الدین اویسی، وغیرہ بعد میں آئے آج کل چند ہی بولنے والے ہیں(جن میں
حیدرآباد کے اسدالدین اویسی نمایاں ہیں) لیکن مسلمانوں کو اخبارات میں جگہ
کم ملتی ہے۔ ٹی وی چینلز وقت نہیں دیتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ آزادی کے بعد مسلمم قیادت نے مسلمانوں کی نمائندگی کا حق
ادا نہیں کیا۔ آج بھی ہم میں ایسے افراد موجود ہیں جو آزادی کے بعد کانگریس
کے مسلمان قائدین (مولانا آزاد، رفیع احمد قدوائی، آصف علی اور دیگر مسلم
قائدین کے بارے میں اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ ان اصحاب نے مسلمانوں کی
زبردست خدمت کی ہے بلکہ ان اکابرین کی وجہ سے ہی ہندوستان میں مسلمانوں کا
وجود باقی رہا۔ تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے ہم صرف اس قدر عرض کریں گے کہ
اگر مولانا آزاد اور ان کے ساتھی ہمت دکھاتے تو مسلمانوں کو آج ریزرویشن کے
لئے ترسنا نہیں پڑتا۔ اردو کا حال اس قدر برانہ ہوتا، علی گڑھ مسلم
یونیورسٹی کا اسلامی کردا ر کسی حدتک باقی رہتا ۔ علی گڑھ یونیورسٹی کا
اسلامی کردار کسی حدتک باقی رہتا۔ علی گڑھ میں مسلمان طالب علموں کے لئے
نماز کی پابندی لازمی تھی۔ وہ تک برقرار نہیں رہ سکی۔ جامعہ عثمانیہ سے
اردو کا جنازہ نکل گیا۔ یہ ماننے والی بات ہے کہ سردار پٹیل اور شیاماپرشاد
مکھرجی کی زندگی تک حالات بے حد ناساز گار تھے لیکن پٹیل کے بعد بھی مولانا
نے اور ان کے ساتھی قائدین نے کچھ نہیں کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ سردار پٹیل کا
تو بہانہ ہے مسلم قائدین کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ ہاں حکومت ہند کے لئے
مولانا اور ان کے ساتھی حضرات نے بے مثال خدمات انجام دیں۔ ملک کے لئے
مولانا ہوں یا قدوائی صاحب کی خدمات کا کیا کہنا لیکن ملت کے لئے ان کی
خدمات کا خانہ خالی ہے۔ مولانا اور ان کے ساتھی قوم پرستوں کا کچھ نہ کرنا
درگذر کیا جاسکتا تھا لیکن ان کے بعد آنے والی قیادت کی تربیت تک انہوں نے
نہیں کی تھی نتیجہ یہ ہوا کہ مولانا کی جگہ لینے والے مولانا ہی کے راستے
پر چلتے رہے۔ مولانا بہر حال بڑے محترم تھے۔ ان کی ہر کوئی عزت کرتا تھا
مولانا کے جانشینوں کو نہ صرف عزت ملی نہ احترام ملا۔ ان ناعاقبت اندیش
قائدین نے اپنے طور پر فرض کرلیا کہ مسلمانو ں کو خیریت کے ساتھ امن و
سلامتی سے اگر رہنا ہے تو لازم ہے کہ مسلم لیگ، جناح اور پاکستان پر تبرّہ
بازی کی جائے۔ سیکولرازم قومی یکجہتی کا حکومت یا اکثریت سے کوئی واسطہ
نہیں ہے یہ تو صرف مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔
سیکولرازم کا مطلب یہ نکالا گیا کہ غیر مسلم لڑکیاں ان کے خاندان میں اپنے
مذہب پر رہتے ہوئے داخل ہوں۔ ان کی لڑکیاں اپنا مذہب ترک کرکے غیر مسلموں
میں بیاہی جائیں۔ عوامی شخصیات کے لئے غیر مسلم بیوی سیکولرازم کی علامت
(مثلاً ارونا آصف علی سے مسز سلمان خورشید) ہے۔ کوئی عظیم مسلمان قائد نے
جگت گرو شنکر اچاریہ کے قدم چھوئے تاکہ عہدہ نائب صدارت سے ترقی کرکے صدر
جمہوریہ بن سکے۔ کوئی صدر جمہوریہ کیش کی مورتی کے آگے پونا ( پونے) میں
ہاتھ جوڑے، تلک لگائے، راجیو گاندھی نے بابری مسجد کو عملاً مندربنادیا اور
مسلمان ان کی جئے جئے کارکرتے رہے۔ نرسمہا راؤ نے بابری مسجد شہید کروادی
ان کی کابینہ ان کی پارلیمان، ان کی پارٹی سے مرکز یا ریاستوں میں مستعفی
نہ ہوئے۔ بہ کمال بے غیرتی و بے شرمی اپنے عہدوں سے چمٹے رہے۔ گجرات 2002ء
ہوا، دہشت گردی کے نام پر مسلم نوجوانوں کی زندگیاں اجیرن کی جارہی ہیں۔
مسلمان خورشید نے مسلم اوقاف کی تباہی کا منصوبہ ہی تیار کیا تھا۔ موجودہ
مسلمان نائب صدر کی اہلیہ ضرورت سے زیادہ بڑی بندیالگاکر نہ صرف اندلان ملک
بلکہ بیرون ملک اپنے شوہر کے سیکولرازم کا پرچار کررہی ہیں۔
کانگریسیوں کے ساتھ بعد میں آنے والے غیر کانگریسی بھی ’’مولانائی‘‘ راہ پر
گامزن ہیں۔ بی جے پی کے مسلمانوں یا (مسلمان ناموں کے حامل قائدین (کی ہم
بات نہیں کرتے ہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل ہم بتادیں کہ وزارت خارجہ کے کئی
مسلمان عہدیداروں اور مسلمان سفیروں کی بیگمات کا غیر مسلم ہونا بھی
سیکولرازم کی نشانی جانی جاتی ہے۔
آج ملائم سنگھ یادو اور نتیش کمار کے بڑے چرچے ہیں لیکن جو درحقیقت اصلی
سیکولر تھا جس نے اڈوانی کو گرفتار کرکے اس کی رتھ یاتھرا ختم کروائی تھی
جس نے توگڑیا، گری راج کیشور اور اشوک سنگھل کو پٹنہ کی طیران گاہ سے واپس
کردیا تھا۔ اس صلی سیکولر قائد یعنی لالو پرساد یادو کو نام نہاد سیکولر
افراد نے ہی ہرایا۔ نتیش کے سیکولر ازم کے چرچے کرنے والے نتیش کے حلقہ
بگوش یا چمچوں (جن میں مسلمان بھی شامل ہیں) سے کوئی یہ تک نہیں پوچھتا ہے
کہ تمام اسکولوں (بہ شمول شرکاری اسکولس ’’سوریہ نمسکار‘‘ نامی ہندو طریقہ
عبادت کا نفاذ کیا۔ سیکولرازم ہے؟ بہار کی حکومت سے مسلمانوں کو جو شکایات
ہیں ان کے ازالہ کے لئے بہار کے مسلم وزرأ، ارکان اسمبلی یا جے ڈی یو کے
قائدین نے کیا کیا؟ آج یوپی میں مسلمانوں کو اکھلیش حکومت سے بے شمار
شکایات ہیں۔ اس سلسلے میں ملائم سنگھ یااکھلیش اخباری بیانات میں تنقید
کرنے والے آخر ا س ضمن میں اعظم خاں اور دوسرے مسلمان وزرأ اور ارکان
پارلیمان، کونسل اور اسمبلی سے سوال کیوں نہیں کرتے کہ ملائم سنگھ واکھلیش
کیا کررہے ہیں؟ کیوں کررہے ہیں؟
بہار میں سوریہ نمسکار اور یو پی میں مسلم مسائل کی عدم یکسوئی پر اگر
مستعفی ہوجائیں یا مستعفی ہونے کی دھمکی دیں تو صورت حال بدل سکتی ہے لیکن
ہمارے مسلمان وزرات یا کوئی اور کرسی چھوڑنے کے کسی حال میں روادار نہیں
ہوتے ہیں۔ جہاں تک ہماری معلومات ہیں مسلم مسئلہ یا کاز کے معاملہ میں
حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے بشیر الدین بابو خان واحد مسلم وزیر ہیں جو
تلگودیشم سے تعلق رکھتے تھے۔ جب تلگودیشم نے بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی
اے میں شریک ہونے کا اعلان کیا تھا تو بطور احتجاج خان صاحب نے آندھراپردیش
کابینہ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ بھلے ہی بشیر الدین کے مستعفی ہونے سے
تلگودیشم نے اپنا فیصلہ بدلا نہیں لیکن ایک مثال تو قائم ہوئی۔ لیکن
آزادہندوستان میں مسلمانوں کی قربانی کی مثالیں شاذ و نادر ہی ملتی ہیں۔
ڈراور خوف کے علاوہ مسلمانوں میں احساس کم تری بہت زیاد ہے ۔ ایک عام
مسلمان کی سوچ یہ ہے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں؟ ہمارے ہاتھ میں کیا ہے؟
تعلیمیافتہ اور دانشور قسم کے بعض مسلمان جو خود کچھ نہیں کرتے ہیں لیکن
کرنے والوں کو یہ کہہ کر ڈراتے ہیں کہ ہندواکثریت ملک کو ہندوراشٹربنادے گی
یہ خدشہ مصنوعی ہے ملک کا دستور بدلنا آسان نہیں ہے بلکہ ملک کی سیاسی
صورتِ حال کے پیش نظر ناممکن ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کو عزت سے رہنا ہے تو مک کی مسلم قیادت ہی نہیں بلکہ
عام مسلمان کو اپنی روش بدلنا ہوگا۔ ڈر، خوف اور احساس کم تری سے آزاد ہوکر
مسلمانوں کو پرامن طریقہ سے منظم احتجاج کرنا ہوگا۔ احتجاج کا مطلب سڑکوں
پر آکر تشدد نہیں ہے۔ مسلم ارکان پارلیمان کو اپنی پارٹی سے مسلم مسائل کے
حل کے لئے مطالبات کرتے ہوں گے اور شنوائی نہ ہوتو پارٹی وفاداری سے بالا
تر ہوکر مختلف جماعتوں کے مسلمانوں کو متحد ہوکر پارلیمان واسمبلیوں میں
لڑنا ہوگا۔ وزارتوں اور رکنیت سے مستعفی ہوکر قربانی دینا ہوگی۔ اگر ترقی
کرنا ہے تو ہمت جرأت قربانی کے جذبات سے کام لینا ہوگا۔ |