یورپ کے بارے میں جتنا سنا اور جتنا پڑھا وہ سب تھوڑا
تھوڑآپھیکا لگا،اس وقت جب میں نے خود اپنی آنکھوں سے کچھ چیزیں دیکھنا
شروع کیں،چونکہ میں شاید جس معاشرے سے نکلا وہاں یہ ہی آوازمیرے کانوں کے
ذریعے میرے سسٹم میں اپلوڈ کی جاتی رہیں کہ وہ بے حیا ہے،کافر ہیں ہمارے
ملک کے دشمن ہے مذہب کے دشمن ہیں، اور وہ بے شمار چیزیں جوکسی بھی حدتک ان
کی برتری کو ماننے کے لئے آپ کے ذہن میں خالی جگہ نہیں چھوڑتی-
میرا اس دفتر میں یہ پہلا دن تھا اور مرکزی دفتر سے اندر داخل ہوا توباقی
ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ گیا،مجھے یہ امید تھی کہ کوئی چپڑاسی،چھؤٹو،ماما،لالا
آئے گا اور میرے سامنے پانی پیش کریگا پھر مجھ سے چائے کا پوچھےگا۔لیکن میں
آنکھیں ٹم ٹماتا رہا اور کوئی نہ آیا اور اپنی انا کی جنگ میں خود یہ گوارا
بھی نہیں کیا کہ خود جاکے پانی پیوں کیونکہ میری سوچ مجھے بار بار کہہ رہی
تھی کہ یہاں مہمانوں کی کوئی قدر نہیں نہ کوئی چائے کا پوچھتا ہے نا کوئی
پانی کا اور میں اپنی انا کو نیچے دیکھانے کے بجائے پیاسے رہنے پر ترجیح دی-
پھر اس باریک داڑھی والے نوجوان نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آگرآپ کا
چائے پینے کا موڈ ہے تو سامنے رکھی ٹیبل پے جائیں اور اپنی مرضی کی چائے
بنا کے پی لیں۔
وقت آگے بڑھتا رہا اور میں مختلف مشاہدات سے گزرتا رہا اور مجھے پھر اس بات
کا یقین ہوا کہ یہ قوم اپنے سارے قوم خود کرنے پریقین رکھتی ہے ،یہ صفائی
کے لئے ماما،چائے بنانے کے لئے لالا،فائل اٹھانے کے لئے بچل کو نوکریاں
نہیں دیتی پھر ایک دم یاد آیا کہ یہ تو میرے مذہب نے سکھایا ہے ”جوکام خود
کرسکو،اس کے لئے کسی اور کو مت کہو”۔
آج دنیا بھر میں یوم مزدور منایا جارہا ہے،بحثیت قوم ہم جس بے صبری سے ان
چھٹیوں کا انتظار کرتے ہیں کہ شائد ہی کسی اور چیز کا کرتے ہوں اور میرے
جیسے بے شمار نوجوانوں کو آدھی زندگی تک یہ علم ہی نہیں ہوا کہ یہ چھٹی کس
خوشی میں ؟ مثال کے طور پر میرے لیے یہ بات ہمیشہ سے ایک عجیب سوال کی طرح
رہی کہ اور یوم کشمیر کی چھٹی منانے سے ایک عام کشمیری کی زندگی پر کیا اثر
پڑیگا ؟
خیر ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے لگا تو میری بقیہ آدھی زندگی یہ ہی سوچتے کٹ
جائیگی اور میرے سپنے ادھورے رہے جائینگے۔
یوم مزدور منانے سے ہماری زندگی پے کیا اثر پڑیگا سوچیئے گا ضرور |