عرب دنیا کا مشہور مقولہ ہے کام کرنا زندوں کو شایا ں ہے
اور بے کار رہنا مردوں کو۔ اس قول کو مد نظر رکھتے ہوئے آج ہم اپنی قوم کی
طرف نگاہ ڈالیں اور جائزہ لیں تو نہایت افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمار
ے قوم میں کوئی جان باقی نہیں ۔
اس بات سے انکار نہیں کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا راز اس کے اس کے افراد کے
عزم، ہمت اور استقلال کیساتھ کام کر نے کی عادت میں پائی جاتی ہے اگر کسی
خاندان بلکہ قوم میں اگر کوئی شخص ایسا پیدا ہو جائے جس میں یہ خصوصیات
موجود ہوں تو اسکی ذات سے تمام خاندان اور قوم فائدہ اُٹھاتی ہے ۔میں جس
قوم کے افراد میں یہ خصلتیں پائی جائیں ممکن نہیں وہ قوم اپنی بساط کے
بطابق ترقی نہ کر ئے۔
مگر وہ اسلام اور مسلمان جو بحر قلزم کی طرح مو جیں مارتا ہوا ُٹھاتھا آج
بحر منجمد کی طرح سُست و ساکن معلوم ہوتا ہے۔
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ترقی کی قابلیت ہماری قوم میں بھی اس قدر ہے
جس قدر دنیا کے دوسرے شام قوموں کے اند ر موجود ہے مگر باوجود ان تمام
باتوں کے ہم دیکھتے ہیں کی ترقی کی روح ہمار ے اندر سے نکلتی جا رہی ہے ہم
خوب جا نتے ہیں کہ ہمیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے مگر ہم کرتے کچھ نہیں۔
ہمیں بھوک لگتی ہے مگر چاہتے ہیں کہ پکاپکایا ہاتھ لگ جائے تو ہم کھالیں۔
پیاس سے مر رہے ہوتے ہیں مگر اس بات کے منتظرہیں کہ کو ئی آئے اور ہمارے
حلق تک پانی پہنچادے۔ ہم دنیا کے کاموں کو فانی اور حقر بتاتے ہیں اسلئے کے
فی الحقیقت یہ دنیا فانی ہے۔
ہم آج انگور کے خوشوں سے اسلیئے ناک نہیں چڑھاتے کہ وہ کھٹے ہیں بلکہ
اسلیئے کہ ان کے توڑنے میں ہمیں دقت محسوس ہوتی ہے۔
ہم کہتے سب کچھ ہیں مگر کرتے کچھ نہیں۔
ہمیں بھوک لگتی ہے مگر چاہتے ہیں کہ پکا پکایا ہاتھ لگ جائے تو ہم کھا لیں۔
پیاس سے مر رہے ہوتے ہیں مگر اس بات کے منتظر ہیں کہ کوئی آئے اور ہمارے
حلق تک پانی پنہچادے۔
ہم دنیا کے کاموں کو فانی اور حقیر بتاتے ہیںاس لئے کہ ہم سے ہاتھ پاﺅں
ہلائے نہیں جاتے نہ کہ اس لئے کہ فی الحقیقت یہ دنیا فانی ہے۔
ہماری حالت ہمیں جھٹلاتی ہے اور ہمارے اعمال ہمیں قول کی تکذیب کرتے ہیں۔
قوم کے دیگر افراد کی طرہمارا جوان طبقہ بھی آج آرام و آسائش کا طلبگار
ہے۔آج ہمارے جوانوں اور طلبہ کی بڑی دوڑ بی۔اے ایم۔اے یا ایم ایس سی کی
ڈگری حا صل کرنے کے بعد یہ ہے کہ مڈل پاس کئے طلبہ کی طرح سرکاری نوکری
کیلئے ادھر ادھر دوڑ لگاتا پھرے اور ذلیلوں اور سفارش کی تلاش میں سرکرداں
پھرے۔
آج ہمارے نو جوانوں کو اپن دست پازو پر اتنا بھی بھروسہ نہیں جتنا کہ چر ند
وں اور پرندوں کو اپنی قوت لا یموت کی تلاش میں ہوتا ہے۔
آج ہمار ی قوم اپنی وجہ معاش کو غلامی یعنی نوکری میں ہی منحصر جا نتی ہے،
ہما رے بہت سے نو جوان مغرب کا رخ کر تے ہیں ۔ اپنی عمر کا ایک بڑا اور
عمدہ حصہ وہاں تعلیم حاصل کرنے میں گزارتے ہیں۔
علم و عمل کے سائے میں پرورش پاتے ہیں مگر وطن واپس لوٹتے ہیں تو اس شعر کے
مصداق ہوتے ہیں۔
ہماری قوم ترقی اور تنزلی کے مفہوم کو سمجھتی ہے مگر ان میں بھی دو خیالات
والے لوگ ہیں۔پہلے پرانے خیال والے جو قومی تنزلی کے اخیر نتائج کا بخوبی
اندازہ نہیں کر سکتے۔وہ اس حیلے سے سعی و کوشش کو بے سود سمجھتے ہیں کہ
دنیاوی تنزلی اور دنیاوی ترقی ہیچ ہے۔انجام دونوں کا فنا ہے۔ہمیں صرف وہاں
کی تیاری کرنی چاہئے بس۔دوسری قسم کے لوگ یعنی نئے خیال والے جو ترقی و
تنزلی کی ماہیت اور نتائج سے بخوبی واقف ہیں ان میں سے اکثر کا یہ قطعی
فیصلہ ہے کہ مسلمانوں کی قوم ہر گز ابھرنے والی نہیں ان کا ضعف کسی ایسے
مرض سے نہیں جو ردات مادہ سے عارض ہوا ہو تا کہ اس کو قابل علاج سمجھا جائے
بلکہ اس سبب سے ہے کہ اس میں حرارت غریزی باقی نہیں رہی اس لئے انہیں
سنبھالنے کی کو شش بے سود ہے۔
اس طرح بعض کچھ کر نہیں سکتے اور بعض کچھ کرتے نہیں اور یہ بہت بڑا ثبوت ہے
کہ ہماری قوم میں عملی قوت باقی نہیں رہی۔
آج ہمیں ایسے افراد کی ضرورت ہے جو زمانے کے رفتار کے موافق نہ صرف باتوں
سے بلکہ کاموں سے قوم کے لئے خود نمونہ بن کر ہماری قوم کو ترقی کی طرف
مائل کریں معاشرے میں جو خرابیاں ہیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی مذمت
کریں معاش کے وہ جائز ذریعے جو قوم کے اکثر جماعتوں میں معیوب گنے جاتے ہیں
جیسے دکانداری،صنعت کاری اور دستکاری ان کو خود اختیار کریں اور ان جماعتوں
کی جھجک دور کریں اور سب سے اہم ضرورت تعلیم جو کہ ترقی کی جڑ ہے اس کی
اشاعت میں ہر دم کوشش کریں ۔
مگر افسوس ایسے لوگ قوم میں نایاب بلکہ ناپید ہو گئے ہیں۔ہمارے قوائے
متحرکہ معطل اور بے کار ہو گئے ہیں۔ہم میں ہمت اور اولوالعزمی کا نام و
نشان نہیں رہا۔ہم بظاہر زندہ ہیں لیکن حقیقت میں نہیں۔
جس قوم نے چودہ سو سال دنیا پر حکومت کی آج وہی قوم دنیا کی اک مفلوج اور
اپاہج قوم بن کر رہ گئی ہے۔جس کو ہر وقت مغربی دنیا کی سہارے کی ضرورت ہوتی
ہے۔
اپنے آباؤ اجداد جنہوں نے پوری دنیا میں اپنی شجاعت و کرامت،عدل و انصاف
اور علم و عمل کا سکہ جمایہ ان کی پیروی چھوڑدی اورآرام و آسائش طلب ہو گئے
تو دنیا نے بھی ہمیں ٹھو کر ماردی اور تنزلی ہماری مقدر بن گئی۔علامہ اقبال
اس لئے جواب شکوہ میں کہہ گئے۔
بھلادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
پس آج ضرورت اس امر کی ہے کہ جن لوگوں کو قومی ترقی کا خیال ہے وہ غور کریں
کہ یہ خاموشی اور سناٹا جو ہماری قوم میں ہر طرف نظر آتا ہے اور جو مردنی
ہمارے تمام طبقوں پے چھائی ہوئی ہے آیا یہ محض اک اتفاق ہے جس کی کوئی فکر
نہیں کرنی چاہیئے یا وبائے عام ہے جس کو زبردست اور قوی اسباب سے نکال باہر
پھینکنے کی ضرورت ہے۔
بیشک یہ محض شبہ اور اتفاق نہیں بلکہ یہ خاموشی وہ وبا ہے جو پوری قوم کے
اندر سرائیت کر چکی ہے۔جب تک نہایت زبردست تدبیروں سے اس وبا کا علاج اور
تدارک نہیں کیا جائے گا آنے والی نسلوں کی تعلیم میں عملی تربیت کی روح نہ
پھونکی جا سکے گی اور اس وقت تک مسلمانوں میں قومی زندگی پیدا ہونی دشوار
ہے -
آج بحر منجمد کی مانند سا کن بنے رہنے کے بجائے پھر ضرورت ہے کہ بحر قلزم
کی طرح موجیں مارتے ہوئے اٹھیں تاکہ اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کر
سکیں۔
دردِدل، تنویر احمد شگری |