ہم سب بھی کیسے عجیب و غریب معاشرے کا حصہ ہیں۔جب شخصیات
زندہ ہوتی ہیں تو نہ ان کی قدر کرتے ہیں اور ان کی توقیر کا ہمیں خیال رہتا
ہے۔اور شخصیات جب لیڈر بن جاتے ہیں انہیں عوام کا خیال نہیں ہوتاسوائے اس
کے عوامی نعرے لگا لگا کر انہیں ہمت و حوصلے کا آکسیجن فراہم کرنے کے؟ اس
ضمن میں تو مجھے کئی نام یاد آتے ہیں ، البتہ اگر دیکھا جائے تو پاکستان
بننے کے بعد سے اب تک کئی شخصیات عوام کی زندگی میں آئے ہیں مگر ہم ان کی
توقیر کوجب سمجھے جب وہ اس دارِ فانی میں نہیں رہے۔اور جو شخصیات ابھی بقیدِ
حیات ہیں ہمیں ان کی بھی قدر نہیں۔جب بھی کوئی شخصیت گزر جائے یااس کا وقتِ
مقررہ پورا ہو جائے تو اس کے سب اچھے کام یاد آتے ہیں اور ہم عوام انہیں
دہائی دیتے ہیں کہ کاش وہ دوبارہ برسرِ اقتدار آ جائے تو قسمت کی لکیریں
صحیح سمت میں نمودار ہو جائیں۔ مگر اُس وقت تو صرف اتنا ہی کہا جا سکتا ہے
کہ ” اب پچھتاوت کیا ہوت۔ جب چڑیا چُگ گئی کھیت“ آج تبدیلی کی باتیں زبان
زدِ عام ہیں مگر یہ عوام ایسا محسوس ہوتاہے کہ ابھی تک ٹکروں میں بٹے ہوئے
ہیں۔ہر جلسے میں مقدور بھر عوام کا جلوہ افروز ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ
عوام ابھی بیدار نہیں ہوئی اور انقلاب ابھی اس ملک سے کوسوں دور ہے۔اسی لئے
کہاجاتاہے کہ شخصیات کی زندگی میں ہی ان سے پیار کرنے والے ، ان کے
کارناموں کو بھی اجاگر کیا کریں،ماناکہ ہر شخصیت ملک سے اور عوام سے مخلص
نہیں ہوتامگر ان ہی میں چند ایسے بھی ہوتے ہیں جو عوام اور ملک کا درد
رکھتے ہیں۔کاش! کہ یہ تمام صورتحال ہماری عوام کے سمجھ میں آجائے۔اور جس دن
یہ تاریخی نوعیت کی تبدیلی آگئی بس سمجھ لیجئے کہ اُسی دن پاکستان اور اس
کے عوام کی قسمت بدل جائے گی۔اب دیکھئے ان دنوں ملک کے عوام مہنگائی سے
پریشان ہیں، ساتھ ہی بدعنوانی سے بھی نالاں ہیںجس کی وجہ سے ملک بھر میںبے
روزگاری عروج پرہے اور نوجوان نسل ڈگریاں ہاتھوں میں تھامے اس دفتر سے اُس
دفتر کا صرف چکرہی لگاتے نظر آتے ہیں ۔نوجوانوں کی اس کسمپرسی پر نظرپڑتی
ہے تو فرانس کی ملکہ کاکہا ہوا ایک جملہ یاد آتاہے جو انہوں نے بڑی معصومیت
سے کسی سوال کے جواب میں کہہ دیا تھا۔”جب بدعنوانی اور مظالم بڑھ جاتے ہیں
تو انقلاب آہی جاتاہے۔“ اور ایک وقت ایسا بھی آیا جو فرانس کے انقلاب کی
وجہ بن گیا۔بہرحال سربراہوں کے جملے کو ہی لے لیں کہ ملک ترقی کر رہا ہے۔
مگر کیا وہ یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے عوام روٹی کو ترس رہے ہیں،اس کی
بڑی مثال تویہ ہے کہ جب پنجاب کے طلباءکو لیپ ٹاپ تقسیم کیئے گئے تو ان میں
سے کئی اسے فروخت کرتے ہوئے پائے گئے۔طلباءکا کہنا یہ تھا کہ ” ہم اسے بیچ
کر گھر والوں کے لئے اناج خریدناچاہتے ہیں، تاکہ پیٹ بھر سکیں۔“جس ملک کے
عوام کو روٹی میسر نہیں وہ لیپ ٹاپ سے بھلا کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟یہ ایک
اہم سوال ہے مگر پھر بھی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے یہاں انقلاب نہیں
آتا۔زلزلہ ، قحط، سیلاب تو قدرتی آفات ہیں، مگر ملک میں ہونے والے بم
دھماکوں اور دستی بموں کے حملے سے بھی عوام پریشان ہیں۔کسی بھی وقت ناگہانی
حالات سے نمٹنے کے لئے کوئی انتظام دیکھنے میں نہیں آتا ہے۔پچھلے دنوں
کراچی میں ایک نوجوان جب اپنی نوکری کے سلسلے میں مطلوبہ مقام پرانٹرویو
دینے پہنچا تو وہاں آگ لگ گئی اور بیچارہ آگ سے بچنے کے لئے اوپری منزل کی
کھڑکی پر کافی دیر لٹکارہا مگر نہ تو کسی شخص کو اس کہ جان بچانے کی سوجھی
اور نہ ہی فائر بریگیڈ والوں کے پاس ایسا کوئی انتظام تھاکہ اس نوجوان کو
بچا لیتے، آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ وہ نوجوان بجائے روزگار حاصل کرنے
کے بجائے کھڑکی سے گِر کر دارِ فانی سے ہی رخصت ہوگیا۔پھر بھی یہاں انقلاب
نہیں آیا، آنے والے سیلاب کے دوران بھی کوئی ایسا انتظام نہیں کیا گیا تھا
کہ ڈوبنے والوں کو بچایا جاسکتا۔ آئے روز عوام کی کسی نہ کسی بہانے موت بھی
ملک کے حفاظتی انتظامات کی قلعی کھولتی ہے، مگر عوام بے چارے پھر بھی جی
رہے ہیں۔ہر شخص یہ جانتا ہے کہ خواہ وہ گھر میں رہے یا گھر سے باہر ،محفوظ
نہیں ہے، مگر سب کچھ کچھ دنوں بعد ہی بھلا دیاجاتاہے اور لوگ معمول پر
آجاتے ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام کی پہلی ضرورت روٹی اور
روزگار ہے، جب تک یہ روٹی میں الجھے رہیں گے انہیں دوسری ضرورتوں کا احساس
نہیں ہوگا اور نہ ہی انقلاب کی دستک انہیں سنائی دے گی۔جس دن روٹی ،
مہنگائی، کرپشن، لوڈ شیڈنگ کا معاملہ حل ہوا تو ہی انقلاب کی آواز کانوں
میں رس گھولے گی۔
ہماری آزادی کو بھی اب لگ بھگ 65سال تو گزر ہی چکے ہیں ، اور یہ عرصہ کسی
بھی قوم یا طبقے کو منظم ہونے کے لئے کافی ہوتا ہے، مگر افسوس کی بات ہے کہ
اس طویل عرصے میں نہ تو عوام اور نہ ہی جماعتیں متحد و منظم ہو سکیں،جس کا
فائدہ متعصب سیاسی پارٹیوں، اداروں اور مسلم ملکوں کے دشمن قوتوں کو ہی ہوا
ہے۔اگر ہم کسی ایک پلیٹ فارم پر منظم اور متحد ہو جاتے تو انقلاب نہیں آ
جاتا؟اور اس ملک اور یہاں کے عوام کا مقدر نہیں سنبھل چکا ہوتا؟اب تک سوائے
جذباتی نعروں اور سیاسی فائدہ اٹھانے کے سوا قوم کو متحد کرنے میں کوئی بڑا
کارنامہ انجام نہیں دیاگیا۔دہشت گردی کی ہر واردات کے بعد شک کی سوئی بھی
اکثر اسنیپ چیکنگ کے بہانے عوام پرہی اٹھتی ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ قوم
کے مفاد پر اپنے مفاد کو ترجیح دینا حکمرانوں کا شیوہ رہا ہے۔اور اس کشمکش
کے بیچ میں پِس رہے ہیں بیچارے عوام۔ہر جماعت الگ الگ دکان سجا کر اپنا
اپنا سودا بیچنا چاہتی ہے اور وہ اپنے مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی ہو
چکے ہیں اس کی مثال بھی آپ کے سامنے ہے کہ ملک کی بڑی پارٹیوں کے ہر جلسے
میں لوگوں کا ہجوم نظر آتا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ گیارہ مئی کو عوام کیا
فیصلہ کرتی ہے۔ اگلی حکومت اچھے لوگوں کی آنی چاہیئے یہ میڈیا پر اکثر لوگ
کہتے پائے جا رہے ہیں، اور اگلی حکومت کے لئے کم از کم چار فوری نوعیت کے
حل طلب مسائل سر اٹھائے کھڑے ہونگے جس کی بنا پر یہ سب اپنی اپنی سیاسی
دکان چکانے میں محو ہیں۔ امن و امان، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی ،
ان چاروں مسائل کا خاتمہ جو حکومت بھی کرے گی عوام اسے اپنے سَر پر بٹھائے
گی۔ فی الحال ایسا ہی محسوس کیا جا رہا ہے مگر مکمل حالات کا اندازہ اس وقت
ہی ہوگاجب نئی حکومت بنے گی اور فوری نوعیت کے طور پر کیا اقدامات عوام کے
لئے اٹھائے جائیں گے۔پھر تمام تر صورتحال کا اندازہ کیا جا سکے گا۔ So lets
wait and watch
اب دیکھئے کہ ہماری خارجہ پالیسی بھی کس طرف جا رہی ہے ، خدا خیر کرے ہمارے
یہاں ایک پھانسی کے قید ی سربجیت سنگھ پر اس کے ہی ساتھیوں نے حملہ کیا اور
وہ جاں بحق ہو گیا۔مگر پڑوسیوں کو تو بس ایک بہانہ مل گیا پاکستان کو بدنام
کرنے کا، وہ یہ نہیں سوچتے کہ اسے تو پھانسی کی سزا ہو ہی چکی تھی آج نہیں
تو کل اسے چودہ بے گناہ لوگوں کو دھماکہ سے ہلاک کرنے کے جرم میں پھانسی
ہونا ہی تھا۔ مگر اس کے جواب میں کل ایک پاکستانی قیدی کو بھی اسی طرح لہو
لہان کر دیا گیا اور وہ اب بھی کومہ میں ہے۔یعنی کہ انہوں نے سربجیت کا
بدلہ چکا دیا۔اور خوش بھی ہو گئے، اسی لئے تو کہتے ہیں کہ جس کی ڈسنے کی
عادت ہو وہ ہر موقعے پر ڈستے ہی ہیں۔یہ شعر بھی بھارت کے معاملے میں بالکل
صادق اترتا ہے کہ:
تو لاکھ پیار کے منتر پڑھتا رہے پاکستان
جن کی فطرت میں ہو ڈسنا وہ ڈسا کرتے ہیں
پھر ہماری خارجہ پالیسی اس پر اپنا واضح موقف کیوں نہیں دیتی، کیوں ایکشن
نہیں لیا جاتا، سمجھ سے بالا تر ہے۔ خیر ہم شاید موضوع کو چھوڑ کر دوسری
طرف نکل گئے ہیں اس لئے واپس اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ بات ہو رہی تھی کہ
ہم تو کب کہ مر چکے ہیں۔ ملک کے رہنماﺅں نے (جو ملک کے عوام سے مخلص نہیں
ہیں) جب بھی گندی اور اوچھی سیاست کا سہارا لیا ہے، معاملات سلجھنے کی
بجائے الجھتے چلے گئے۔ اس لئے اب ایسے رہنماﺅں کو چُننے سے پہلے عوام ایک
بار ضرور سوچے کہ کون ان کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے اور کون
نہیں۔صرف اتنا ہی سوچ لینا کافی ہے پھر آپ کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی۔
خدا آپ سب کا حامی و ناصر ہو۔ |