ظلم کی چکی

پاکستان میں اس وقت حکومتی اداروں کی نااہلی اور بے حسی کے باعث انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں رہی جبکہ بازار میں پرندے آزاد کرنے اور مرغیاں زبح کرنے والوں نے بھی انکی جانوں کی قیمت مقرر کررکھی ہے اور بطور قوم اب ہم غلامانہ زہن کے ساتھ ان سب برائیوں کو قبول کرچکے ہیں اور کیا مجال ہے جو کبھی کسی نے اپنے ساتھ ہونے والے مظالم پر کبھی سر اٹھایا ہوآپ کسی بھی سرکاری ادارے میں چلے جائیں بلخصوص جو بنے ہی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہیں جن میں ہسپتال ،تھانہ کچہری،واپڈا،ضلعی ادارے اور جیلیں سرفہرست ہیں اور انہی جگہوں پر عوام کی سب سے زیادہ مت ماری جاتی ہے آپ ہسپتال میں چلے جائیں ایک وارڈ اٹینڈنٹ سے لیکر ایم ایس تک سب فرعون بنے بیٹھے ہیں مجال ہے آپ کو کوئی دوائی بغیر ذلیل ہوئے مل جائے اگر آپ کے پاس کوئی بہت بڑا سرکاری عہدہ ہے تو پھر ہسپتال کا تمام عملہ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سے لیکر ایک سویپر تک آپ کی جی حضوری میں لگ جاتے ہیں اور تو اور آپ کو ہسپتال آنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ لاہور میں سروسز ہسپتال کی ایم ایس ڈاکٹر ریحانہ موجود ہے جو آپ کے بچوں کے پیمپر تک آپ کو گھر پہنچا کر فخر محسوس کریگی یہی وجہ ہے کہ سابق دور کے خوش آمدی افسر ابھی تک اپنی سیٹوں پر عوام کی عزت نفس مجروع کرنے میں مصروف ہیں اسی طرح پولیس جو ایک بے گناہ ،غریب اور لاوارث سے تو سب کچھ قبول کروالیتی ہے جو اس نے نہیں بھی کیا جبکہ لاہور اور فیصل آباد میں بے گناہ اور معصوم افراد کو بم دھماکوں میں اڑانے والا بھارتی جاسوس پاکستانی پولیس اور وہ بھی بلخصوص پنجاب پولیس کی تفتیش سے بچ نکلاجسے بھارت نے قومی ہیرو کا درجہ دیکر آگ لگا دی مگر ہماری پولیس اس سے کچھ بھی اگلوانے میں ناکام رہی میں اپنے پڑھنے والوں کو بھارت میں دہشت گرد اور جاسوس سربجیت سنگھ کی لاش کو دیا جانے والاپروٹوکول کی جھلک بتاتا ہوں جس سے آپ خود اندازہ لگالیں کہ اسکی حیثیت کیا تھی سربجیت سنگھ پاکستان میں جاسوسی اور بم حملوں کے جرم میں سزایافتہ اور لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید بائیس سال سے سزائے موت کا منتظر تھاجمعہ 26 اپریل کو اسکے دو ساتھی قیدیوں نے اس پر حملہ کیا جس میں وہ شدید زخمی اسکے سر، جبڑے، پیٹ سمیت جسم کے کئی حصوں پر زخم آئے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب لاہور کے جناح ہسپتال میں سربجیت سنگھ دم توڑ گیا کوٹ لکھپت جیل لاہور میں زخمی ہونے کے بعد ہسپتال میں ہلاک ہونے والے بھارتی دہشت گرد سربجیت سنگھ کی آخری رسومات ان کے آبائی گاشں میں ادا کی گئی ان کی بہن دلبیر کور نے ان کی چتا کو آگ لگائی، بھارت میں رسماً خواتین کے بجائے یہ ذمہ داری مرد ادا کرتے ہیں، آخری رسومات کے لیے تمام طرح کے سرکاری اعزازات کا اہتمام کیا تھا اور ریاستی پولیس فورس نے انہیں بندوق سے سلامی دی اور مخصوص سرکاری موسیقی بجائی،حکمراں جماعت کانگریس پارٹی، اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی اور ریاست میں حکمراں جماعت اکالی دل کے سینیئر رہنماؤں کی سربجیت کی آخری رسومات میں شرکت کی بھارت کی حکمراں جماعت کانگریس پارٹی، اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی اور ریاست میں حکمراں جماعت اکالی دل کے سینیئر رہنما سربجیت کی آخری رسومات کے وقت وہاں موجود تھے۔ریاست پنجاب کی حکومت نے سربیجت سنگھ کو شہید کا درجہ دیا اور ان کی لاش کو قومی پر چم میں لپیٹ کر آخری رسومات کے لیے جا یا گیا۔ریاستی حکومت نے سرکاری سطح پر تین روز تک سوگ منانے کا بھی اعلان کیا ۔کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی اور ریاست کے ڈپٹی وزیر اعلیٰ سکھبیر سنگھ بادل سربجیت کی آخری رسومات میں خاص طور پر شرکت کی ۔حکومت نے ان کی آخری رسومات کے لیے تمام طرح کے سرکاری اعزازات کا اہتمام کیا تھا اور ریاستی پولیس فورس نے انہیں بندوق سے سلامی دی اور مخصوص سرکاری موسیقی بجائی۔مرکزی حکومت نے سربجیت سنگھ کے اہل خانہ کو پچیس لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا تھا لیکن ریاستی حکومت نے انہیں ایک کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔بھارت کے بھی کئی حلقوں نے اس بات پر سوالات اٹھائے ہیں کہ آخر سربجیت کیا تھے کہ ان کے لیے سرکاری اعزاز کا اہتمام کیا گیا اور حکومت نے ان کی آخری رسومات ایسے ادا کی جیسے ملک کے کسی بڑے ہیرو کی ادا کی جاتی ہے بعض حلقوں کے مطابق حکومت کی ان تمام کارروائیوں سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ سربجیت سنگھ ضرور حکومت کی کوئی نہ کوئی ذمہ داری نبھا ر ہاتھا ان سب کھلی حقیقتوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ہم مجموعی طور پر خود ہی اپنے آپ کو تباہی کی طرف لیکر جارہے ہیں ہمارے اندر احساس کا مادہ ختم ہو چکا ہے ہم ظلم تو سہتے ہیں مگر بغاوت نہیںکرتے جس کا خمازہ نہ صرف ہم خود بھگتیں گے بلکہ ہماری آنے والی نسلیں بھی اس ظلم کی چکی میں پسیں گی جیلوں میں ظلم کی اجارہ داری اور ٹھیکیداری نظام پر تفصیلات اگلے کالم میں آپ کی خدمت میں پیش کرونگا-

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 613964 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.