آپس کی بات

ہرسال یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور اس دن کی منابست سے کئی سیمینار وغیرہ بھی منعقد کئے جاتے ہیں۔ ساری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن نہایت ہی جوش وخروش سے منایا جاتاہے۔ یہ دن شگاگو کے مزدوروں کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ جنہوں نے اپنے حقوق کے حصول کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اور انہی کی یاد میں یہ دن منایا جاتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ شگاگو میں مزدوروں نے ظلم وناانصافی کے نظام کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے جدوجہد کا ارادہ کیا۔ اور اس وقت کے حکمرانوں سے اپنے حقوق کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔ جو کہ اس دور کے حکمرانوں کو نہایت ناگوار گزرا اور انہوں نے اس تحریک کو کچلنے کا فیصلہ کر لیا۔ جس کو روکنا مزدوروں کے لئے خود کشی کرنے کے مترادف تھا۔ چنانچہ جب تمام تر تدابیر ناکام ہوتی نظر آئیں اور مزدور اپنے مطالبات سے پیچھے نہ ہٹے تو اس وقت کے حکمرانوں نے اس تحریک کو زور بازو سے روکنے کا فیصلہ کیا۔ جبکہ دوسری طرف مزدور طبقہ بھی اپنے حقوق کے حصول کے لئے پر عزم تھا اور ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کو تیار تھا۔ چنانچہ حکومت نے ان مزدوروں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کرتے ہوئے یکم مئی کو شگاگو کے مزدوروں کا نہایت بے دردی سے قتل عام کرتے ہوئے تاریخ عالم میں ایک سیاہ باب رقم کیا۔ جو کہ رہتی دنیا تک کے لوگوں کے لئے تاریخ کائنات میں سیاہ الفاظ میں رقم ہوگیا۔ شگاگو کے مزدور تو مارے گئے مگر رہتی دنیا تک کے لوگوں کے لئے ایک تاریخ رقم ہوگئی۔ یکم مئی کو انہی مزدوروں اور ان کی جدوجہد کی یاد میں مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور دنیا بھر کے مزدوروں کےساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے۔ اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے لئے جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کو دہرایا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس اگر تاریخ اسلام کا مطالعہ کیا جائے تو اس کا منظر اس کے بالکل برعکس نظر آتا ہے۔ مسلمانوں کے دورِ حکومت میں مزدور کے حقوق کے تحفظ اور ان کی ادائیگی کو یقینی بنایا گیا جو کہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کے لئے بھی مشعل راہ بنا۔ مسلمانوں کے دورِ حکومت میں غریب اور مزدور کو اس کی دہلیز پر انصاف ملتا رہا اور اس کے حقوق کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی۔ اسلام میں مزدور کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ جس میں اللہ کے نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو“۔ یعنی مزدور کی مزدور اس کو احسن طریقے سے ادا کرو اور وقت پر ادا کرو۔ اس کے ساتھ کسی قسم کا غیر منصفانہ رویہ نہ رکھو۔ اسی طرح جب خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ عہد خلافت پر فائز ہوتے ہیں تو آپ کی تنخواہ کا معاملہ زیر بحث آتاہے۔ اس موقع پر خلیفہ اول فرماتے ہیں کہ میری تنخواہ مدینہ کے ایک مزدور کی اجرت کے برابر مقرر کی جائے اس موقع پر دوسرے اراکین مجلس عرض کرتے ہیں یا امیرالمومنین آپ مزدور کی تنخواہ سے کیسے گزر بسر کریں گے؟ تو خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اسی طرح گزارہ کرونگا جس طرح ایک مزدور اتنے پیسوں میں گزارہ کرتا ہے یہ اس دور روشن کی بات ہے۔ جس میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ بھی مسلم حکومت کرتی تھی اور اس کو یقینی بنا کر عوام کو ان کی دہلیز پر مہیا کرتی تھی اور یہی وجہ ہے کہ تاریخ عالم میں وہ ادوار سنہری حروف میں لکھے گئے۔ یہاں پر تاریخ کو دہرانے کا مقصد یہ تھا کہ آج کل ہر سو اسلام اور مغرب کا موازنہ کیا جاتا ہے اور اپنے اپنے موقف کو ثابت کرنے کےلئے دلائل پیش کئے جاتے ہیں۔ مگر انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کل کے مزدور کی حالت دیکھی جائے تو شاید وہ شگاگو کے مزدور سے بھی زیادہ مظلوم وعاجز ہے۔ آج کا مزدور سارا دن محنت مشقت کرنے کے بعد بمشکل اتنے پیسے کما پاتا ہے کہ جن سے وہ اپنے بچوں کو بمشکل دو وقت کا کھانا مہیا کرپاتا ہے اپنی محنت اور مشقت کے عوض پائی جانے والی تھوڑی سے اجرت سے وہ نہ تو اپنے بچوں کو پڑھا لکھا سکتا ہے اور نہ ہی ان کی دیگر بنیادی ضروریات زندگی پوری کرسکتا ہے اور تو اور بنیادی طبی سہولیات بھی avail نہیں کرسکتا۔ ایسے حالات میں جوباضمیر قوموں کے لیڈر ہوتے ہیں وہی اپنی رعایا کے بارے میں سوچتے ہیں اور ان کا معیار زندگی کو بلند کرنے کے لئے ہر حد تک جانے کو تیار ہوتا ہے ۔ مگر افسوس دور حاضر کے حکمرانوں کو اپنے اشوز کے علاوہ کسی کے اشوز سے کوئی سروکار نہیں۔ یہاں تو حکمرانوں کو اپنی تجوریاں بھرنے سے ہی فرست نہیں ملتی تو وہ عوام کا معیار زندگی کیا بہتر کریں گے۔ کاش ہماری قسمت میں بھی کوئی ایسا لیڈر ہو جو خالصتاً عوامی مسائل کے بارے میں سوچے اور ان کا حل نکالے۔ یہاں اس دن کی وساطت سے میں اپنے حکمرانوں کو ایک پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اگر حکومت سیکھنی ہے اور سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دورِ حکومت کامطالعہ کرو ۔ اگر حکومتی معاملات چلانے سیکھنے ہیں تو ابوبکر، عمر، عثمان وعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ادوار کا مطالعہ کرو تاکہ تمہیں پتہ چلے کہ حکومتیں کیسے چلتی ہیں۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شگاگو میں مزدوروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا تھا۔ مگر تاریخ خود کو دہراتے ہوئے ہمارے لیڈران کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔
Hafiz Muhammed Faisal Khalid
About the Author: Hafiz Muhammed Faisal Khalid Read More Articles by Hafiz Muhammed Faisal Khalid: 72 Articles with 62573 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.