سپریم کورٹ میں انکشاف ہوا کہ کراچی پولیس کے چار سو افسران سنگین
جرائم میںملوث ہیں ،حکومتی بے حسی کا عالم ہے کہ کراچی جل رہا ہے اور
وفاقی و صوبائی حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں۔ایم آئی ٹی رپورٹ کے مطابق
400افسران سنگین جرائم میں ملوث ہیں ، قابل ذکر بات یہ ہے کہ آئی جی
سندھ کو یہ رپورٹ سپریم کورٹ کی جانب سے فراہم کی گئی جس کا مطلب یہ ہے
کہ سندھ پولیس اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑ سے دانستہ ناواقف ہے۔یہ
افسران قتل ، ڈکیتی اور دیگر جرائم میں ملوث ہیں اور ان کی چالان بھی
عدالتوں میں پیش کئے جاچکے ہیں لیکن حیرت ناک بات یہ ہے کہ آئی جی سندھ
ان پولیس افسران کی تعیناتی سے لاعلمی کا اظہار کررہے ہیں۔ ایک اور
حیرت خیز انکشاف ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ وسیم احمد نے کیا تھاکہ
محکمہ داخلہ کے پاس 1985سے کی گئی جوڈیشنل انکوئریز کا ریکارڈ موجود
نہیں صرف پندرہ دن کا ریکارڈز مل سکا ہے۔کراچی جل رہا ہے اور اُس کے
محافظین سوائے مراعات میں اضافے کے کوئی کارکردگی دکھانے کےلئے سنجیدہ
نظر نہیں آتے ۔رینجرز اور پولیس کی کارکردگی صفر اور ان کے بجٹ میں
اضافہ سو فیصد ہے۔بجٹ سال 2008-09میں پولیس کا بجٹ 20ارب روپے تھا جو
کہ سال 2002-13میں بڑھ بڑھ کر 39ارب روپے سے زائد ہوچکا ہے۔رینجرز کو
سال 2008-09میں 51کروڑ کے فنڈ ملے جوکہ سال 2012-13میں بڑھ کر ایک
ارب29کروڑ ہوگئے ۔ اس کے علاوہ پولیس کےلئے 2009-10میں 26ارب روپے
،2010-11میں 31ارب روپے ،2011-12 میں 38ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا
جبکہ رینجرز کے لئے 2009-10میں 97کروڑ روپے ، 2010-11 میں ایک ارب
19کروڑ روپے ، 2011-12میں ایک ارب تیرہ کروڑ روپے رکھے گئے۔
حساس اداروں کی جانب سے رپورٹ کے مطابق سندھ پولیس میں جرائم پیشہ
عناصر موجود ہیں جس پر سی پی ایل سی نے 02اکتوبر 2019کو لیٹر نمبر
CCPO/Discp (PC) 87968-72میں دو ہزار کانسٹیبلز کے ریکارڈ میں سے چھ سو
مشکوک افراد کے ریکارڈکو اپنی رپورٹ کے ساتھ آئی جی سندھ کو بھیج دیا
جن کی ہدایت پر ڈی آئی جی ساﺅتھ غلام نبی میمن کو ان جرائم پیشہ
کانسٹیبلز کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا گیا لیکن اُس تحقیقات کا کیا کیا
نتیجہ نکلا اس سے آج تک عوام بے خبر ہیں ۔ حالاں کہ اس وقت اسلام آباد
میں لرزاں طاری ہوگیا تھا کہ خطرناک جرائم میں ملوث افراد شہداد پور ،
اور کراچی میں ٹریننگ حاصل کر رہے ہیں ۔ سی پی ایل سی کے اُس وقت کے
چیف شرف الدین میمن نے رپورٹ کی تصدیق کی تھی۔ تاہم اس حوالے سے اس
موقف کو بھی دوہرایا تھا کہ ممکن ہے کہ اس فہرست میں کچھ ایسے افراد
بھی شامل ہوگئے ہوں جو نام و ولدیت کی مماثلت کی وجہ سے بے گناہ ہوں
تاہم اس سلسلے میں حتمی بات تحقیقات کے بعد ہی کہی جا سکتی ہے ۔ لیکن
سندھ حکومت نے ابھی تک اس اہم معاملے کو زیر التوا رکھا ہوا ہے۔
ایڈیشنل آئی جی کراچی اقبال محمود ، گارڈن پولیس ہیڈ کواٹر میں دربار
سے دوران خطاب انکشاف کیا کہ نارتھ ناظم آباد کے ایس پی لطیف صدیقی نے
ٹرینگ کے بعد سے اب تک اسلحے کو ہاتھ نہیں لگایا اور اگر کبھی جرائم
پیشہ افراد سے سامنا ہو جائے تو وہ ملزمان سے مقابلہ کرنے کے بجائے
انھیں پتھر مار کر بھگائیں گے۔ اس موقع پر ڈی آئی جی سی آئی ڈی منظور
مغل ، ضلع کے ڈی آئی جیز کے علاوہ ڈی آئی جی ایڈمن عمران یعقب منہاس
بھی موجود تھے۔یڈیشنل آئی جی کراچی اقبال محمود کا کہنا تھا کہ اگر
پولیس اہلکار زخمی ہوجائے تو ٹاﺅن کے ایس پیز اس لئے جانے سے کتراتے
ہیں کہ کہیں انھیں عیادت کے دوران پیسے نہ دینے پڑ جائیں ۔ کرائم سین
پر دیر سے پہنچ کرافسران کے منہ تکتے ہیں اور جائے وقوع دیر سے پہنچنے
کی عادت کی وجہ سے شواہد ہی مٹ جاتے ہیں اورتفتیشی عمل میں کوئی پیش
رفت نہیں ہوتی۔ایس او ایچ سیاسی شخصیات اور بیوروکریسی سے سفارشی فون
کراتے ہیں ۔ افسران وردی کے بجائے کاٹن کے کپڑوں میں علاقوں میں گھومتے
ہیں اور جرائم کی بیخ کنی کے بجائے انھیں منشیات اور جرائم کے اڈے
چلانے سے فرصت نہیں۔ جواری سر عام پولیس کو زد و کوب کرتے ہیں اور ایس
ایچ اوز کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ جواری کو پکڑ کر بند کریں ۔ ایڈیشنل
آئی جی کراچی اقبال محمود کے یہ انکشافات لمحہ فکریہ ہیں بقول خود ان
کے ایسا نہ ہو جرائم پیشہ عناصر تھانوں میں گھس کر پولیس کو ماریں اور
شہر میں پولیس کی رٹ ختم ہوجائے۔ پولیس کی یہ کارکردگی خود ان کے اعلی
ترین افسر کے جانب سے کی گئی ہے ۔ لیکن پولیس کا یہ نظام کوئی آج کا
بگاڑ کا نتیجہ نہیںہے ۔کراچی جلے گا نہیں تو کیوں نہیں جلے گا ۔
کراچی میں پچھلی بار چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی
بینچ کے ساتھ کراچی بد امنی کیس کی سماعت ہوئی تودوران سماعت ایڈوکیٹ
جنرل سندھ کیجانب سے پیش کردہ رپورٹ پر سپریم کورٹ نے مکمل عدم اطمینان
کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی سندھ کو سرزنش کی کہ بغیر اسکوڈ کے چار دن
کراچی میں گھوم کر دکھائیں، اگر ڈر لگتا ہے تو عہدہ چھوڑ دیں۔ایڈوکیٹ
جنرل نے بتایاتھا کہ 80پولیس اہلکاروں کے ساتھ1900افراد اس سال قتل کئے
جاچکے ہیں۔عدالت نے سیکورٹی اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ
کیا ایجنسیاں صرف محفلیں سجانے کا کام کرتی ہیں۔بلاول ہاﺅس کی سیکورٹی
کےلئے پچاس فٹ بلند حفاظتی دیوار اور پورے علاقے کو نو گو ایریا بنانے
پر بھی سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہار کیا تھاکہ صدر زرداری بلاول ہاﺅس
جانے والی سڑک خرید کیوں نہیں لیتے۔عدلیہ کیجانب سے انتظامیہ کی
کارکردگی پر برہمی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب
ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ پولیس اہلکار بھی شہید ہوئے ہیں تو عدالت
نے ریمارکس دئےے کہ زیادہ تر پولیس اہلکار ذاتی دشمنی میں ہلاک ہوئے
اور کوئی بڑا افسر شہید نہیں ہوا صرف غریب اہلکار ہی ہلاک ہوا۔
کراچی کا سب سے بڑا ہولناک انکشاف کراچی سیکورٹی کے حوالے سے ایک
سرکاری رپورٹ میں کیا گیا کہ دہشت گردی کا عفرےت کراچی پر پوری طرح
چھایا ہوا ہے اور کراچی کے بعض علاقے"وزیرستان"بن گئے ہیں، جبکہ ایک
غیر ملکی رپورٹ جو حکومت پاکستان کے پاس ریکارڈ میں یہ ہوش ربا انکشاف
کیا گیا کہ "پاکستانوں"کے پاس دو کروڑ مہلک ترین ہتھیار ہیں اور جدید
ترین ہتھیار رکھنے والے 178ملکوں کی فہرست میں پاکستان کا ساتواں نمبر
ہے۔اوسطا 20بےگناہ شہری ہلاک ہوتے ہیں۔وزرات داخلہ کی رپورٹ کے مطابق
کراچی میں بھتہ خور، اسلحہ مافیا ،قبضہ گروپ ، لسانی ، مذہبی ، گروہی
اور فرقہ وارےت میں ملوث گروپوں سمےت49کالعدم شدت پسند تنظیمیں بے
گناہوں کا خون بہا رہی ہیںاور شہریوں کا کوئی غمگسار اور پُرسان حال
نہیں۔
ادارے،سیاسی جماعتیں اور ارباب اختیار سب جانتے ہیں ، سمجھتے ہیں، لیکن
کراچی کے حالات پر کسی نے بھی سنجیدگی اختیار نہیں کی ۔ پولیس رینجرز
سے لیکر حکومتی ایوانوں تک صرف کراچی پر پوائنٹ اسکورنگ کی جاتی ہے ،
کراچی آج دہشت گردی کی آگ میں جل رہا لیکن اس آگ کو بجھانے والا کوئی
نہیں ہے۔ آگ میں تیل ڈال کر ہوا دینے والے ، زخموں پرمرہم رکھنے والے
کم اور کفن پہنانے والے بہت ہیں۔گولیاں چلانے والوں کو روکنے والے کم
اور اسلحہ لائسنس جاری کرنےوالے بہت ہیں۔کراچی کا غم بانٹنے والے کم ،
کراچی پر دکھاوا کرنے والے بہت ہیں۔آج کراچی جل رہا ہے اور اس کا کوئی
غمگسار نہیں ہے۔یاد رکھو ، کراچی سے مت کھیلو ، سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے
گا ۔۔۔اس آگ سے ایک کا نہیں سب کا گھر جلے گا۔صرف راکھ ہی مقدر بنے گی
۔ آج کراچی دہشت گردوں کا جو راج ہے اس کی تصویر اب دھل کر سامنے آچکی
ہے ۔ سب مان چکے ہیں کہ وطن فروشوں نے روپوں کے خاطر اپنا ضمیر فروخت
کیا ، ہر قومیت میں ایک غدار ہے جو اپنے ہی قوم کے فرد کو تباہ کر رہا
ہے ، کراچی میں دفنانے کےلئے قبرستان کم پڑ چکے ہیں اور انسانیت کی
چتاﺅں کو آگ لگانے کےلئے شمشان گھاٹ میں امید کی لکڑیاں بھی ختم ہوچکی
ہیں۔ |