’’سربجیت سنگھ‘‘ جسے منجیت سنگھ بھی کہا جاتا ہے 1963ء میں
بھارتی پنجاب میں پیدا ہوا ۔
28اپریل 1990ء لاہور سے فیروز پور روڈ پر ضلع ’’قصور‘‘ کے قریب واقع
’’کھلرا ‘‘ ہند وپاک سرحد سے پاکستانی رینجرز نے اسے گرفتارکیا۔اس
گرفتاری کے بابت دو آراء پائی جاتی ہیں ۔۔۔کہاجاتا ہے کہ پہلے پہل
’’سربجیت سنگھ ‘‘ کو غیر قانونی سرحد عبور کرنے کے جرم میں گرفتار کیا
گیا تھا اور گرفتاری کے آٹھ روز بعد یہ خبر سامنے آئی کہ اس پر دہشت
گردی کے الزام ہیں جبکہ یہ بھی کہا اور سنا گیا وہ1990میں لاہور
اورفیصل آباد میں ہونیوالے بم حملوں میں مطلوب تھا اور پاکستانی خفیہ
اداروں کو اسکے بھارت سے واپسی کا انتظار تھا اور اسنے جونہی سرحد عبور
کی گرفتار کر لیا گیا۔
’’سربجیت سنگھ ‘‘ اور اسکے دوستوں کے مطابق وہ ایک غریب کسان تھا اوروہ
اس رات شراب کے نشے میں سرحد عبور کر گیا بس اسی ایک خطا نے اسکی زندگی
بدل کے رکھ دی۔جبکہ اسکے خاندان کا کہنا ہے کہ آٹھ نو ماہ تک اسے
ڈھونڈتے رہے مگر اسکا کچھ پتہ نہ چلا بالآخر تقریباً ایک سال بعد گھر
والوں کو اسکا ایک خط ملا جسمیں لکھا تھا کہ وہ پاکستانی حکام کی طویل
میں ہے اور اسے لاہور اور فیصل آباد بم دھماکوں کے جرم میں سزائے موت
سنائی گئی ہے اس خبر نے ’’سربجیت سنگھ ‘‘ کے خاندان کو ہلا کہ رکھ دیا
۔
مقدمہ چلا اور’’ سربجیت سنگھ‘‘ کو لاہور ہائی کورٹ نے پھانسی کی سزا
سنائی اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس سزاکیخلاف ہونیوالی اپیل خارج
کرتے ہوئے سزا ئے موت بحال رکھی۔اس دوران متعدد مرتبہ یہ خبریں بھی
منظر عام پر آئیں کہ وکلا اس مقدمہ میں دلچسپی نہیں لے رہے اور
بھارتیوں نے ہر پلیٹ فارم پر احتجاج بھی کیا اور ’’سربجیت سنگھ‘‘ کی
رہائی کیلئے کئی تحریکیں بھی چلائی گئیں لیکن کوئی کامیابی نہ ہوئی۔چند
برس پہلے اسی کوت لکھپت جیل’’ لاہور‘‘ سے سرجیت سنگھ نامی ایک بھارتی
قیدی کو رہائی ملی جس نے بھارت پہنچنے پر کہا ’’ لاہور‘‘ جیل میں موجود
سربجیت سنگھ ،کرپال سنگھ مذہب’’ اسلام ‘‘میں داخل ہوکر اپنے نام تبدل
کرچکے ہیں ۔اسکے بعد ’’سربجیت سنگھ‘‘ معاملہ کہیں گم سا ہو گیا
تھا۔۔۔اسکے کچھ عرصہ بعد بی بی سی اردو کو ایک خط موصول ہوا جسمیں ایک
قیدی کا سربجیت سے ملاقات کا احوال بیان کیا گیا تھا۔
اس خط میں (افتخار علی ) نامی ایک قیدی جو 15فروری 2009کو سنٹرل جیل
میانوالی سے ٹرانسفر ہو کر کو ٹ لکھپت جیل ’’لاہور‘‘ آیا لکھتا ہیکہ !
قیدی ملاحظہ کیبعد جیل سپرنٹنڈنٹ نے میری مشقت لنگر اسیران میں کر دی
اور 20فروری کی صبح میں چائے ناشتہ لیکربلاک 7میں ’’ سربجیت سنگھ‘‘ کی
چکی میں پہنچ گیا جہاں وہ اکیلا تھا میں نے اس سے پوچھا کہ ’’سربجیت
سنگھ ‘‘ آپ ہیں ؟اس نے جواباً کہا کہ آئندہ ایسا مت کہنا ۔۔۔میں مسلمان
ہو چکا ہوں اور میرا نام ’’محمد سرفراز ‘‘ ہے میں نے طنز یہ کہا کہ اس
سے پہلے کشمیر سنگھ بھی مسلمان ہوا تھا اور اسکا نام ابراھیم تھا جو
میرے ساتھ میانوالی جیل میں سیکیورٹی وارڈ 3میں چوبیس گھنٹے قرآن پڑھتا
رہتا تھا مگر سرحد عبور کرتے ہی محمد ابراھیم سے کشمیر سنگھ بن گیا جس
پر ’’محمد سرفراز ‘‘ نے قدرے سخت لہجے میں کہا ! کہ ناں وہ کشمیر سنگھ
ہے اور ناں ہی سب لوگ ایک جیسے ہوتے ہیں ۔۔۔میں نے اس سے پوچھا کہ آپ
نے پاکستان میں بم دھماکے کر کے درجنوں لوگوں کی جانیں لیں آپکی تمام
اپیلیں خارج ہو گئیں مگر آپکو پھانسی نہیں لگی اسکی کیا وجہ ہے ؟تو ’’سرفراز‘‘
نے برملہ کہا کہ میں نے کوئی بلاسٹ نہیں کیا میں بے گناہ ہوں اور اب تو
ہند و پاک تعلقات بہتر ہو رہے ہیں اور دونوں حکومتوں کے درمیاں میری
رہائی کی بات چل رہی ہے اور حکومت بھی مجھے رہا کرنا چاہتی ہے بس عوامی
دباؤ کی وجہ سے رہا نہیں کیا جا رہا ۔۔۔
’’افتخارعلی ‘‘ تم دیکھنا کہ میں بہت جلد رہا ہو کر وطن لوٹ جاؤں گا ۔
بھارت نے’’ انڈین پارلیمنٹ ‘‘ حملہ کیس میں مبینہ نامزد ملزم ’’افضل
گورو ‘‘ جسکے واقع میں ملوث ہونے کے قطعی کوئی ثبوت نہیں ملے تھے
9فروری2013ء کو اللصبح تہاڑ جیل میں تختہ دار پر لٹکا دیا ۔۔۔بتایا
جاتا ہے کہ اس پھانسی کی کاروائی کے بعد ملزم کے خاندان کو مطلع کیا
گیا تھا حالانکہ بھارت سمیت پوری دنیا میں یہ قانون ہیکہ سزائے موت
پانیوالوں کے خاندانوں کو ان سے ملاقات کا وقت دیا جاتا ہے اور انکی
آخری خواہش کا بھی احترام کیا جاتا ہے جبکہ بھارت نے ان تمام انسانی
واخلاقی اور قانونی اقدار کو بالائے طاق رکھتے ’’افضل گورو‘‘ کو پھانسی
دی اور اسے جیل کے احاتے میں دفن کر دیا اس اندوناک سانحے کیبعد پورا
کشمیر سراپا احتجاج بن گیا۔۔۔ اسکے ساتھ ہی ایسی خبروں کی باز گشت بھی
سنائی دی کہ بھارتی حکومت نے یہ اقدام متوقع عام انتخابات میں اپنی
کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے کیااور ساتھ ہی یہ خبرین بھی عام ہوئیں
کہ اب ’’سربجیت سنگھ ‘‘ کی زندگی کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔جبکہ پاکستان
میں اس سے قبل ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بلا وجہ حوالگی اور ’’ریمنڈ ڈیوس
‘‘جیسے قاتل کی ڈرامائی رہائی جیسے واقعات نے عوام کے دلوں سے ریاستی
عدل و انصاف کی تمام امیدوں کو خس وخاشاک کر دیا اور معاشرے میں صبر و
برداشت مفقود ہونے لگا ہے اور ان حالات میں ’’سربجیت سنگھ ‘‘ کی حوالگی
کی خبروں کی باز گشت نے عوام میں اور بالاخصوص انتہا پسند حلقوں میں
تشویش پیدا کر دی یہی وہ عوام ہیں جنہوں نے ’’ سربجیت سنگھ یا محمد
سرفراز ‘‘ کی زندگی کا چراغ گل کر تے یہ بھی پرواہ نہ کی کے وہ
’’سربجیت ہے یا سرفراز‘‘۔۔۔۔
26اپریل2013شام 4.30کا وقت تھاکوٹ لکھپت جیل لاہور میں ’’سربجیت سنگھ‘‘
پر بارک،مرٹل شیٹ،آئرن راڈ اور بلیڈز سے خطرناک حملہ ہوا۔۔۔ حملہ آوروں
کی تعداد دو سے چھ بتائی جاتی ہے نتیجتاً ’’سربجیت سنگھ ‘‘ کو شدید
زخمی حالت میں جناح ہسپتال منتقل کیا گیا تب تک وہ قوما میں جا چکا تھا
اسکے جسم اور سر پر گہری چوٹیں آئیں اور ریڑھ کی ہڈی میں فکچر ہوچکا
تھا اور وہ ونٹیلیٹر پر تھا ۔اس خبر کے ملتے ہی ہنگامی طور پر ’’سربجیت
سنگھ‘‘ کے خاندان کو ان سے ملاقات کروائی گئی ۔اسکی حالت مسلسل بگڑ رہی
تھی اور بالآخر 2مئی2013ء رات 12.45پر ’’سربجیت سنگھ‘‘ زخموں کی تاب نہ
لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔
اس خبر کے آتے ہی انڈین اور پاکستانی میڈیا پر ہلچل مچ گئی ۔بالاخصوص
پاکستانی الیکٹرنک پریس اینڈ سوشل میڈیا کو دو حصوں میں تقسیم دیکھا
گیا کچھ اس واقع کو غیر انسانی اور غیر زمہ دارانہ عمل کہتے ہیں اور
کچھ اسے حق بجانب مانتے ہیں ایسے لوگ جذبادیت کی حدود کو عبور کرتے
گالم گلوچ سے بھی دریغ نہیں کرتے اور کئی ایسے واقعات کی دلیل دیتے رہے
ہیں جو بھارت میں ریاست کی نگرانی میں ہوتے رہے ۔لیکن اس نوح کے کیسے
ہی واقعات کبھی کسی اور کو یہ اختیار نہیں دیتے کہ وہ انسانیت کو بھول
جائے اور ہر طرح کے مکمل ریاستی عدالتی نظام کی موجودگی میں بذات خود
لوگوں کو سزا دینے لگیں۔
ہم لوگ مسلمان ہیں اور پیارے نبی ؐکے پیروکاروامتی جنکا آخری خطبہ رہتی
دنیا تک تمام عالم کیلئے فلاح کا ضامن ہے جسمیں آپؐ نے اپنے حقیقی چچا
کا خون معاف کرتے ہوئے یہ واضع کیا کہ قتل کا بدلہ قتل انسانیت کیلئے
سود مند نہیں اور یوں بھی آپ ؐ کی حیات مبارکہ میں لڑی جانیوالی جنگوں
کے دوران بنائے جانیوالے غیر ملکی و غیر مذہبی کسی بھی قیدی جنہوں نے
آپ ؐ اور آپکے رفقاء کو دکھ و تکالیف پہنچائیں ہوں کو کبھی خراش تک نہ
پہنچی بلکہ آپ ؐ کے حسن اخلاق سے متاثر ہو کر ہزارہا لوگ مسلمان ہوئے
۔۔۔۔پوری دنیا کسی نہ کسی قائدے قانون کے تحت چلتی ہے آج چنگیز اور
ہلاکو خان کا زمانہ نہیں کہ جس کو موقع ملے وہ انسانوں کو قتل کر کے
اپنی طاقت منوانے کی کوشش کرے اور پھر اس سے بڑھ کر یہکہ ایک شخص جو
مجرم تھا تو وہ ریاستی جیل میں تئیس برس سے عدالت کا سامنا کررہا تھا
اور ریاست کی نگرانی اور زمہ داری میں تھا اور آج اگر وہ اس جیل کے
اندر تمام تر ریاستی مشینری کی موجودگی میں ہلاک کر دیا گیا ہے تو اپنے
پیچھے سینکڑوں’’ سوال‘‘ چھوڑ گیا ہے جسکا جواب بہر حال اسی ریاست اسی
قوم کو دینا ہے یہ قطعی جائز نہیں کہ بھارت نے کشمیری ’’افضل گورو‘‘ کو
غیر قانونی و غیر اخلاقی طور پر شہید کیا اور بھی متعدد قیدیوں کو وہ
ظلم و بربریت کا شکار بناتا رہا مگر،،،،،’’سربجیت سنگھ ‘‘ جو سربجیت
تھا یا ’’محمد سرفراز ‘‘ بہر حال یہ بھی ایک سوال ہے جو ہمیشہ رہیگا
اور یہ بھی کہ کیا اس طرح بھارتی قیدیوں کو احاطہ جیل میں قتل کر کہ
بھارتی رویے و معاشرے کو بدلا جا سکتاہے ناں اس عمل کو روکا جا سکتاہے
۔۔۔البتہ ہزاروں’’ کشمیری‘‘ اور سینکڑوں پاکستانی قیدی جو بھارتی جیلوں
میں قید ہیں انکی زندگیوں کو لاحق خطرات میں اضافہ ضرور کیا جا سکتا ہے
اور اگر ہند و پاک معاشرے انہیں راستوں پہ چل نکلے اور ایکدوسرے کے
قیدیوں کو ماورائے عدالت اسی طرح درندگی سے قتل کرنے لگے تو یہ خطہ
صدیوں پرانے دور جہالیت کی مثال بن کہ رہ جائے گا اور اس سے کسی کا
بھلا نہیں ہونیوالا۔اور ہزاروں حسرت زدہ آنکھیں جو اپنے پیاروں کے
انتظار میں پتھرا گئی ہیں ہزاروں دل جو ان اپنوں سے ملنے کا خواب لئے
دھڑک رہے ہیں جو ان دو ممالک کی جیلوں میں بند ہیں انکے خواب خاکستر ہو
جائیں گے اسلئے جذبات اپنی جگہ درست مگر ،،،،،،،یہ بات زہن نشین رہے کہ
ایسے واقعات تبھی روہنما ہوتے ہیں جب عوام کے اپنی حکومتوں اور اداروں
کی کارکردگی پر اعتماد باقی نہیں رہتا۔ |