پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں
انسانی حقوق کی حالت زار درگوں ہے۔ماہنامہ ” جہد حق“ میں شائع ہونے
والی رپورٹس اور دیگر حقائق اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ حالات دن
بدن ا بتری کی طرف جارہے ہیں اور بہتری کی جانے والے تمام راستے رفتہ
رفتہ بند ہوتے جارہے ہیں۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (HRCP)نے زرعی اصلاحات ، زمین سے
مساوی استفادہ اٹھانے کی پالیسی کے فروغ، بے زمین کاشتکاروں کی مشکلات
کا ازالہ کرنے ، فوج کو ٹھیکے پر دی جانے والی آراضی پر طویل عرصے سے
آباد کاشتکاروں کے حقوق تسلیم کرنے، کھیت مزدوروں کو مناسب معاوضہ ادا
کرنے، جبری مشقت کے خاتمے کیلئے موثر اقدام اٹھانے، زرعی شعبہ میں کام
کرنے والی خواتین کے حقوق کو تحفظ دینے اور امداد کی تقسیم زرعی
پیداوار کی مارکیٹنگ کے سلسلے میں ایک کسان دوست پالیسی اختیار کرنے کا
پرزور مطالبہ کیا ہے۔اس طرح کا مطالبہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے جو
ریاست کی ذمہ داری کے زمرے میں آتا ہے۔
کراچی اور لاہور کی دو فیکٹریوں میں تباہ کن آگ کے باعث ہونے والی کم و
بیش 250 اموات پر محض کمیٹیوں کا قیام اورذمہ دار عناصر کا سرسری جائزہ
خاصا تشویشناک ہے۔جہاں 250خاندان تباہ ہوئے ہیں وہاں ان گھروں میں ابھی
تک صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔لیکن ستم یہ ہے کہ کوئی ایک بھی مجرم نہیں
پکڑا گیاجو اس واقعہ کاذمہ دارٹھہرایا گیا ہو۔مستقبل میں خدا نخواستہ
اس قسم کے واقعات سے نمٹنے کیلئے اب بھی کسی قسم کی منصوبہ بند ی نہیں
کی جارہی کیونکہ ادارے اپنا تشخص کھو چکے ہیں اور اداروں سے وابستہ لوگ
اپنی ذات سے بڑھ کر سوچنے اور کچھ کرنے سے عاری ہیں۔ جو آٹے میں نمک کے
برابر ہیں ان کا وجودہر گزرتے دن کے ساتھ معدوم ہوتا جارہا ہے۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق عدم رواداری اور تشدد کے حالیہ واقعات
پر تشویش کا اظہار کرتا آیا ہے ایک مہذب اور تکثیری معاشرے میں مذہبی
فرقہ واریت کی بنیاد پر قتل وغارت جیسے واقعات کی کوئی جگہ نہیں۔ماضی
کی پالیسیوں اورسنگ دل قاتلوں اور فسادی عناصر کو ملنے والی سرپرستی نے
ہمیں اس دلدل میں پھینک دیا ہے اور ہم اگر اس نقصان کی تلافی کرنا
چاہتے ہیں تو اس مقصد کی تکمیل کیلئے ذہنی تذبذب کو دور کرنا پڑے گا۔
ایچ آر سی پی(HRCP )نے جبری گمشدگیوں پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔”
جہد حق“ میں اسی حوالے سے آئی اے رحمن لکھتے ہیں ۔
”یہ ثابت ہو چکاہے کہ جبری گمشدگیوں کے متاثرہ افراد کو ریاستی
ایجنسیوں نے اٹھایا تھا اورانھیں ریاستی ایجنسیوں نے اس الزام کے تحت
اٹھایا تھا کہ وہ دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث تھے یا انہیں پکڑنے
کیلئے کوئی بہانہ ہی نہیں تراشا گیا تھا۔یہ کہ اکثر وبیشتر یہ
گرفتاریاں ایسے اہلکار عمل میں لاتے ہیں جن کے پاس ایسا کرنے کا کوئی
اختیار نہیں ہوتااور متاثرہ افراد کو غیر قانونی طور پر ایسی جگہوں میں
رکھا جاتا ہے جو اس مقصد کیلئے نہیں بنائی گئی تھیں بلکہ ذاتی گھر یا
دکانیں تھیں۔انہیں شدید جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔“
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے 30اگست کو جبری گمشدہ افراد کے
ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ان میں چنیوٹ، کوہاٹ، بدین، چمن، خیر پور،
عمر کوٹ ،مردان، آزادکشمیر، جعفر آباد، ژوپ، حیدر آباد ،ہرنائی، شہداد
کوٹ ،میانوالی، قلعہ عبد اللہ،پونچھ ،قلات اور ٹھٹھہ شامل ہیں۔
پاکستان میں وحشیانہ تشدد اور درندگی کے موضوع پر آئی اے رحمن لکھتے
ہیں ۔
”ریاست کی ایک ایسی حکمت عملی وضع کرنے میں ناکامی جو ان برادریوں کو
تحفظ فراہم کرسکے جو اپنے عقائد کی بنیادپر کمزورہیں۔اس سے نہ صرف یہ
کہ ان کے خلاف حملوں میں اضافہ ہوا ہے بلکہ تشدد کی نئی اور ظالمانہ
شکلو ں نے جنم لیا ہے۔زیادہ تر واقعات میں ملزمان کو پکڑنے اور انہیں
سزا دینے میں حکومت کی نااہلی ، عقائد سے وابستہ تشدد کی بڑی وجہ ہے
اور یہ بات قابل فہم بھی ہے کہ ناکامی کی وجوہات کی تحقیقات کرنے کی
ضرورت ہے۔ناکامیوں کی وجہ کو تحقیقات کا مرکز بنانے نے ابھی پوری توجہ
حاصل نہیں کی۔زیادہ تر واقعات میں مجرموں کو پکڑنے اور انہیں سزا دلانے
میں حکومت کی ناکامی اگر تمام کیسز میں نہیں تشویش کا ایک بڑا باعث بنے
رجحان عقائد سے وابستہ تشدد میں بڑھا ہے۔“
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی حالیہ اور سابقہ رپورٹس میں یہ بات
عیاں ہوتی ہے کہ ہمار امعاشرہ تنزلی کی راہ پر گامزن ہے۔ریاست اپنی ذمہ
داریوں سے کنارہ کش ہوکر اپنی بقاءکی جنگ کیلئے صف آراءہورہی ہے۔فرد
اکائیوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ایک وسیع و عریض اور قدرت کی تمام تر
رعنائیوں سے معمور مملکت میں انسان خود اپنے جیسے انسانوں کی تباہی
کیلئے منصوبہ بندی میں مشغول ہے نجانے یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا۔
نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے |