محبت، شفقت، شرافت، ایثار، عنائت، سخاوت، مروت، الفت، ہمدردی، دردمندی، احساس، خلوص، رواداری،
حلم، پیار، چھاﺅں، سایہ، چھت، سچائی اور خوشگوارٹھنڈک کے مجموعہ کو ماں کہتے
ہیں۔ ماں ایک ایسی ہستی ہے۔ جس کا وجود کائنات کی موجودگی میں ضروری ہے۔
ماں تو ماں ہی ہوتی ہے چاہے وہ کسی انسان کی ہو یا کسی حیوان کی۔ ہم کہتے
اور سنتے تو ہیں کہ ماں کی مامتا ہے۔ یہ ماں کی مامتا کیا ہوتی ہے یہ کسی
ماں سے ہی پوچھیں۔ سرکاردوجہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک پرندہ سروں پر بے چینی سے
چکر کاٹنے لگا ۔ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے
بچے کس نے اٹھا لیے ہیں۔ یہ بچوں کی جدائی میںچکر لگا رہا ہے۔ جاﺅ اس کے
گھونسلے میں اس کے بچے رکھ کر آﺅ۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے وہ بچے اس کے
گھونسلے میں رکھ دیے تو اس پرندے کو بھی سکون آگیا۔ ہم جب بچپن کی منزل میں
ہوا کرتے تھے۔ ہمارے گھر کی چھت پر چڑیوں نے گھونسلے بنائے ہوئے ہوتے تھے۔
ایک موسم میں ہم ان کے گھونسلے چھت سے اتارنے لگتے تو ہمیں ہماری والدہ روک
دیتیں کہ ابھی ان کے گھونسلوں کو کچھ نہ کہو ایسے ہی رہنے دو کہ اس موسم
میں ان کے بچے نکل آتے ہیں۔ گھونسلے ختم ہو گئے تو ان کے بچے کہاں جائیں گے۔
ان کی مائیں ان کو کہاں رکھیں گی۔ بچوں کو بھی تکلیف ہوگی اور ان کی ماﺅں
کو بھی۔ اس لیے ابھی گھونسلے ادھر ہی بنے رہیں۔ جب تک ان کے بچے اڑنے کے
قابل نہیں ہوجاتے اس وقت تک تم نے گھونسلوں کو کچھ نہیں کہنا۔ ابھی ایک سال
پہلے کی بعد میرے پاس مسجد میں دوسرے محلہ سے ایک بیس سالہ نوجوان آیا
اوراس نے پوچھا کہ تم نے یہاں اردگرد بلی کے بچے دیکھے ہیں۔ ہم نے اس سے
پوچھا کہ کیا ان بلی کے بچوں کو بھر میں پالنا ہے۔ اس نے کہا نہیں ۔ اس نے
کہا کہ ہمیں کسی نے بتایا ہے کہ وہ اسی جگہ پھر رہے تھے۔ ہم نے اس سے پھر
پوچھا کہ جب تم نے ان کو پالنا نہیں ہے تو پھر کس لیے ڈھونڈ رہے ہو تو اس
نے جواب دیا کہ بات یہ ہے کہ ہمارے گھر میں ایک بلی تھی۔ اس نے بچے جننے
تھے ۔ اس کو کوئی جگہ نہیں مل رہی تھی۔ وہ ایک کمرہ میں چلی گئی۔ اور اس نے
وہاں بچے دے دیے۔ بچے جب تھوڑا چلنے کے قابل ہوئے تو ہم نے ان کو ادھر آکر
چھوڑدیا۔ اس نے اب ایک ماہ ہورہا ہے کہ اس بلی کو چین نہیں ہے ۔ وہ اپنے
بچوں کی تلاش میں ایسے پھر رہی ہے کہ نہ پوچھو۔ جس دن سے ہم نے اس کے بچے
ادھر چھوڑے ہیں۔ اس بلی کا سکون برباد ہوگیا ہے۔ کبھی وہ ادھر بھاگتی ہے
اور کبھی ادھر بھاگتی ہے۔ کبھی کمرے اندر جاتی ہے اور کبھی باہر آجاتی ہے۔
اور اسی دن سے وہ دھاڑیں مار مار کر رورہی ہے۔ اس کی وجہ سے ہمارے سارے گھر
والوں کاسکون بھی برباد ہوکر رہ گیا ہے ۔ وہ نہ خود سوتی ہے نہ گھر والوں
کو سونے دیتی ہے۔ اس کی درد ناک چیخیں سن کر ہمیں بھی رونا آجاتا ہے ۔ گھر
والوں نے کہا ہے کہ جب تک اس کے بچے اس کو نہیںملیں گے اس وقت تک اس کو
آرام نہیں آئے گا ۔ اس لیے ہم اس کے بچے ڈھونڈرہے ہیں کہ اس کو بھی سکون
آجائے اور ہمیںبھی۔ ماں کی مامتا تو اس بلی میں بھی پائی جاتی ہے۔ اس سے
بھی اپنے بچوں کی جدائی برداشت نہیں ہورہی تھی۔ بچہ جب بیمار ہوتا ہے تو
والدین کا چین غائب ہو جایا کرتا ہے۔ باپ تو ادھر ادھر ہو کر آجاتا ہے۔ماں
اپنے بیمار بیٹے کے سرہانے بیٹھی رہتی ہے۔ بار بار پوچھتی رہتی ہے بیٹا کیا
حال ہے۔ سر میں درد تو نہیں ہورہا۔ کسی اورجگہ درد تونہیںہو رہا۔ پیاس تو
نہیں لگی۔ بیٹا سر دبادوں؟اس مرض سے اتنی تکلیف بیٹے کو نہیں ہوتی جتنی اس
ماں کو ہوتی ہے۔ اس دنیا میں اللہ پاک نے بہت سی خوش قسمت مائیں پیدا کی
ہیں۔ اماں حوا سب انسانوں کی ماں ہے ۔ میں تو یوں کہوں گا کہ اماں حوا سب
ماﺅں کی ماں ہے۔ ایک ماں وہ ہے کہ اس کو اس کا شوہر اس کے بیٹے سمیت ایسے
ریگستان میںچھوڑگیا ہے ۔ جہاںدور دور تک پانی کا نشان نہیں۔ بچہ کو پیاس
لگتی ہے۔ مگر پانی نہیں ہے ۔ ماں ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی تک دوڑ لگاتی ہے
کہ پانی مل جائے۔ بار بار چکر لگانے کے بعد پانی نہیں ملتا۔ بچہ اپنی
ایڑیاں رگڑتا ہے تو پانی جاری ہوجاتا ہے ۔ ماں دیکھ کر خوش ہوجاتی ہے۔ پانی
کو مٹی سے روک کر کہتی ہے زم زم۔ دنیا ئے اسلام آج تک اس پانی کو متبرک جان
کر پی رہی ہے اور پیتی رہے گی۔ اس ماں کی ادا اس خالق کائنات کو اتنی پسند
آئی کہ اس نے اعلان کردیاکہ جو بھی میرے گھر کا طواف کرنے آئے وہ اس ماں کی
ادا کو ضرورادا کرے۔ ایک ماںوہ ہے جس کی شادی نہیںہوئی۔ بچہ پیٹ میں ہے۔
وضع حمل کا وقت قریب ہے۔ دامن پر اس سے پہلے کوئی داغ نہیں اور نہ ہی اس کے
بعد کوئی داغ تھا۔ بلکہ یوںکہنا ضروری ہے کہ اس کے دامن پر اس کی ساری
زندگی کوئی داغ لگا ہی نہیں۔ سوچ رہی ہے کہ قوم پوچھے گی کہ بچہ کہاں سے
لائی ہے۔ قوم کو کیا جواب دوں گی۔ ایک درخت کی اوٹ میںبیٹھ جاتی ہے۔ بچہ
پیدا ہوجاتا ہے۔ قوم کو پتہ چل جاتا ہے قوم آکر جواب مانگنے لگتی ہے کہ
تیرے یہ بچہ کہاں سے آیا ہے۔ اللہ پاک کے حکم سے اشارے سے کہتی ہے کہ میں
نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ جو کچھ پوچھنا ہے اس بچہ سے پوچھ لو۔ بچہ
پنگھوڑا میں کہتا ہے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اللہ نے مجھے رسول بنا کر
بھیجا ہے اور مجھے کتاب بھی دی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جواب سن کر
قوم لاجواب ہوجاتی ہے۔ اب آپ کو ایک ایسی ماں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ جس
ماں کو سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ یہ ایسی ماں ہے جس پر دنیا کی سب مائیں
قربان ہیں۔ اس ماںپر سب مائیں رشک کرتی ہیں۔ اس ماں کا بیٹا اللہ پاک کا
محبوب ہے۔ یہ ماں اپنے بچے کے بارے کہتی کہ میرے بیٹے کی بڑی شان ہے۔ اس
ماں کا جب وقت اجل آیا تو میکے سے سسرال واپس آرہی تھی کہ راستے میں ہی
زندگی کے آخری لمحات آگئے۔ بچے کو سینے سے لگایا داعی اجل کو لبیک کہا ۔
باپ پہلے ہی دوسرے جہاں چلا گیا تھا اب ماں بھی ہمیشہ کیلئے جدا ہوگئی۔
دریتیم صلی اللہ علیہ والہ وسلم باندی کے ساتھ اپنے گھر واپس آگئے۔ ابھی
عمر ہی کیا تھی۔ ایک اورماں بھی ہے کہ اس جیسی ماںکوئی اور نہیں ہے۔ اس کے
جب بچہ جننے کا وقت آیا تواس کو جگہ نہیں مل رہی تھی۔ ساتھ ہی کعبہ تھا غیب
سے آوازآئی اس کعبہ میں چلی جا۔ شیرخدا کی ولادت کعبہ میں ہوئی۔ اس سے پہلے
اور اس کے بعد کسی ماں نے کعبہ میں بچے کوجنم نہیں دیا۔ اللہ پاک نے اس کو
علم اورشجاعت کی دولت سے مالامال کردیا۔ اس کے بچے نے جواں ہوکر خیبر کے وہ
دروازے جو بہت سے افراد مل کر کھولا اور بندکرتے تھے اس نے ایک ہی ہاتھ سے
اٹھاکر ہو امیں اڑادیے۔ اب ایک اور عظیم ماں کی بات کرتے ہیں۔ یہ ماں دن
میں گھر کے کام کرتی۔ اپنے بچوں اور شوہر کے کپڑے دھویا کرتی۔ گھر میں
جھاڑو دیتی۔ ہاتھ کی چکی پر آٹا پیستی۔ رات کے وقت گھر سے دور کنویں سے
مشکوں میں پانی بھر کر لاتی۔ رات کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتی۔ سجدے اس
کوایسا لطف آتا کہ سجدہ تسبیح بڑھاتی چلی جاتی۔ اسی سجدے میں ہوتی تو
نمازفجرکی اذان سنائی دیتی۔ سجدہ سے اٹھ کر نماز مکمل کرتی اور اللہ تعالیٰ
سے عرض کرتی کہ اے میرے مالک تو نے اتنی چھوٹی رات بنائی ہے کہ تیری فاطمہ
کا ایک سجدہ بھی پورانہیںہوتا۔ یہ اسی ماں کا مقدس دودھ تھا کہ اس کے بچے
تیروں کی برستی ہوئی بارش میںبھی نماز کونہیں بھولے۔ میدان کربلا میں
ہرمصیبت کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور ہر امتحان میں کامیابی حاصل کی۔
اس کے ایک ایک لعل نے شجاعت کے وہ جوہر دکھائے کہ دشمن دم بخودرہ گیا۔ اس
کے ایک ایک چشم وچراغ نے ہزاروں دشمنان اہلبیت کو واصل جہنم کیا۔ یہ وہ ماں
ہے جو دس محرم الحرام کی شب کو کربلا کا میدان صاف کررہی تھی کہ میرے بیٹوں
کو تکلیف نہ ہو۔ ان کو کوئی کانٹا نہ چبھے۔ آیئے ایک اور ماں کے بارے میں
پڑھیے۔ یہ ماں بھی دنیا کی عظیم ماں ہے۔ اس نے جب اپنے بچے کوحصول تعلیم
کیلئے گھر سے دور سفرپر روانہ کیا تونصیحت کی کہ بیٹا کچھ بھی ہوجائے جھوٹ
نہیں بولنا۔ بچہ گھرسے روانہ ہوجاتا ہے۔ راستہ مین رہزن آجاتے ہیں قافلہ
کولوٹ لیتے ہیں اس بچہ سے پوچھتے ہیں تیرے پاس بھی کچھ ہے وہ جواب دیتا ہے
جی ہاں میرے پاس چالیس دینار ہیں۔ رہزن اس کو بچہ سمجھ کر اس کی بات پر
یقین نہیں کرتے ۔اس کو لے کر اپنے سردارکے پاس لے جاتے ہیں۔ سردار پووچھتا
ہے کہ بچے تیرے پاس کچھ ہے جواب ملتاہے کہ جی ہاں میرے پاس چالیس دینار ہیں
کہاں ہیں۔ اس گدڑی میں سلے ہوئے ہیں۔ نکال کر دیکھے تو چالیس دینارہی تھے۔
رہزنوں کے سردارنے پوچھا تو ہم سے چھپائے کیوں نہیں۔ بڑا ہی خوبصورت اور
سبق آموزجواب دیا میری ماں نے نصیحت کی تھی کہ کچھ بھی ہوجائے جھوٹ نہ
بولنا۔ یہ سننا تھا کہ رہزنوں کا سردار چونک گیا ۔ اس کے دل کی دنیا ہی بدل
گئی۔ اس نے سوچا کہ یہ بچہ اپنی ماں کے حکم کی اتنی تعمیل کرتا ہے اور میں
اپنے رب کی نافرمانی کرہا ہوں اس نے اس بچہ کے ہاتھ پر رہزنی سے توبہ کی اس
کے ساتھ ہی سارا قافلہ توبہ تائب ہوگیا ۔ قافلہ کا لوٹاہوامال واپس کردیا۔
دنیا کی عظیم مائیں اور بھی بہت سی ہیں۔ دنیا بھر میں ہرسال بارہ مئی کو ماﺅں
کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ماﺅں کے عالمی دن کے موقع پر ان ماﺅں کا تذکرہ
نہ کیا جائے یہ اس دن کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہے۔ ماں کی کون کون سی خوبی
بیان کی جائے۔ کہ کسی ماں کا بیٹا نبی بنا۔ کسی ماں کا بیٹا صحابی بنا۔ کسی
ماں کا بیٹا اللہ پاک کا ولی بنا۔ کسی ماں نے ادیب کو جنم دیا۔ کوئی ماں
علماءکو جنم دیتی ہے۔ کسی ماں کی گود میں نعت خواں آنکھ کھولتا ہے۔
استاد،پروفیسر، ڈاکٹر، شاعر،صحافی، سیاستدان، حکمران، افسران اور سب انسان
کسی نہ کسی ماں کے ہی بیٹے ہیں۔ ماں اپنے بچے کو تکلیف اور مصیبت میںنہیں
دیکھنا چاہتی۔ اس کی آسائش کیلئے خود تکلیف برداشت کرلیتی ہے۔ ہمارے گھر کے
قریب ٹریفک حادثہ ہوا۔ ایک ماںنے اپنی جان کی پروا نہ کی مگر اپنی گود میں
بچے کو بچالیا۔ ہمارے والد محترم کا ایکسیڈینٹ ہوا۔ ایک ماہ کے بعد گھر
لائے توہماری دادی کو اللہ اپنی آغوش ِ رحمت میں جگہ عطاکرے۔ چل پھر نہیں
سکتی تھی ۔ عصا کے آسرے پر آئی اور بیٹے کی عیادت کی۔ ماﺅں کا عالمی دن
منانے والے ابھی تنہائی میں جاکر سوچیں کہ انہوں نے کتنی ماﺅں کا دل دکھایا
ہے۔ انہوں نے کتنی ماﺅں کی دل آزاری کی ہے۔ انہوں نے کتنی ماﺅں کی گود
اجاڑدی ہے۔ کبھی انہوں نے سوچاہے کہ انہوں نے کتنی ماﺅں کو دکھ دیا ہے۔
انہوں نے کتنی ماﺅں کے جگر کے ٹکڑے ان سے ہمیشہ کیلئے جدا کر دیے۔
افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بمباری ، ڈیزی کٹربموں اور دیگر
اسلحہ سے جتنے افراد مارے گئے ۔ وہ سب کے سب کسی نہ کسی ماں کے ہی بیٹے تھے۔
جب کسی ماں نے سنا ہوگا کہ اس کا بیٹا بمباری میں ماراگیا ہے تو اس کے دل
پرکیا گزری ہوگی۔ عراق میںاسلحہ کی تلاش میں عراقیوں پرجو ظلم ہوا اس سے
کون واقف نہیںہے۔ وہاں اتحادی افواج کے ہاتھوں مارے جانے والے بھی کسی نہ
کسی ماں نے ہی جنے تھے۔ ان ماﺅں پر اس وقت کیا گزری ہوگی جب انہوں نے سنا
ہوگا کہ ان کا بیٹا بمباری میں مارا گیا ہے۔ فلسطین میں اسرائیل جب چاہتا
ہے حملہ کردیتا ہے۔ ہزاروں فلسطینی پناہ گزیں کیمپوں میں رہنے پرمجبورہیں۔
اپنے ہی وطن میں پردیسیوںکی زندگی گزارنے والوں اور اسرائیل کی بمباری سے
شہید ہونے والوں کو بھی ماﺅں نے جنا ہے۔ کیا کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ
اسرائیل کی فائرنگ سے شہید ہونے والے فلسطینیوں کی لاش کو دیکھ کر کا اپنے
بیٹوں کی شہادت کا سن کر ان ماﺅں پر کیا بیت گئی ہوگی۔ کشمیر میں بھارت
روزانہ کتنی ماﺅں کی دل آزاری کرتا ہے۔ اس کے ظلم وستم کا جتنے بھی کشمیری
نشانہ بنتے ہیں وہ سب کے سب کسی نہ کسی ماں نے ہی تو جنے ہیں۔ کشمیر میں
کتنی ماﺅں کی گود اجاڑی جا چکی ہے۔ کتنی ماﺅں کے سامنے ان کے بیٹوں کو
درندگی کا نشانہ بنایا گیا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ کتنی ماﺅں کے سامنے ان
کی بیٹیوں کی عصمت لوٹی گئی ہے۔ کتنی ماﺅں کو وحشت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا
ہے۔ کتنی ماﺅں کے کلیجوں پر تیربرسائے گئے ہیں۔ کتنی ماﺅں کے سر سے چادر
چھین لی گئی ہے۔ اب تو یہ حال کر دیا گیا ہے کہ ڈسپلن کے نام پر کچھ اداروں
اور تنظیموں میں سر پر چادر لینے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اور ماﺅں سے کہا
جاتاہے کہ چادر اوڑھنی ہے توگھر میں رہو۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف
جنگ سے مائیں سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ جو بم باندھ کر آتےب ہیں اور
دھماکے کردیتے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی ماں کے بیٹے ہیں اور جو ان دھماکوںمیں
مارے جاتے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی ماں کے ہی بیٹے ہوتے ہیں۔ پاکستان کا کوئی
ڈویژن ایسا نہیں جہاں دہشت گردی کی واردات نہ ہوچکی ہو۔ ڈرون حملوںمیں مارے
جانے والوں کو بھی ماﺅں نے جنا ہے۔ باجوڑ میں ایک مدرسہ پر ڈرون حملے سے
جتنے بچے شہید ہوئے ان کو بھی کسی نہ کسی ماں نے ہی جنا تھا۔جب ان بچوں کی
میتیں ان کے گھروں میں گئی ہوں گی تو ان کی ماﺅں پرکیا گزری ہوگی کیا کوئی
بتا سکتا ہے۔ جو ان ماﺅں پر ظلم کرتے ہیں وہ بھی تو کسی نہ کسی ماں کے ہی
بیٹے ہیں۔ چاہے ان کا تعلق کسی بھی تنظیم یا ملک سے ہے۔ کیا وہ نہیںسوچتے
کہ کوئی ہماری ماں کے ساتھ یہ سلوک کرے تو ہمارے ساتھ کیا بیتے گی اور ہم
کیا آرام سے بیٹھ جائیں گے۔ یہ درندے اتنا ہی سوچ لیں تو پھر وہ کسی بھی
ماں کی دل آزاری کرنے کا سوچ بھی نہ سکیں۔ کراچی میں بارہ مئی کو عدلیہ
بحالی تحریک کے دوران پینتالیس افراد کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔ اس دن
سڑکیں سنسان تھیں ہر طرف سڑکیں بلاک تھیں۔ یہ سب افراد بھی تو کسی نہ کسی
ماں نے ہی جنے تھے۔ ہمارے ماﺅں کا عالمی دن منانے والوں میں سے کتنے افراد
ایسے ہیں جنہوں نے ان ماﺅں کے آنسو پونچھے ہیں۔ کتنے کارکن اور عہدیدار
ایسے ہیں جنہوں نے ان ماﺅں کے ساتھ ان کا دکھ درد بانٹا ہے۔ کتنے ممبران
ایسے ہیں جو ان دکھیاری ماﺅں کو تسلیاں دے چکے ہیں۔ کسی ماں فوت ہوجائے تو
ملک بھر میں سوگ منایا جاتا ہے ۔ ملک بھر میں عام تعطیل کردی جاتی ہے اور
کسی غریب کی ماں کا جنازہ اٹھے تو علاقہ کا کونسلر بھی تعزیت کرنے نہیں آتا۔
ماں تو سب کی ایک جیسی ہیں مگر یہ تضاد کیوں؟کچھ بدبخت ایسے بھی ہیں جو
اپنی ہی ماں پر ظلم کرنے سے باز نہیں آتے۔پاکستان میں اب بھی ماﺅں کا
احترام کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ماﺅں کا احترام دنیاکے دیگر ممالک سے کہیں
زیادہ پایا جاتا ہے۔ یہاں اب بھی بڑی بڑی شخصیات ماﺅں کے قدموں کو بوسے
دیتی ہیں۔ اب بھی پاکستانیوں کی اکثریت گھروں سے ماﺅں سے اجازت لے کر اور
ان ماﺅں سے دعائیں وصول کرکے باہر نکلتی ہے۔ یہاں ایسے افراد بھی ہیں جو
بیویوں کی باتوں میں آکر ماں اور باپ کو چھوڑ دیتے ہیں یاخود نیا گھر لے
لیتے ہیں یا اپنے والدین کو گھروں سے نکال دیتے ہیں۔ اس کے برعکس ایسے بھی
ہیں ان سے ان کی بیگمات شوہر کے والدین کو گھر سے نکالنے یا گھر چھوڑجانے
کامشورہ دیں تو ان سے صاف صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہم اپنے بوڑھے والدین کو
نہیںچھوڑسکتے۔ تو نے میرے ساتھ رہنا ہے تو اسی گھر میں رہنا ہوگا ورنہ میری
طرف سے کھلی چھٹی ہے۔ جانا ہے تو ابھی چلی جا۔ انسانی حقوق کاڈھنڈوراپیٹنے
والے اپنی ہی ماﺅں کو گھروں سے نکال دیتے ہیں۔ انہیں اولڈہاﺅسزمیں چھوڑآتے
ہیں۔ ان کو ماﺅں سے اتنی ہی محبت ہے کہ ان کے نام کا یہ دنیا بھر میں دن
مناتے ہیںتو یہ ان کے ہاں اولڈہاﺅسز کس لیے ہیں۔ یہ کیسے ماﺅں سے محبت کرنے
والے ہیں کہ جب ان کی خدمت کرنے کا وقت آتا ہے تو ان کو اولڈہاﺅسز میں
چھوڑدیا جاتا ہے۔ اسلام نے ماﺅں کو جوعزت بخشی ہے وہ کسی اور مذہب نے نہیں
دی۔ ماﺅںکی عظمت کیلئے تو ایک ہی جملہ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے اوریہ جملہ
صرف ماﺅں کیلئے ہی کہا گیا ہے کہ ” ماﺅں کے قدموںتلے جنت ہے“ ماﺅں کی عظمت
اسی جملہ میں چھپی ہوئی ہے۔ماﺅں کا عالمی دن مقررکرکے اچھانہیںکیا گیا یہ
ان کی ضرورت تو ہوسکتی ہے ۔جن کی مائیں اولڈہاﺅسزمیں رہتی ہیں۔ کہ سال میں
ایک دن ان کو کچھ تحفے دے دیے پھول بھیج دیے۔ اورپھر سال بھر ان سے لاتعلقی۔
پاکستان جیسے ملک میں ایسے دن منانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہاں تو ہر دن ماﺅں
کا دن ہے اور ہر شب ماﺅں کی شب ہے۔ جو پاکستانی روزانہ ماﺅں سے اجازت لے کر
اوران سے دعائیں وصول کرکے باہر نکلتے ہیں انہیں کیا پڑی کہ وہ سال میں ایک
دن ماﺅں کا عالمی دن منائیں۔ وہ تو روزانہ ماﺅں کا عالمی دن مناتے ہیں۔
پاکستان میں ماﺅں کے عالمی دن کے موقع پر ساٹھ سال یا اس سے زیادہ عمر کی
خواتین کا ہربیماری اور ہر مرض کا علاج فری کردیا جائے۔ ہسپتالوں میں ان
کیلئے خصوصی وارڈزبنائے جائیں۔ ان وارڈزمیں ایسی خواتین کو جو امراض لاحق
ہوتے ہیں ان امراض کے سپیشلسٹ ڈاکٹر تعینات کیے جائیں۔ دوران سفران کو
کرایوں میں خصوصی رعایت دی جائے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میںکیا کچھ
نہیں ہورہا یہ سب جانتے ہیں نہ جانے کیا وجہ ہے کہ یہ ملک ابھی تک قائم ہے
کوئی اورملک ہوتا تو کب کا دنیا کے نقشہ سے مٹ چکا ہوتا ۔ اس کا جواب یہ ہے
اور یہی سچ بھی ہے کہ پاکستان ان ماﺅں کی دعاﺅں کی وجہ سے ہی قائم ہے۔ انہی
ماﺅں کی بدولت دھرتی ماں کا وجودقائم ہے۔ |