شاہین اختر
بھارتی ”را“ کے ایک افسر نے تسلیم کیا ہے کہ سربجیت بھارتی جاسوس تھا جس کا
صاف مطلب ہے کہ بھارت نے سرکاری طور پر تسلیم کرلیا ہے کہ وہ پاکستان میں
تخریبی کارروائیاں کرواتا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے بھارتی
جاسوس کو بھارتی وزیر اعظم نے بھارتی لال قرار دیا اور اسے ہیرو کی طرح
بھارتی عوام نے پذیرائی دی اور پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ اس کی آخری
رسومات بھی ادا کی گئیںحالانکہ سربجیت سنگھ ایک دہشت گرد اور ”را“ کا ایجنٹ
تھا جو معصوم پاکستانی شہریوں کےخلاف بم دھماکوں کی غرض سے داخل ہوا،
سربجیت سنگھ نے پاکستان کے اندر بم دھماکے کرنے کا اعتراف کیا جس کے نتیجے
میں 14 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔ سربجیت ایک دہشت گرد تھا
جس کے پیچھے بھارتی حکومت کارفرما تھی، اس کے جرائم کے سلسلے میں پاکستان
کی عدالت عظمیٰ نے موت کی سزا سنائی تھی، بھارتی حکومت نے سربجیت سنگھ کی
موت کے بعد اسے سرکاری اعزاز سے نوازا، سربجیت سنگھ کی موت کے جواب کے طور
پر بھارتی جیل میں قید ایک پاکستانی قیدی ثناءاللہ پر اس کے جیل کے ساتھیوں
نے حملہ کردیا جس سے وہ جانبر نہ ہوسکے، بھارتی ذرائع ابلاغ کی مہم اور
بھارتی سیاست دانوں کی طرف سے آنے والا ردعمل ایک جیسا تھا، پاکستان کے
اندر ایسے تمام عناصر جنہوں نے معذرت خواہانہ رویہ اپنا رکھا ہے ایسے ہی
رویے کا مظاہرہ کیا اور انہوں نے سربجیت سنگھ کی موت پر واویلا کیا، کیا
شاید وہ بھارت کے کشمیریوں پر مظالم، پاکستانی قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی
سلوک، بھارت کی آبی جارحیت، سمجھوتہ ایکسپریس اور بلوچستان میں شرپسند اور
دہشت گردی کی کارروائیوں سے لاعلم ہیں۔
انہیں ان چند پاکستانیوں کو بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے جیسے عبدالعلیم اور
قتیل جو بھارتی جےلوں میں تشدد کا شکار ہوئے اور جن کی میتوں کے پاکستان
واپس آنے پر بزدل سیاسی قیادت جیسے نواز شریف اورنجم سیٹھی نگران وزیر اعلیٰ
جیسے صحافیوں نے کسی ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔یہ لوگ بھارت کےساتھ اعتماد
سازی کے نام پر قومی غیرت کے اظہار سے بھی ہچکچاتے ہیں۔حال ہی میں GNN-IBN
کے پروگرامDavil's Advocate میں کرن تھاپر کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے نواز
شریف نے تمام قومی ریاستی پالیسوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مختلف موضوعات
پر گفتگو کی۔ اس گفتگو کے دوران انہوں نے سربجیت سنگھ جیسے ایجنٹوں کے
ذریعے پاکستان کے اندر کی جانےوالی بھارت کی دہشتگردی کا ذکر تک نہیں کیا
اورنہ ہی انہوں نے بھارتی جیل میں قید پاکستانی شہری ثناءاللہ کے بہیمانہ
شہادت پر کوئی لفظ ادا کیا۔ 8مئی 2013ءکو نجم سیٹھی نے بھی اپنے آقاؤں کو
خوش رکھنے کےلئے ایسے ہی عمل کا مظاہرہ کیا۔ ان دونوں حضرات کے انٹرویوز
انکے پاکستان اور اسکے شہریوں کی جانب انکے بے حسی کے رویے کو ظاہر کرنے
کےلئے کافی ہیں جس پر معاشرے کے تمام طبقوں اور ذرائع ابلاغ کی جانب سے
سوال اٹھایا جانا چاہیے۔
اور یہ لوگ بھارت کے ساتھ اعتماد سازی کے نام پر ہچکچاتے رہے، معاشرے کے
تمام طبقوں اور ذرائع ابلاغ کی طرف سے اس معاملہ پر بھی سوال اٹھایا جانا
چاہئے۔ بھارتی جیل میں ہندوستانی قیدی کے تشدد سے جاں بحق ہونے والے
پاکستانی ثناءاللہ کی شہادت نے دنیا بھر میں امن پسندی کا ڈھنڈورا پیٹنے
والے ہندوستان کا اصل چہرہ بے نقاب کردیا ہے۔
بھارتی جیلوں میں پاکستانی قیدیوں پر تشدد معمول کی بات بن چکی ہے کیونکہ
کبھی بھی پاکستانی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے پاکستانی قیدیوں پر بھارتی
انسانیت سوز مظالم پر دلیرانہ احتجاج اور مجاہدانہ ردعمل ظاہر نہیں کیا حتیٰ
کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بھی واہگہ بارڈر سے پاکستان میں داخل ہونے
والے نیم پاگل اور معذور پاکستانی قیدیوں کی واپسی کے موقع پر بھارتی مظالم
اور جیلوں میں تشدد کو کبھی موثر انداز میں اجاگر نہیں کرتا جیسے ”را“ کے
دہشت گرد اور انڈین ملٹری انٹیلی جنس کی ایماءپر پاکستان میں دھماکوں سے
پاکستانیوں کو شہید کرنے والے سربجیت سنگھ کے خاندان کو پروٹوکول اور واقعہ
کو اچھالا گیا۔ ثناءاللہ شہید کے ساتھ ہی بھارتی جیلوں میں پاکستانی قیدیوں
سے انسانیت سوز مظالم کا سلسلہ جیل انتظامیہ اور ریاستی سرپرستی و حوصلہ
افزائی میں جاری ہے جس کا ایک اور ثبوت بھارت کی تہاڑ جیل میں ایک اور
پاکستانی قیدی پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ دو قیدیوں رنجیت اور اجے کمار نے
عبدالجبار کے چہرے اور گردن پر بلیڈ مارے، عبدالجبار 9 برس سے بھارتی جیل
میں قید ہے۔ |