الیکشن 2013 ہو گئے۔ قوم سرخرو
ہوئی کہ تمام تر مشکل حالات کے باوجود اُس نے ووٹ ڈالا اور اُن قوتوں کو
ناکام بنا دیا جو انتخابات کی راہ میں روڑے اٹکا رہے تھے اور اِس دن ’’یہ
اور وہ‘‘ کرنے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ اگر چہ الیکشن کمشن جس صاف شفاف اور
آزادانہ الیکشن کی نوید سنا رہا تھا وہ وعدہ مکمل طور پر ایفائ نہ ہو سکا ،مخصوص
گروہوں اور پارٹیوں نے اُس دن بھی ووٹرز کو ہراساں کیا اور اپنی پارٹی کے
لیے ’’عظیم خدمت‘‘ سرانجام دیتے ہوئے پرچیوں پر دھڑا دھڑ ٹھپے بھی لگائے ۔یہ
مناظر ہم سب نے ٹیلی ویژن پر دیکھے اور شرمندہ ہوئے۔ اس سے پہلے صادق اور
امین امیدوار کے امتحان میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن اس سب
کچھ کے باوجود عوام نے بہت سے بڑے برج الٹ دئیے، کئی سارے تخت گرائے اور
کچھ تاجداروں کے تاج بھی اچھال دئیے۔ جمہوریت بہترین انتقام ہے کا نعرہ لگا
کر حکومت کرنے اور عوام کو انتقام کا نشانہ بنانے والوں سے عوام نے انتقام
لے لیا اور یہ بتا دیا کہ جو وہ چاہیں گے وہ ہوگا تو وہ حکمرانوں کو خدمت
کا موقع دیں گے نہیں تو حکومت کسی ایک جماعت کی میراث نہیں ہے اور نہ ہی
پاکستان کسی خاندان کی جاگیر ہے۔ اگر چہ ابھی بھی عوام کو تربیت کی ضرورت
ہے کہ وہ خاندانوں ، برادریوں اور شخصیات کو ووٹ دینے کی بجائے نظرئیے اور
منشور کو ووٹ دیں تاکہ عوام خود ہی آرٹیکل 62 ، 63 کو مکمل طور پر لاگو
کرنے کے اہل ہو جائیں۔ اور ایسی قیادت کو سامنے لائیں جو اگر صدق و امانت
کے اعلیٰ مدارج پر فائز نہ بھی ہو تو کسی نہ کسی درجے پر تو ضرور پہنچتی ہو۔
قومی سطح پر عوام نے جسطرح پانچ سال تک حکمرانی کرنے والی جماعت پیپلز
پارٹی کو رد کیا ہے وہ آنے والے حکمرانوں کے لیے بھی ایک وارننگ ہے کہ اگر
اُنہوں نے قومی معاملات میں ایمانداری کو نہ برتا تو عوام ان کو بھی
’’تیسرے درجے‘‘ کی پارٹی بنا سکتے ہیں اسی طرح خیبر پختونخواہ کے عوام نے
اپنی سابقہ حکمران جماعت کو قومی اسمبلی میں پہنچنے کے قابل تک نہ چھوڑا
اور یہ ثابت کیا کہ پختون اُسی کو عزت دیتے ہیں جو خود کو اس کا اہل ثابت
کرتا ہے۔ اے این پی جو خود کو پختونوں کی نمائندہ جماعت کہتی تھی اور پچھلے
الیکشن میں صوبے کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری بھی تھی لیکن جب وہ عوام
کی توقعات پر پورا نہیں اتری تو اُس کو کھلم کھلا اس کی سزا دی گئی۔ اس
حکومت نے ترقیاتی کام تو کچھ نہ کچھ کئے ہی لیکن صوبے کے اصل مسئلے یعنی
امن و امان کو بحال نہ کر سکی اگر چہ وہ اس دہشت کا خود بھی شکار ہوتی رہی
لیکن عوام کے لیے ظاہر ہے پہلا مسئلہ جان اور پھر مال کی حفاظت ہے جس کی
بحالی کے لیے سنجیدہ کوشش کی ضرورت ہے جبکہ پاکستان میں دہشت گردی میں غیر
ملکی ہاتھ ملوث ہونے کے کئی ثبوتوں کے باوجود اے این پی اس کا انکار کر تی
رہی۔ انتخابات سے کچھ ہی دن پہلے اسفندیار ولی نے ریڈیو پاکستان کو
انٹرویودیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کو افغانستان میں بھارت کی موجودگی اور
ترقیاتی کام کرنے پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے ۔ بات بڑی معقول لگتی ہے کہ یہ
دو اور ملکوں کا معاملہ ہے جس میں پاکستان کی مداخلت بے جا لگتی ہے لیکن
کیا وہ یہ بات نہیں جانتے کہ بھارت افغانستان میں افغانوں کی محبت میں نہیں
آیا ہے بلکہ اس راستے وہ مسلسل پاکستانی قبائلی علاقوں میں مداخلت کر رہا
ہے اور دہشت گردوں کا ایک بڑا اسلحہ سپلائر ہے اور انہیں ہر قسم کی امداد
مہیا کرتا ہے کہ پاکستان میں حالات خراب کیے جائیں اور خراب رکھے جائیں ۔
یہی سوچ تھی جس نے اس جماعت کو دہشت گردوں کے خلاف کامیاب نہ ہونے دیا کہ
مسئلے کی جڑ سے ارداتاََ صرف نظر کیا گیا ۔ اب صوبے میں جو بھی حکومت بنے
گی اس کا سب سے بڑا امتحان دہشت گردی کا مقابلہ ہی ہوگا کہ وہ اس پر کس طرح
قابو پاتی ہے یہی مسئلہ قومی حکومت کا بھی امتحان ہو گاکہ وہ ملک میں امن و
امان کیسے بحال کرے۔ نوازشریف سے بھی گزارش ہے کہ انڈین ٹی وی کو دئیے گئے
انٹرویوز میں بھارت سے دوستی کی پیشکش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن
کشمیر میں بھارت کے مظالم، پاکستانی دریائوں پر بھارتی ڈیموں کی تعمیر،
ہندوستان میں اسلحہ کے انبار ، بھارتی جیلوں میں پاکستانی قیدیوں کا قتل ،
سفارتی سطح پر پاکستان کو بین الاقوامی برادری میں اکیلا کرنے کی کوشش ،
پاکستان میں براہ راست اور افغانستان کے راستے دہشتگردی کو ضرور ذہن میں
رکھیں تا کہ وہ بھی مستقبل میں اسفندیار و لی کی طرح کے مسائل سے دو چار نہ
ہوں۔ اللہ کرے کہ نہ صرف پاکستان کو اس مصیبت سے نجات دلانے میں نئی
حکومتیں کامیاب ہوں بلکہ وہ اپنے وہ سارے وعدے پورے کر یں جو انہوں نے
انتخابی مہم کے دوران عوام سے کیے ۔ دوسروں پر الزامات لگانے کا وقت گزر
چکا ہے اور آنے والوں سے دست بستہ عرض ہے کہ خدارا اس چلن کو بد لیئے جس
میں پچھلی حکومتوں کو ہر برائی کا ذمہ دار قرار دے کر خود اہلِ حکومت بری
الذمہ ہو جاتے ہیں بلکہ لمحہ لمحہ اس بات کا اعلان کیا جاتا ہے کہ یہ مسائل
انہیں ورثے میں ملے ہیں، اس لیے لگتا یوں ہی ہے جیسے وہ سمجھتے ہوں کہ ان
مسائل کو حل کرنا اب ان کی ذمہ داری ہی نہیں بنتی حالانکہ اب وہ اس ملک کے
حکمران ہوتے ہیں اور تمام تر انتظام وانصرام ان کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن
وہ اس سے بڑی صفائی سے بچ جانے کی کوشش کرتے ہیں اور کم از کم اپنے دور
حکومت تک بزور بازو و بزور حکومت بچے رہتے ہیں اور اگلی حکومت کے آتے ہی
احتساب کے عمل سے گزرنے لگتے ہیں اور اب یہ نئی حکومت وہی تاریخ رقم کرنے
لگتی ہے جو پچھلی نے کی تھی۔ کرپشن کو ختم کرنے کے جو طریقے اپنائے جاتے
ہیں وہ اس کو جان بوجھ کر موثر نہیں بناتے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اگلی بار
وہ ان پر ہی لا گونہ ہو جائیں۔
اگر عوام نے 11 مئی 2013 کو امن و امان کے مخدوش ترین حالات میں گھروں سے
نکل کر سیاستدانوں کو ووٹ دیا ہے تو اس امید پر دیا ہے کہ شاید آنے والی
حکومت ان کے مسائل میں کمی کر سکے، دہشت گردی کو روک سکے، معیشت کو بہتر
بنا سکے ، کرپشن کو ختم کر سکے، حقدار کو اُس کا حق دلا سکے، ظالم کو ظلم
سے روک سکے اور مظلوم کی داد رسی کرسکے اور مفاہمت کے نام پر اپنے ذاتی
فوائد کی سیاست اور قومی خزانے کی لوٹ کھسوٹ چھوڑ دیں۔ اب اگر آنے والے
حکمران یہ سب نہ کریں اور پھر سے کرپشن کے دریا میں غوطہ زن ہو جائیں تو
پھر انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ غوطہ آخری بھی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح
اپوزیشن کو بھی اپنے فرائض بحسن و خوبی ادا کرنا ہونگے فرینڈلی اپوزیشن کی
اصطلاح جو پچھلی اپوزیشن نے متعارف کرائی ہے بھی اپنے فرائض سے فرار ہے
اپوزیشن کا کام حکومت کے ہر اچھے برے فعل پر صاد کرنا نہیں اور نہ ہی خواہ
مخواہ کی تنقید ہو تاہے بلکہ اس کے اوپر ایک سخت چیک رکھنا ہوتا ہے، تاکہ
اہل حَکم اپنے فائدے کی بجائے ملک کے فائدے کے بارے میں سوچیں اور اگر کہیں
وہ راستے سے بھٹکنے لگیں تو فوراََ ان کا راستہ سیدھا کر دیا جائے۔ لہٰذا
مفاہمت اپنی جگہ لیکن یہ مفاہمت صرف اور صرف ملک کی خاطر ہو اپنی ذات اور
خاندانوں کے لیے نہ ہو۔
اس ملک اور قوم نے اپنی عمر کے تقریباََ 67 سال کا اکثر حصہ سیاستدانوں اور
حکمرانوں کے ہاتھوں بڑی مشکل میں گزارا ہے ہم سے بعد میں آزادی حاصل کرنے
والے ممالک ترقی کی دوڑ میں ہم سے کہیں آگے نکل چکے ہیں لیکن ہم ایک دوسرے
کی ہی جڑیں کاٹنے میں لگے ہوئے ہیں، ایک دوسرے پر الزامات ہی لگائے رکھتے
ہیں، نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں وہ تعاون نظر نہیں آتا جو گناہ اور برائی
کے کاموں میں ہوتا ہے۔
عوام نے اس بار جس امید پر اپنا ووٹ دیا ہے نوازشریف اور عمران خان سے
بالخصوص اور پیپلز پارٹی ، جے یو آئی، ایم کیو ایم تمام مسلم لیگوں ، جماعت
اسلامی اور ہر چھوٹی بڑی پارٹی سے بالعموم یہ گزارش ہے کہ خدارا اس امید
کومت توڑیئے اپنی اپنی جگہ پہچا نئے اپنے اپنے فرض کا تعین کیجئے اور اس
ملک کی ترقی میں حصہ بقدر جثہ ڈالیے۔ اور صرف ایک اصول اپنائیے۔ وَ تَعَاوَ
نُوْ عَلیَ الْبِّرِ وَ التَّقْوٰی وَ لاَ تَعَا وَنُوْ عَلْی لِا ثْمِ
وَالْعُدْوَانْ۔ تو آپ دیکھئے گا آپ سب مل کر ایک نیا پاکستان بنا لیں گے۔
اللہ آپ کو ہمت دے کہ آپ پاکستان کی حفا ظت کر سکیں اور اسے ترقی و بلندی
عطا کر سکیں بس اس کے لیے آپ کا خلوص اور نیک نیتی چاہیے۔
|