نورالصباح
آج ہندستان کا شمار دنیا کے ترقی پسند ممالک میں ہوتا ہے۔ جہاں صنعتی علاقے سے لے
کر سماجی اور معاشی شعبے میں اب تک بے شمار تبدلیاں ہوئی ہیں ۔ لیکن سوال اٹھتا ہے
کہ آج سماج کے تنگ نظریہ میں آخر کتنی تبدیلی آئی ہے؟ کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی
تحریک کوئی بڑی جدوجہد اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اس میں خواتین شامل نہ
ہوں،ہرکامیاب مردکے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ خواتین کے حقوق کے
تحفظ کے لئے درجنوں قوانین بنا چکی ہے اس طرح ہر ملک نے خواتین کے حقوق کے تحفظ کے
لئے اپنے آئین میں شقیں شامل کی ہیں۔ ہندوستان کے آئین میں بھی خواتین کے حقوق کے
حوالے سے قانون سازی کی گئی ہے مگر تاحال بہت سارے اقدامات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے
جیسے گھروں میں کام کرنے والی خواتین اور بچے جن پرمختلف طریقوں سے تشدد کیا جاتا
ہے۔ دفتروں میں کام کرنے والی خواتین کے مسائل ہیں۔ سرکاری اورپرائیویٹ سیکٹر جہاں
خواتین کام کرتی ہیں وہاں ان کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں واقعات سامنے آتے
رہتے ہیں۔
افسوس تو یہ ہے کہ ازل سے لے کر آج کے جدید دور تک خواتین متاثرہ، استحصال زدہ،
پریشان اور حوس کا شکار بنتی رہی ہے۔ یہ سچ ہے کہ خاندانی نظام کے تسلط کی وجہ سے
عورت کی زندگی ہمیشہ پابندی میں رہی۔ اس پر گھر کی اور بچوں کی ذمہ داری اس طرح ڈال
دی گئی گویا یہ اس فرد واحد کی ذمہ داری ہے اور شوہر پر بچوں کی تعلیم و تربیت کی
کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ لیکن جب معاشی ضرورتوں کو پر کرنے کی بات آتی ہے اور
شوہر کو اپنی شریک حیات کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ پیچھے نہیں ہٹتی۔ دراصل عورت
ہر محاز پر مرد کا ساتھ دیتی ہے لیکن یہی مرد عورتوں کا استحصال کرتے ہیں ۔کبھی گھر
پر اور کبھی چار دیواریوں کے باہر۔
استحصال ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے مرد عورت پر حکمرانی کر سکتا ہے۔ اس لئے آج
سماج میں عورت کے ساتھ ہونے والے جنسی، ذہنی، معاشی اور تعلیمی استحصال کا سلسلہ
روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ آج کہنے کو تو عورت زندگی کی تمام شعبوں میں پیش پیش
ہے۔ وہ زندگی میں بے معنی سے معنی خیز بن کر امتحانات اور مقابلوں میں خود کو مضبوط
بھی ثابت کر رہی ہے۔یہاں تک کہ وہ اپنے پاوں پر کھڑی ہو کر خود اعتمادی کی زندگی
بسر کر رہی ہے۔لیکن تاریخ گواہ ہے کہ آج کے سماج میں عورتوں پر ظلم کرنے اور انہیں
پریشان کرنے میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ آج کی آزاد خواتین معاشرے کی تنگ سوچ کے
سامنے بے بس اور لاچار ہے۔ جہاں اس عورت کی طرف سے اپنے حقوق کے لئے چلائی گئی ہر
مہم دم توڑتی نظر آتی ہے۔
آج بھی خواتین پڑھی لکھی ہو یا ان پڑھ، گھریلو ہو یا دفتر میں کام کرنے والی ہو اس
کے تئیں سماج ومعاشرے کا نظریہ نہایت تنگ اور محدود نظر آتا ہے۔ہمارے ذہن وسوچ کی
عکاسی اسی بات سے ہوتی ہے کہ جب ہم کسی دوسرے گھر کی لڑکی کو اپنے آس پاس کا م کرتا
دیکھتے ہیں تو اس پر فقرے کستے ہیں مذاق اڑاتے ہیں؟ آخر کیوں ۔
آج کی عورت چاہے گھر کی چاردیوارں کے اندر ہو یا گھر سے باہر ہر جگہ استحصال کا
شکار ہے۔ ابھی حال ہی میں دلی میں ہوئے اجتماعی عصمت دری کسی مہذب معاشرے کی مثال
پیش نہیں کرتا۔ اس گھنونے واقعہ نے پورے ملک کو دہلا کر رکھ دیا۔ تاہم وہ کوئی پہلا
واقع نہیں تھا اور نہ ہی آخری اس وقت سے اب تک ہرروز ایسی خبریں میڈیا میں آتی ہیں
اور گم ہوجاتی ہیں نہ جانے ابھی اور کتنی معصوموں کی جان لی جائے گی۔ آج سماج میں
عورت کو بری نظر سے دیکھنا، چھیڑ چھاڑ، جنسی زیادتی اور اغوا جیسے دردناک واقعات
اخبارات اور ٹی وی، چینلوں پر موضوع بحث بنتی جا رہی ہیں۔ پر کیا اس بحث سے کوئی
مثبت نتائج سامنے آئے ہیں ؟ نہیں بلکہ مجرموں نے تو یہ ظاہر کردیا کہ وہ نہیں
سدھریں گے؟ جو ں جوں قانون نافذ ہو رہے ہیں ؟ خاطیوں کو جرم کرنے میں مزاہ آنے لگا
ہے۔تکلیف تو اس بات کی ہے کہ عورت استحصال کی ناقابل برداشت درد کو خاموشی سے
برداشت کر رہی ہے ۔ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ آخر عورت سب کچھ خاموشی سے برداشت
کرنے پر مجبور کیوں ہے؟ کیونکہ کئی بار ہمت کر کے وہ قانون کے کٹہرے میں انصاف کے
لئے آواز تو لگاتی ہے لیکن نظام قانون کمزور ہونے کی وجہ سے ظالم رہا ہو جاتے ہیں
اور استحصال کی دوسری تاریخ رقم کرتے ہیں۔
آج بھی خاندانی ماحول کے تحت ایسے کئی ہزاروں مثالیں مل جائیں گی جہاں مرد قدم قدم
پر عورت سے تعاون کی توقع کرتے ہیں جس کی وجہ سے عورت کی اپنی حیثیت ثانوی ہو جاتی
ہے۔ آج بھی آئے دن لڑکی کے سسرال والوں کی ناجائز مانگ پوری نہ ہونے پر بہو کو
جلانے یا خود کشی کرنے کی کوشش جیسے واقعات ہوتے ہیں اور اس کے روکنے یا تھمنے کی
کہیں کوئی امید نظر نہیں آتی۔ کیونکہ ہمارا سماج بے حس ہو چکا ہے۔اسے اپنی تکلیف کے
علاوہ کسی اور کا درد نظر نہیں آتا۔ جہاں آج مظالم سے متاثر گھریلو عورت کی حالت
تشویشناک بنی ہوئی ہے وہیں کاروباری عورت بھی استحصال کے جال میں پھنسی نظر آ رہی
ہے۔اسے دفتر کے ساتھی ، سینئر اور باس کے نازیبہ سلوک کا سامنہ کرنا پڑتا ہے ۔بعض
اوقات اسے بدنامی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔خواتین کا کام بہت زیادہ ہوتا ہے گھر
میں بچوں اور خاوند کوتیار کرنا، ناشتہ بنا کر دینا پھر خود دفترکے لئے تیارہونااور
واپسی پرپھر کھانا تیار کرنا اور برتن اور کپڑے وغیرہ دھونے کا کام۔ ایک خواتین کو
ورکنگ ڈے میں ڈبل کام کرنا پڑتا ہے۔ خواتین کو دفتر اسکول اور کالج جانے کے لئے
کتنی کتنی دیر بس ا سٹاپ پرانتظار کرنا پڑتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ خواتین کے لئے
سرکاری ٹرانسپورٹ کا بندوبست کرے۔ خواتین کو جلدی ترقیاں نہیں دی جاتیں۔ ان کی
قابلیت کو تسلیم ہی نہیں کیا جاتا نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ ان کواعلیٰ عہدے نہیں
دیئے جاتے۔ خواتین کو خاتون ہونے کی سزا دی جاتی ہے۔میرٹ کی خلاف ورزی کی جاتی ہے
منظورنظر آگے آتے ہیں۔ سفارش اور رشوت کام کرتی ہے۔سرکاری ا ور غیر سرکاری محکموں
میں مردوں کی ترقیوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ہمیں اپنے معاشرے کے ذہن کوتبدیل
کرناہوگا۔یہ تو ہے شہروں کا حال -
اگر ہم ایک نظر پسماندہ علاقوں اور دیہی سماج پر ڈالے تو وہاں عورت کی حالت اور بھی
قابل رحم ہے۔ پسماندہ علاقوں اور دیہی سماج میں عورت کو ہر شعبے میں کمزور مان کر
ذہنی طور سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ آج بھی وہاں عورت کو گھر کی ملازمہ ، عیش و آرام
کی چیز اور اولاد پیدا کرنے کا آلہ سمجھا جاتا ہے عورت کو مرد کی طرح آزاد سوچ و
فکر کی چھوٹ نہیں دی جاتی ہے۔ اس کا اہم سبب ہے کہ ہمارا معاشرہ آج بھی خواتین کو
عزت و احترام دینے کے لئے تیار نہیں آج بھی اسے محض دکھاوے اور خوبصورتی کے طور پر
استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک لڑکی جب گھر کی معاشی ضرورتوں کو پر کرنے کے لئے گھر کی
چار دیواری سے باہرقدم نکالتی ہے تو اسے نئے نئے القاب و الفاظ سے نوازا جاتا
ہے۔حتیٰ کے اس کے ساتھ کام کرنے والے مرد حضرات بھی اسے پریشان کرنے اور ہراساں
کرنے کا کوئی موقع نہیں گنواتے وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی شریک حیات بھی زندگی کی
کسی نہ کسی موڑ پر مالی تعاون کے لئے گھر سے باہر نکلی ہوں گی۔
اگر ہم آج کے تعلیم یافتہ مہذب معاشرے کی حقیقی تصور کشی کریں تو ایک ایسی تصویر
ابھر کر سامنے آئے گی جہاں ہر طبقہ خواتین پر اپنا تسلط جمانا چاہتا ہے۔ ہم کہتے
ہیں کہ جاہل اور کم تعلیم یافتہ خواتین استحصال کا شکار ہوتی ہیں لیکن سچ تو یہ ہے
کہ آج سب سے زیادہ دفتروں میں کام کرنے والی اور تعلیم یافتہ خواتین کے ساتھ ہی
استحصال ہو رہے ہیں۔ تعلیم یافتہ ہو کر بھی صنف نازک کھلے عام ظلم کا شکار ہوتی
ہیں۔
ہر سال آٹھ مارچ کو’’خواتین کے دن‘‘ کی دہائی دے کر کئی اجلاس، تقریبات اور جلسے
ہوتے ہیں۔ اخباروں اور رسالوں میں خواتین اسپیشل ایشو نکالے جاتے ہیں لیکن سماج کی
سوچ میں کتنی فیصد تبدیلی ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ آئے دن ہونے والی وارداتوں سے
لگایا جا سکتا ہے۔ ان تمام وارداتوں کے پیچھے ایک بڑی وجہ ہمارے سماج اور معاشرے کی
تنگ سوچ ہے اور جب تک سوچ میں تبدیلی نہیں آئے گی تب تک نہ جانے کتنی بیٹاں اس کی
بھینٹ چڑھ چکی ہوں گی ۔
آج ہم تماشائی بنے ٹی وی چینلوں، اخباروں اور کتابوں میں وارداتوں کے قصے پڑھتے اور
دیکھتے ر ہتے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اسے بھول جاتے ہیں ہمارا ضمیر تو اس وقت
جاگتا ہے جب وہ حادثہ ہمارے کسی اپنے کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس لیے آج ضرورت ہے سماج کو
اپنی محدود سوچ وفکر میں تبدیلی لا کر ایک نیا نقطہ نظر اپنانے کی جس سے سماجی نظام
اور معاشرے میں تبدیلی آئے اور ہر ظلم اور گناہ کا مرتکب محض خواتین کو نہ ٹھرایا
جائے بلکہ مرد کو بھی اسکے کئے کی سزا ملے ۔ سوال یہ نہیں کہ حکومت کب سزا سنائے گی
بلکہ سوال یہ ہے کہ ہم کب ظلم کے خلاف اٹھ خھڑے ہوں گے ؟ہمیں ہمارے سماج اور معاشرے
کو ایسا بنانا ہے کہ کوئی گناہ کرنے کے بعد سر اٹھا کر چل نہ سکے بلکہ حکومت سے قبل
سماج اس کا بائیکاٹ کرے ۔ ہمیں سمجھنا ہو گا کہ خو اتین ہر حیثیت میں قابل عزت ہے۔
محض حکومت کو اور حالات کو مورد الزام ٹھہرانے سے کوئی نمایا اور خوشنماں تبدیلی
نہیں آنے والی ۔
آخر میں بس اتنا کہ
اپنی خرابیوں کو پس پشت ڈال کر
ہر شخص کہہ رہا ہے کہ زمانہ خراب ہے |