ٹوبہ ٹیک سنگھ ملک پاکستان کے سب
سے بڑے صوبے پنجاب کا ایک مشہور اور قدیم ضلع ہے۔اسکا نام ایک مشہور سکھ
مذہبی شخصیت ٹیک سنگھ کے نام پر رکھا گیا۔کہا جاتا ہے کہ ٹیک سنگھ وہاں سے
گزرنے والے مسافروں کو ٹوبہ نامی ایک چھوٹے تالاب سے پانی پلایا کرتا تھا ،جسکی
وجہ سے اس کا نام ٹوبہ ٹیک سنگھ رکھ دیا گیا۔اس ضلع کی تاریخ آریائی دور سے
بھی پہلے کی ہے، یہا ں کمبوجاز، داراس، مدراس، ملواس، موریا، گپتااور مغلوں
نے حکومت کی۔ اٹھارویں صدی کے اختتام پر جب برطانیہ نے نہروں کا نظام
متعارف کرایا توضلع لاہور،ہوشیارپور،جالندھر سمیت دیگرگنجان آباد علاقوں سے
لوگوں نے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا رخ کیا، جس کے نتیجے میںاس کی ترقی ہوئی۔برطانوی
دور حکومت میں یہاں سکھ آباد تھے ، جو تقسیم ہندوستان کے وقت انڈیا ہجرت کر
گئے جبکہ مسلمان ہجرت کر کے یہاں آباد ہوگئے۔آزادی ءِپاکستان کے بعد کی
تاریخ میںبھی ٹوبہ ٹیک سنگھ کا اہم کردارہے۔ اس ضلع میں منعقد ہونے
والی1970 ءکی کسان کانفرنس نے پاکستان کی سیاسی تاریخ پر گہرا اثر چھوڑا ۔اس
کانفرنس میں ملک بھر سے دو لاکھ کے قریب کسانوں اور لوگوں نے شرکت کی۔اس
کانفرنس کے نتیجے میںذوالفقار علی بھٹوکے دورحکومت میں زمینی اصلاحات کی
گئی۔اس ضلع کی مقبولیت کی بہت بڑی وجہ سعادت حسن منٹو کی کہانی’ٹوبہ ٹیک
سنگھ‘ بھی ہے۔ انہوں نے اپنی اس کہانی میں اس ضلعے کا نام شامل کیا جو اسکی
شہرت کا باعث بنا۔1982 ءمیں ٹوبہ ٹیک سنگھ کو فیصل آباد سے الگ کر کے ضلع
کا درجہ دے دیا گیا۔ اس ضلع کا کل رقبہ 3252 کلومیٹر ہے جبکہ اسکی بلندی
149کلو میٹر ہے۔ 1998 ءکے مطابق اسکی آبادی 1,621,593 جبکہ 2008ءکے اندازے
کے مطابق اسکی آبادی 1.39 ملین تک پہنچ چکی ہے۔ٹوبہ ٹیک سنگھ، شرح خواندگی
کے لحاظ سے پاکستان کے دس بڑے شہروں میں شامل ہے۔یہاں کے لوگ تعلیم یافتہ
اور جدید تعلیم کے حامل ہیں۔ اس ضلع کے دیہی اور شہری علاقوں میں ملک کی
نامورپرائیوٹ یونیورسٹیوں ،کالج اور سکول سمیت گورنمنٹ کالج اور سکول بھی
قائم ہیں۔ اسکے شہری علاقوں میں شرح خواندگی 63.15 فیصد جبکہ دیہی علاقوں
میں 47.51 فیصد ہے۔اس ضلع کی مقبول زبان پنجابی ہے۔زراعت کے لحاظ سے بھی
ٹوبہ ٹیک سنگھ ایک بہترین ضلع ہے۔یہاں کے 36.5 فیصد لوگوں کا ذریعہ معاش
زراعت ہے۔کینو،کپاس،امرود ، آم،تماٹر ،تربوز،تمباکو،پیاز وغیرہ یہاں کی
پیداوار ہیں۔معیشت کے لحاظ سے بھی یہ ضلع بہت اہمیت رکھتاہے ۔ اس ضلع میں
پاکستان کے مشہور بینکوں کی شاخیں بھی موجود ہیں۔یہاں کی مشہور جگہوں میں
منظور الٰہی فاریسٹ پارک جو کہ جھنگ روڈ پہ واقعہ ہے،سپورٹس سٹیدیم اور
وائلڈ لائف پارک شامل ہیں۔
سیاسی لحاظ سے ہر الیکشن میں یہاں میدان سجتا ہے اور امیدواروں کے درمیان
سخت مقابلہ ہوتا ہے۔اس ضلع کے مشہور سیاسی خاندان آرائیں،کھرل،راجپوت
اورسید ہیں۔ قومی اسمبلی کے تین حلقے NA-92 ،NA-93 اور NA-94 اس ضلع
میںشامل ہیں۔شجاع کالونی،چمڑہ منڈی،سرہند کالونی،قاضی سٹریٹ،ریونیو افسر
کالونی،چک نمبر 324 ،اقبال نگر،چوہدری پارک،اسلام پورہ،نیو اسلام پورہ،چک
نمبر 327 ،گارڈن ٹاﺅن، نیو گارڈن ٹاﺅن،گلبرگ،ملت ٹاﺅن،فاطمہ ٹاﺅن،تاج پوشی
پور،محلہ عید گاہ،مصطفی آباد،گوبند پورہ،عثمان نگر،طفیل نگر،راجہ
پارک،ضیاءکالونی،ستارہ کالونی،جناح کالونی، رحمان پورہ،چک نمبر331 ،چک
نمبر153،چک نمبر292،رجانا سٹی،چک نمبر286،چک نمبر388، چک نمبر330،چک
نمبر322،نور پارک،چک نمبر339 و دیگر شامل ہیں۔ یہاں کے قابل زکر رہائشیوں
میں جسٹس (ر)خلیل الرحمان رمدے،میاں محمد اسلم اور میاں فرید عباس کاٹھیا
شامل ہیں۔
ماضی میں یہاں سے محمد علی وڑائچ،حمزہ شہباز شریف،حاجی محمد اسحاق،چوہدری
خالد بشیر،محمد فرحان لطیف،حافظ اللہ اسحاق،میاں کاشف اشفاق،جنید انور
چوہدری،ریاض فتیا نہ،خالد احمد خان کھرل اوراسد الرحمان نے الیکشن لڑا۔
آئیے ہم اس ضلع میں آنے والے حلقوں کا سیاسی جائزہ لیں:
حلقہ این اے 92:
2002 ءکے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ جنیجو کے پلیٹ فارم سے امجد علی
وڑائچ نے مسلم لیگ ن کے امیدوار حمزہ شہباز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی
کے امیدوار حاجی محمد اسحاق کو شکست دی۔
امجد علی وڑائچ نے 61746 ووٹ،حمزہ شہباز شریف نے 51416 ووٹ جبکہ حاجی محمد
اسحاق نے49584 ووٹ حاصل کیے۔اس حلقہ میں رجسٹرڈ ووٹر کی تعداد 318208 تھی ۔اس
الیکشن میں167491 ووٹ کاسٹ ہوئے جبکہ4032 ووٹ منسوخ ہوئے۔
2008 ءکے انتخابات میں امجد علی وڑائچ کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے
باعث انکی بیوی بیگم فرخندہ امجد وڑائچ نے مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر،پاکستان
پیپلز پارٹی کی طرف سے چوہدری خالد بشیر نے اور مسلم لیگ ن کی طرف سے
دوبارہ حمزہ شہباز شریف نے الیکشن میں حصہ لیا۔اس الیکشن میں مسلم لیگ ق کی
بیگم فرخندہ امجد وڑائچ کوکامیابی ہوئی۔ بیگم فرخندہ امجد وڑائچ نے 69827
ووٹ جبکہ حمزہ شہباز نے 57203 ووٹ اور خالد بشیر نے42180 ووٹ حاصل کیے۔اس
حلقہ میں رجسٹرڈ ووٹر کی تعداد286827 تھی۔ اس الیکشن میں173336 ووٹ کاسٹ
ہوئے جبکہ4126 ووٹ منسوخ ہوئے۔
حلقہ این اے 93 :
2002ءکے انتخابات میں آزاد امیدوار فرحان لطیف نے پاکستان پیپلز پارٹی کے
امیدوار سابقہ سیکرٹری داخلہ حفیظ اللہ اشفاق کو بری طرح شکست دی۔فرحان
لطیف کو پاکستان مسلم لیگ ق کی حمایت حاصل تھی۔فرحان لطیف نے 81607 ووٹ
جبکہ حفیظ اللہ اشفاق نے 50597 حاصل کیے۔ اس حلقہ میں رجسٹرڈ ووٹرکی تعداد
309393 تھی۔اس الیکشن میں160778 ووٹ کاسٹ ہوئے جبکہ 3378 ووٹ منسوخ ہوئے۔
2008 ءکے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے حفیظ اللہ اشفاق کے کزن کاشف
اشفاق کو ٹکٹ دیا جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن نے جنید انور چوہدری کو ٹکٹ
دیا۔اس الیکشن میں جنید انور چوہدری کامیاب ہوئے۔اس انتخابات میں جنید انور
چوہدری نے 84061 ووٹ جبکہ کاشف اشفاق نے 64287 ووٹ حاصل کیے۔اس حلقہ میں
رجسٹرڈ ووٹ کی تعداد 289211 تھی۔اس الیکشن میں174886 ووٹ کاسٹ ہوئے جبکہ
5196 ووٹ منسوخ ہوئے۔
حلقہ این اے 94 :
2002ءکے انتخابات میں آزاد امید وار ریاض فتیانہ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے
سابق وزیر اطلاعات خالد احمد خان کو شکست دی۔ جبکہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر
جسٹس (ر)خلیل الرحمان رمدے کے بھائی اسد الرحمان نے انتخاب لڑا اور دوسرے
نمبر پر رہے۔اس الیکشن میں ریاض فتیانہ نے 67603ووٹ،خالد احمد خان کھرل نے
53164 ووٹ اور چوہدری اسد الرحمان نے44942 ووٹ حاصل کیے۔ اس حلقہ میں
رجسٹرڈ ووٹر کی تعداد 344077 تھی۔اس الیکشن میں174949ووٹ کاسٹ ہوئے جبکہ
4818ووٹ منسوخ کیے کئے۔
2008 ءکے انتخابات میںپاکستان مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر ریاض فتیانہ ،پاکستان
مسلم لیگ ن کی طرف سے اسد الرحمان جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے خالد
احمد خان کے بیٹے حیدر علی خان کھرل نے الیکشن لڑا۔ اس الیکشن میں ریاض
فتیانہ کامیاب ہوئے۔
اس انتخابات میں ریاض فتیانہ نے 63444 ووٹ ،اسد الرحمان نے 59284 ووٹ اور
حیدر علی خان کھرل نے 59348 ووٹ حاصل کیے۔ اس حلقہ میں رجسٹرڈ ووٹر کی
تعداد 314704 تھی۔ اس الیکشن میں190470 ووٹ کاسٹ ہوئے جبکہ 6040 ووٹ منسوخ
کیے گئے۔ |