ضلع بھکر پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک ضلع ہے۔ضلع بھکر
پنجاب او رخیبر پختونخواہ کے سنگم پر واقع ہے۔ اس کا مرکزی شہر بھکر ہے۔
مشہور شہروں میں بھکر اور دریا خان شامل ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے یہ صحرا
تھل میں واقع ہے۔ بھکر کی زیادہ ترآبادی اجرتی مزدوری اور زراعت سے منسلک
ہے۔ معاشی اعتبار سے بھکر ایک پسماندہ ضلع تصور کیا جاتا ہے جسکی بڑی
وجوہات مرکز سے دوری، کمزور مواصلاتی نظام، پیشہ ورانہ افرادی قوت کا فقدان،
نااہل قیادت،تعلیم کے حصول میںمشکلات اور بےروزگاری ہے۔ اسکے باوجود بھکر
صوبہ پنجاب میں قابل ذکر اجناس کی پیداوار کی وجہ سے مشہور ہے جن میں چنا،
گندم، گنا اور کرنے کا تیل ہیں۔
1998ءکی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی کا تخمینہ 10,51,456 تھا۔ ضلع
بھکر میں عمومی طور پر اردو، پنجابی، سرائیکی وغیرہ بولی جاتی ہیں۔ اس کا
رقبہ 8153 مربع کلومیٹر ہے۔ سطح سمندر سے اوسط بلندی 159 میٹر ہے۔اسے
بنیادی طور پر چار تحصیلوںمیں تقسیم کیا گیا ہے۔تحصیل بھکر،تحصیل دریا
خان،تحصیل کلورکوٹ اورتحصیل منکیرہ اسکی تحصیلیں ہیں۔یہاں سرائیکی ،اردو
اور پنجابی زبانیں بولی جاتی ہیں۔اس کے 56.6 فیصد کوگوں کا ذریعہ معاش
زراعت ہے۔تعلیم کیلئے یہاں سرکاری اور پرائیویٹ سکول وکالج موجود ہیں۔لیکن
بھکر میں کوئی بھی یونیورسٹی موجود نہیں ہے۔اسکے شہری علاقوں میں شرح
خواندگی 55.13 فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں 30.07 فیصد ہے۔صحت کے حوالے سے
ضلع بھکر میں ہسپتال اور دیگر صحت کے مراکز موجود ہیں۔بھکر” کرنہ تیل“ کے
حوالے سے بہت مشہور ہے۔یہ تیل” کرنہ“ نامی پھول سے نکالا جاتا ہے اورمشرقی
وسطیٰ میں برآمد کیا جاتاہے۔یہاں کی مشہور فصل میں چنا شامل ہے۔صنعتی
اعتبار سے بھکر میں ٹیکسٹائل اور شوگر ملز موجود ہیں۔اسکے علاوہ چھوٹی
صنعتیں بھی ہیں۔
تاریخی اعتبار سے بھکر ایک پرانا شہر ہے۔اسکی تاریخ کے بارے میں بہت سی
روایات ملتی ہیں۔ایک مکتبہ فکر کا کہنا ہے کہ بھکر کا پرانا نام سکھر تھا
جو بعد میں بھکر پڑ گیا۔بعض کے مطابق اسکا نام ڈیرہ اسمٰعیل خان کے ایک
بلوچ سردار کے نام پر رکھا گیا۔یہاں احمد شاہ ابدالی نے بھی یہاں پڑاﺅ کیا۔
برطانوی دور حکومت میں قصبہ بھکر،تحصیل بھکر کا ہیڈکوارٹر تھا جو کہ شمال
مغرب ریلوے لائن پر واقع تھا۔ بھکر کی تاریخ مین بلوچ قوم کا کردار قابل
ذکر ہے۔بلوچ دو راستوں سے بھکر پر حملہ آور ہوئے۔وہ بلوچ جو ڈیرہ اسمٰعیل
خان سے دریائے اندس کے راستے بھکر پر حملہ آورہوئے انہیں ہووت بلوچ کہا
جاتا ہے۔انکے علاوہ رند بلوچ جن میں ممدانی اور جسکانی بلوچ ہیں ،کیچ مکھن
اور سبی بلوچستان سے یہاں حملہ آور ہوئے۔بلوچ خاندان نے یہاں بہت عرصہ
حکومت کی۔قلعہ منکیرہ ہیڈ کوارٹر تھا اور بھکر منکیرہ کے مقابلے میں ایک
چھوٹا قلعہ تھا۔بلوچ خاندان نے اٹھارہوں صدی تک یہاں پر حکمرانی
کی۔عبدالغنی کھلوڑا نے بلوچ خاندان کی حکمرانی ختم کر کے یہاں قبضہ کر
لیا۔اسکے دور ھکومت میں بلوچ بکھر گئے، کچھ بلوچ لییا،بہاولپور اور کالا
موزہ چلے گئے جبکہ بعض نے جنگلوں کا رخ کر لیا۔اسکے بعد نواب مظفر نے یہاں
حکومت کی۔بعد ازاں بلوچ لیڈر محمد خان نے تمام بلوچوں کو اکٹھا کیا اور
دوباریہ بلوچ یہاں قابض ہو گئے۔1821 ءمیں یہاں سکھوں نے حکمرانی کی۔
یہ ضلع تاریخی عمارات کے حوالے سے بھی اہم ہے۔دل کشا باغ جس کے بارے میں
کہا جاتا ہے کہ یہ مغلوں کا باغ تھا جو مغل بادشاہ ہمایوں نے تعمیر کروایا
تھا۔تاریخ دان ہینری ریورٹی نے اس بات سے اختلاف کیا اور کہا کہ ہمایوں
کبھی یہاں آیا ہی نہیں۔ہمایوں نے دوسرے بھکر گیا تھا جو صوبہ سندھ میں
ہے۔بھکر کے گردپہلے دیواریں تھی ۔اس کے تین دروازے تھے جن میں تاویلا،امام
والا اور کنگ گیٹ شامل ہیں۔کنگ گیٹ برطانیہ دور حکومت میںتعمیر کروایا گیا
اور اسکا نام وہاں کے ڈپٹی کمیشنر مسٹر خان کے نام پر رکھا گیا۔بعد ازاں
اسکا نام جناح گیٹ رکھ دیا گیا۔شیخ راﺅ پل کے قریب بھکر کے بانی بھکر خان
کا مزار موجود ہے۔بلوچ فورٹریس کی جگہ اب پولیس سٹیشن ہے۔ 1981ءمیں اسے
میانوالی سے الگ کر کے ضلع کا درجہ دے دیا گیا تھا۔
یہاں کی مشہور برادریوں میں عباسی، آنگرہ، انصاری، آرائیں، اعوان، بلوچ،
بھٹی، چدھڑ، چھپ، چھڈو، چوہدری، کمبوہ، ڈھنڈھلا، گورچہ، کھوکھر، لودھی،
قریشی، رانا،سید، نیازی، اور سیال شامل ہیں۔مشہور شخصیات میں قاری وقار
احمداور نعیم اللہ شاہانی ہیں۔اس ضلع کے مشہور سیاسی خاندان شاہانی،ڈھنڈلا
اور خان خیل ہیں۔
اس ضلع میں قومی اسمبلی کے دوحلقے اورصوبائی اسمبلی کے چار حلقے شامل ہیں۔
اس کے قومی اسمبلی کے حلقوں میں این اے73 اور این اے74 ہیں جبکہ صوبائی
اسمبلی کے حلقوں میں پی پی47،پی پی48،پی پی49 اورپی پی50 شامل ہیں۔
اس ضلع کے ووٹرز کی تعداد 711924ہے جن میں مرد ووٹرز کی تعداد398581 اور
خواتین ووٹرز کی تعداد 313343ہے۔ضلع بھکر کے پولنگ سٹےشنوں کی تعداد 617ہے
۔ اس ضلع55پولنگ سےٹشنوں کو انتہائی حساس قرار دے دیا گیا ہے۔
ماضی میں یہاں سے چوہدری شجاعت حسین،ملک غلام سرور، عبدالمجید خان خیل،علی
اصغر،محمد ثناءاللہ خان مستی خیل،محمد طارق خان نیازی،حفیظ اللہ خان
ایڈوکیٹ،محمد افضل خان ڈھنڈلا،رشید اکبر خان،مرید حسین شاہ،مولانا محمد سفی
اللہ،عامر محمد خان،محمد ارشد فاقر،سعید اکبر خان،ملک عادل حسین،مرید حسین
شاہ و دیگر نے انتخابات میں حصہ لیا۔
|