ملتان پاکستان کے صوبے پنجاب کا
ایک اہم ضلع ہے۔اس ضلع کا کل رقبہ 10 ہزار8 سو مربع میل ہے۔1998 ءکی مردم
شماری کے مطابق اس ضلع کی آبادی 40 لاکھ 68 ہزار تھی۔اس ضلع میں آبادی کے
اضافے کی شرح 3.13 ہے۔یہاں کے 73 فیصد لوگ دیہات میں رہتے ہیں۔ اسکے شہری
علاقوں میں شرح خواندگی 60.90 فیصد جبکہ دیہاتی علاقوں میں 29.47فیصد
ہے۔یہاں کے 25.5 فیصد لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت ہے۔ضلع ملتان تین تحصیلوں
پر مشتمل ہے۔تحصیل کبیر والہ، تحصیل شجاع آباد اورتحصیل ملتان اسکی تین
تحصیلیں ہیں۔اس ضلع میں 1629 گاﺅں ہیں۔بارش کی سالانہ اوسط 152 ملی میٹر
ہے۔اس ضلع میںجنگلات کا رقبہ 9327 ہے۔علاقے کو سیراب کرنے کیلئے تین دریاﺅں
راوی،ستلج اور چناب سے نہریں نکالی گئی ہیں جن میں میلسی نہر،لوئر باری آب
اور نیلی بار قابل ذکر ہیں۔زرعی پیداوار میں گندم،کپاس،چاول اور گنا قابل
زکر ہیں۔آم ،سنگترہ ،لیموں ،انار اور کھجور اہم پھل ہیں۔اس ضلع میں34 بڑے
صنعتی یونٹ ہیں۔ضلع میں پختہ سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ملتان، پنجاب کی
گندم کا 35 فیصد جبکہ کپاس کا 60 فیصد مہیا کرتا ہے۔مصنوئی کھاد بھی اس ضلع
کی اہم صنعت ہے۔ملتان اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ دریائے سندھ،راوی،چناب اور
ستلج نہ صرف اسے سیراب کرتے ہیں بلکہ یہاں کہ موجود لوگوں کوغذائی ضرورت کی
مچھلی بھی مہیاکرتے ہیں۔ملتان آم کی پیداوار کے لحاظ سے بھی بہت مشہور
ہے۔پاکستان میں سب سے زیادہ آم کے باغات ملتان میں ہی ہے اور سب سے زیادہ
آم کی پیداوار بھی ملتان میں ہی ہوتی ہے۔سید قریشی ،آرائیں،کمبوہ،پٹھان،جاٹ
اور راجپوت اس ضلع کی مشہور برادریاں ہیں۔
تاریخی اعتبار سے ملتان نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیاءکا سب سے قدیم شہر
ہے۔اسے ”اولیاءکا شہر “ کہا جاتا ہے۔ماضی میں یہ شہر سنبھا
پورہ،باغاپور،لنبھا پورہ اور مولاس کے نام سے پکارا جاتا تھا۔کہا جاتا ہے
کہ اس کا نام یہاں کے ایک قدیم قبیلے مل یا ملی کی نسبت سے ملتان پرا۔ملتا
ن کا ذکر شاہنامہ فردوسی میں بھی ہے جس میں یوں لکھا ہے کہ یہ شہر 6 سو قبل
مسیح میں ایک صوبہ تھا۔ہندوؤں کی روایات کے مطابق ملتان انکی دیوی اور
دیوتاﺅں کا مسکن رہا ہے ۔اس کی مستند تاریخ سکندر اعظم کے حملے سے ملتی ہے
جو 350قبل مسیح ہوا تھا۔جنرل الیگز نڈر کننگھم نے 1953 اور 1964 میں کھدائی
کے بعد آثار قدیمہ دریافت کئے۔ان سے ثابت ہوا کہ 8 سو سال قبل مسیح میں
ملتان وادی سندھ کا ایک اہم زرخیز با ثروت حصہ اور تہذیب و ثقافت کا بڑا
مرکز رہا ہے۔راجا چچ سندھ اور ملتان کا حکمران تھا۔اس کی زندگی مین چینی
سیاح ہیواں سوانگ ملتان آیا اور اس نے اس شہر کی عظمت کا تفصیل سے ذکر
کیا۔بعض مورخین ملتان کو کئی لاکھ سال پرانا شہر قرار دیتے ہیں۔قلعہ کہنہ
کی کھدائی سے جو اشیاءبرآمد ہوئی ہیں ان سے اس امر کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ
ملتان ہڑپہ اور موئن جو دڑو یہ ایک ہی زمانے میں یعنی تقریباََ تین ہزارقبل
مسیح میں تہذیب و تمدن کے ہم عصر مراکز تھے اور اس زمانے میںملتان کو ایک
بڑا تجارتی مرکز ہونے کی حیثیت بھی حاصل تھی۔
ملتان کو اصل شہرت اسلامی عہد کے حکومت میں حاصل ہوئی۔نوجون عرب سپہ سالار
محمد بن قاسم نے اسے 712 میں فتح کیا۔یہاں قریباََ دس ہزار عرب آباد کیے
اور ایک جامع مسجد تعمیر کروائی۔تیسری صدی ہجری تک ملتانم اور اسکے مضافات
میں مدارس اور مساجد کا جال پھیل گیا اور یہ شہر علم کا گہوارہ بن
گیا۔چوتھی سدی ہجری میں اسے محمود غزنوی نے فتح کیا۔اسی زمانے میں مشہور
مفکر البیرونی یہاں آئے اور پانچ سال سے زیادہ عرصے تک ملتان مین رہے۔ان کی
تصنیف ”کتاب الہند“ میں اس زمانے کے ملتان کی علمی و ثقافتی زندگی کا تذکرہ
تفصیل سے ملتا ہے۔
بہرام شاہ غزنوی کے عہد میں حضرت شاہ یوسف گردیزی ملتان پہنچے اور قرآن و
سنت کی تعلیم کو عام کیا۔اس سلسلے کو متعدد علماءاور صوفیاءنے مزید آگے
برھایا۔مولانا حسام الدین ترمذی،بابا فرید شکر گنج کے والدمحترم اور حضرت
بہاﺅالدین زکریاءملتانی کے جد امجد حضرت کمال لادین نے اس شہر کو اپنا مسکن
بنایا اور اسے ظاہری اور باطنی علوم کا ممتاز ترین مرکز ہونے کا شرف حاصل
ہوا۔ناسر الدین قباچہ کے دور میں صرف حضرت بہاﺅالدین زکریاءکے مدرسے سے
تقریباََ 70 ہزار فارغ التحصیل ہو کر مشرق و مغرب کے ممالک میں پھیلے۔
1175 ءمیں شہاب الدین غوری نے قرامطہ فتنے کا خاتمہ کر کے اس پر قبضہ
کیا۔ناصر الدین قباچہ،رضیہ سلطانہ،جلال الدین خلجی،سلطان محمد تغلق،امیر
تیمور،خضر خان ملتانی،سلطان حسین لنگاہ،مرزا حسین ارگون،شیر شاہ
سوری،شہزادہ مراد بخش،نعمت خان میراثی،احمد شاہ ابدالی،عبدالصمد خان،نواب
مظفر خان سدوزئی،دیوان ساون مل اور دیوان محمد سراج بھی یہاں کے حکمران
رہے۔
ملتان کو یہ فخر حاصل ہے کہ اہل تصوف کے تین روحانی سلسلے سہروردیہ،چشتیہ
اور قادریہ یہیں سے پورے بر اعظم میں پہنچے۔سہروردی سلسلہ حضرت بہاﺅالدین
زکریا ملتانی سے،چشتیہ سلسلہ باب فرید جنگ شکر سے اور قادری سلسلہ حضرت
مخدوم رشید حقانی سے چلا۔نیز اس شہر کو تین بڑے حکمرانوں کا مولد ہونے کا
شرف بھی حاصل ہے،محمد تغلق،بہلول لودھی اور احمد شاہ ابدالی۔یہ تینوں ملتان
کے فرزند ہیں۔
ملتان شہر کو ”مدینتہ الاولیا“ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہاں اکابر اولیائے
کرام کے مزارات ہیں جن میں حضرت بہائالدین زکریا ،شیخ صدر الدین عارف ،شیخ
رکن دین ،حضرت شمس تبریزی،شاہ گردیز،شاہ حسین آگاہی ،سید موسیٰ پاک شہید
اور سلطان احمد قتال قابل زکر ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد ملتان نے کافی ترقی کی۔پرانا شہر تو اپنی پتلی پتلی
گلیون اور تنگ بازاروں سمیت چار اطراف سے چھ دروازوں مین گھرا ہوا ہے،یعنی
لاہوری گیٹ،پاک گیٹ،بویڑ گیٹ،دہلی گیت،حرم گیٹ اور دولت گیٹ۔اندرون شہر میں
تو کشادگی کی گنجائش ہی نہیں تھی سوائے اس کے کہ بہت ہی قدیم عمارتوں کو
منہدم کر کے نئی عمارتیں استوار کی گئیں۔البتہ بیرونی اور نواحی علاقون میں
ملتان نے بہت زیادہ وسعت اختیار کر لی ہے۔کنٹونمنت کا علاقہ بہت خوبصورت
اور جدید ہو گیا ہے۔نئی بستی گل گشت کی جدید طرز کی کوٹھیاں ،وسیع اور
کشادہ بازار ہیں۔جھیلیں اور پارک ہیں۔قاسم باغ اور قلعہ کوخوبصورت تفریح
گاہ اور قابل دید مقام بنا دیا گیا ہے۔علمی لحاظ سے ملتان نے پھر عہد رفتہ
کی سی عظمت اختیار کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔طبی تعلیم کیلئے نشتر میڈیکل
کالج ہے۔قانون کی تعلیم کیلئے لاءکالج ہے۔جدید ساینسی علوم کیلئے بہاءالدین
زکریا یونیورسٹی ہے۔دینی تعلیم کیلئے ہر مسلک کے ادارے موجود ہیں جن میں
قاسم العلوم،جامع العلوم،خیر المدارس،باب العلوم اور انوار العلوم ملک گیر
شہرت حاصل ہے۔
ملتان کے چار مشہور تحفے ہین،گرد،گرما،گدا و گورستان۔مشہور چیزیں یہ
ہیں،روغنی ٹائل اور ظروف،چرمی اشیائ،ہاتھی دانت کی چوڑیاں،نقرائی
زیورات،اونٹ کی کھال کا آرائشی سامان۔ملتانی سوہن حلوہ جسے بین الاقومی
شہرت حاصل ہو گئی ہے۔ایک راگ بھی ملتان کے نام سے مشہور ہے جسے راگ ملتانی
کہا جاتا ہے۔یہ راگ دن کے تیسر پہر گایا جاتا ہے۔
اس ضلع کے مشہور علاقوں میںبوسن،شاہ رکن عالم ،ممتاز آباد،شیر شاہ،شجاع
آباد،جلال پور پیر والہ،ملتان کنٹونمنٹ،تیس فٹی شامل ہیں۔
اس ضلع میں قومی اسمبلی کے چھ حلقے جبکہ صوبائی اسمبلی کے حلقے شامل
ہیں۔اسکے قومی اسمبلی کے حلقوں میں این اے148،این اے149،این اے150،این
اے151،این اے152،اوراین اے153 شامل ہیں جبکہ اسکے صوبائی اسمبلی کے حلقوں
میں پی پی194،پی پی195،پی پی196،پی پی197،پی پی198،پی پی199،پی پی200،پی
پی201،پی پی202،پی پی203،پی پی204،پی پی 205اورپی پی206 شامل ہیں۔
ماضی میں یہاں سے سید یوسف رضا گیلانی، مخدوم شاہ محمود قریشی، مخدوم محمد
جاوید ہاشمی،رائی منصب علی ،ملک صلاح الدین ،شیخ محمد طاہر رشید،رانا محمود
الحسن،سید عبدالقادر جیلانی،فضل احمد شیخ ، مخدوم سید اسد مرتضیٰ
گیلانی،دیوان سید عاشق حسین بخاری،دیوان سید محمد حیدر عباس بخاری ،دیوان
سید جعفر حسین بخاری و دیگر نے انتخابات میں حصہ لیا۔
این اے 148 :
2008 کے انتخابات میں یہاں سے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوارمخدوم شاہ
محمود قریشی،پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار مخدوم محمد جاوید ہاشمی اور
پاکستان مسلم لیگ ق کے امیدوار رائی منصب علی نے انتخابات میں حصہ لیا۔اس
انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوارمخدوم شاہ محمود قریشی 83184
ووٹ لے کامیاب ہوئے۔اس حلقہ کے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 344896 جبکہ منسوخ
شدہ ووٹ کی تعداد2968 تھی۔
این اے 149 :
2008 کے انتخابات میں یہاں سے پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار مخدوم محمد
جاوید ہاشمی، پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوارملک صلاح الدین اور پاکستان
مسلم لیگ ق کے امیدوارشیخ محمد طاہر رشیدنے انتخابات میں حصہ لیا۔اس
انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار مخدوم محمد جاوید ہاشمی70864
ووٹ لے کامیاب ہوئے۔اس حلقہ کے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 427253جبکہ منسوخ شدہ
ووٹ کی تعداد1557 تھی۔
این اے 150 :
2008 کے انتخابات میں یہاں سے پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار رانا محمود
الحسن، پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوارسید عبدالقادر جیلانی اور پاکستان
مسلم لیگ ق کے امیدوارفضل احمد شیخ نے انتخابات میں حصہ لیا۔اس انتخابات
میں پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار رانا
محمود الحسن57774 ووٹ لے کامیاب ہوئے۔اس حلقہ کے رجسٹرڈ ووٹرز کی
تعداد399931جبکہ منسوخ شدہ ووٹ کی تعداد1339 تھی۔
این اے 151 :
2008 کے انتخابات میں یہاں سے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوارسید یوسف رضا
گیلانی،پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوارملک ماجد بچہ اور پاکستان مسلم لیگ ق
کے امیدوارسکندر حیات خان بوسن نے انتخابات میں حصہ لیا۔اس انتخابات میں
پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوارسید یوسف رضا گیلانی77664 ووٹ لے کامیاب
ہوئے۔اس حلقہ کے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 351092جبکہ منسوخ شدہ ووٹ کی
تعداد2810 تھی۔
این اے 152 :
2008 کے انتخابات میں یہاں سے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوارلیاقت علی
خان، پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار مخدوم سید اسد مرتضیٰ گیلانی اور
پاکستان مسلم لیگ ق کے امیدوارسید مجاہد علی شاہ انتخابات میں حصہ لیا۔اس
انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوارلیاقت علی خان47880 ووٹ لے
کامیاب ہوئے۔اس حلقہ کے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 336035جبکہ منسوخ شدہ ووٹ کی
تعداد3599تھی۔
این اے153 :
2008 کے انتخابات میں یہاں سے پاکستان مسلم لیگ ق کے امیدواردیوان سید عاشق
حسین بخاری، پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدواردیوان سید جعفر حسین بخاری اور
پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدواردیوان سید محمد حیدر عباس بخاری نے انتخابات
میں حصہ لیا۔اس انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ق کے امیدواردیوان سید عاشق
حسین بخاری69246 ووٹ لے کامیاب ہوئے۔اس حلقہ کے رجسٹرڈ ووٹرز کی
تعداد350676جبکہ منسوخ شدہ ووٹ کی تعداد6271 تھی۔ |