ضلع سیالکوٹ پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک ضلع ہے۔ یہ پنجاب کے شمال مشرق
میں واقع ہے۔اس کا قریبی دریا دریائے چناب ہے۔اسکے قریب میٹروپولیٹن شہر
لاہور ہے۔ضلع سیاکوٹ مقبوضہ جموں کشمیر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے
اوراس کا مرکزی شہر سیالکوٹ ہے۔ سیالکوٹ کی تاریخ ہزاروں سال پرانی
ہے۔سیالکوٹ کی تاریخ 500 صدی عیسوی سے ملتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ سیالکوٹ کو
راجہ صلہ نے آباد کیا اور پھر وکرم آدیتیا کے دور میں راجہ صلی وہان نے اسے
دوبارہ آباد کیا۔ یہاں دسویں صدی کے قلعے بھی موجود ہیں جو 1181 ءمیں محمود
غوری کے دور میں بنائے گئے یہ قلعے آج بھی تاریخ رفتہ کی یادگار ہیں۔ اس
شہر کی تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ یہاں مختلف ادوار میں مختلف تہذبوں نے
حکمرانی کی ان میں ہندو ،بدھ مت،فارسی،یونانی،افغان،ترک،سکھ اور انگریز اور
مسلمانوں کی نے حکومت شامل ہے۔
پاکستان اور تحریک پاکستان میں بھی اس شہر کا بہت اہم حصہ ہے اور بہت گہرا
تعلق ہے اس گہرے تعلق میں قابل ذکر تعلق شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ کے
حوالے سے ہے ۔ علامہ محمد اقبالؒ 1877 ءمیں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے،جنہوں نے
برصغیر کے مسلمانوں کوخواب غفلت سے بیدار کیا۔مئی 1944 ءمیں یہاں سیالکوٹ
کنوینشن ہوا جس نے آل انڈیا مسلم لیگ کو پنجاب میں شہرت دی۔اس کنونشن میں
محمد علی جناحؒ،لیاقت علی خان ،چوہدری نصیر احمدملہی،خواجہ نظام
الدین،سردار عبدالرب نشتر،ممتاز احمد خان دولتانہ،نواب افتخار حسین خان
ممدوٹ اور مولوی تمیز الدین نے شرکت کی ۔ اقوام عالم میں پاکستان کا تصور
پیش کرنے والے ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کی اسی شہر سیالکوٹ میں ڈیڑھ سو سال کے
عرصہ سے زاہد پرانی عمارت اقبال منزل اس وقت خستہ حالی کا شکار ہے یہ عمارت
علامہ اقبال ؒکے حوالے سے ہمارے لئے کسی بھی طرح ایک قیمتی اثاثے سے کم
نہیں ہے یوں تو ماضی میں بھی اس عمارت پر ایک کروڑ چالیس لاکھ روپے خرچ کئے
گئے تھے تاکہ اس کی حالت میں بہتری آ جائے اور اس قومی ورثے کو محفوظ کیا
جا سکے لیکن اتنی لاگت صرف ہونے کے باوجود علامہ اقبال ؒکے اس آبائی مکان
کی حالت بہتر نہیں بنائی جا سکی ۔ شہر کے محلہ کشمیریاں میں واقع اقبال
منزل 152 سال قبل 1861ءمیں خریدی گئی تھی ، تاریخی اہمیت کی حامل اس اقبال
منزل کو قیام پاکستان کے بعد حکومت نے قومی ورثہ قراردے کر1971ءمیں علامہ
اقبال ؒکے ورثاءسے خرید لیا۔ قوم کے مستقبل کو گزرے ہوئے اس حسین ورثے کی
اہمیت سے آشنا کرنے کے لئے حکومت نے علامہ اقبال ؒ کے ورثاءسے یہ منزل
خریدنے کے بعد اس اہم قومی ورثہ کو آثار قدیمہ کے حوالے کردیا گےا تا کہ اس
کی حفاظت بہت طور پر کی جا سکے لیکن افسوس کہ آثار ق قدیمہ والوں نے اس کی
طرف توجہ نہ دی اور اقبال منزل کو بے رحمی کے ساتھ بے یارورمددگار چھوڑ دیا
ہے اور جس قدر اس منزل کومحکمے کی توجہ کی ضرورت تھی اتنی ہی لا پروائی
برتی گئی جس کے نتیجے میں اقبال منزل کے اطراف سے گزرنے والے گندے نالوں کی
وجہ سے اقبال منزل کی بنےادیں کمزور ہو چکی ہیں، اور اس منزل کے عقبی حصہ
کی کمزور ہو جانے والی دیواروں کو کھڑا رکھنے کیلئے آہنی سہارے دیئے گئے
ہیں ، جبکہ اقبال منزل کی اندرونی حالت بھی ٹھیک نہےں۔ فرش جگہ جگہ سے
اکھڑا ہوا ہے جبکہ سیڑھےوں کی حالت بھی کافی خستہ ہے۔اقبال منزل میں موجود
لکڑی کی الماریاں بھی اپنی حالت زار پر نالاں دیکھائی دیتی ہیں ۔یوں تو
علامہ اقبال کی محبت کا دم بھرے والے صرف سیالکوٹ میں ہی نہیں بلکہ پورے
پاکستان سمت دنیا بھر میں موجود ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اقبال منزل
کی مرمت اور دیکھ بھال کیلئے کسی نے پہل نہیں کی اسکے علاوہ یہاں سے منتخب
ہونے والے کسی بھی سیاسی نمائندے نے بھی کبھی اپنی ترقیاتی گرانٹ سے اس
منزل کی مرمت کے لئے آج تک کوئی ترقےاتی گرانٹ نہیں دی ، بلکہ سیالکوٹ سے
مسلسل چار مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے مرکزی
رہنما خواجہ آصف نے آج تک اپنے حلقہ انتخاب کے علاقہ میں واقعہ اقبال منزل
کا دورہ نہیں کیا۔ اقبال منزل کے نگراں ریاض نقوی نے گذشتہ سال بتایا تھا
کہ اقبال منزل کا آج تک لاکھوں لوگ معائنہ کر چکے ہیں تاہم اس تاریخی قومی
ورثہ کوسب سے زےادہ خطرہ گندے پانی کے نکاس کے نالے اورنالیوں سے ہے۔ ماہر
اقبالیات پروفےسر اعجاز احمد بٹ کے مطابق اقبال منزل ملک وقوم کا قیمتی
اثاثہ ہے جسے آنے والی نسلوں کےلئے محفوظ کرنا وقت کی ضرورت ہے اور یہ قومی
ورثہ شہر سیالکوٹ کی اہم پہچان بھی ہے۔
چونڈہ کی عالمی جنگ عظیم دوئم میںکارسک وار کے بعدٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ
تھی۔ آزادی ِ پاکستان کے وقت انڈیا سے بہت سے مسلمان ہجرت کر کے پاکستان
آگئے۔پٹھان کوٹ،گورداسپور اور مشرقی پنجاب سے بہت سے مسلمان ہجرت کر کے
سیال کوٹ آ کر آباد ہوگئے۔آج سیالکوٹ کی زیادہ تر آبادی انہی مہاجرخاندانوں
پر مشتمل ہے۔
1965 ءکی جنگ میں سیالکوٹ کے عوام نے پاکستانی افواج کا بھرپور ساتھ
دیا۔جنگ عظیم دوئم کے بعد 1965 ءکی جنگ میں سیا لکوٹ میں زیادہ شدت
تھی۔1966 ءمیں حکومت پاکستان نے سیالکوٹ کے عوام کو1955 ءکی جنگ میں بلند
حوصلے کی وجہ سے حلال استقلال کے اعزاز سے نوازا۔1971 ءکی جنگ میں دوبارہ
سیالکوٹ میں شدت آئی۔ان میں قابل ذکر بسنتار کی جنگ تھی جو سیالکوٹ شکر گڑھ
کے علاقے میں ہوئی۔
سیالکوٹ کی آب و ہوا مرطوب ہے ، یہاں گرمیوں کے موسم میں شدید گرمی جبکہ
سردیوں میں شدید سردی ہوتی ہے۔سردیوں میں اسکا درجہ حرارت سفر ڈگری تک بھی
پہنچ جاتا ہے۔مون سون کے موسم میں یہاں بارشیں ہوتی ہیں جو سیلاب کا باعث
بنتی ہیں۔سیالکوٹ کی آبادی 40,00,000 کے قریب ہے۔یہاں کی آبادی کا زیادہ تر
حصہ پنجابی،کشمیری اور پشتونوں پر مشتمل ہے۔یہاں کی مشہور شخصیات میں علامہ
محمد اقبالؒ کے علاوہ پاکستان کے نامور شاعر فیض احمد فیض،امجد اسلام
امجد،رجیندرسنگھ بیدی(1915-1984)(اردو شاعر،ڈرامہ نگار،فلم ساز) شامل
ہیں۔مشہور شخصیات میں سے بیشتر سیالکوٹ سے ہجرت کر کے انڈیا چلی گئیں۔
یہاں کی مشہور جگہوں میں حضرت امام علی الحق کا مزار،گرو نانک کا مزار،راجہ
تیج سنگھ کا مندر،سیالکوٹ قلعہ کی باقیات،پوراں کا کنواں اور اقبال
منزل،سیرت سٹڈی سنٹر،میری کالج و دیگر شامل ہیں۔خیابان اقبال پارک،گلشن
اقبال پارک اور گیرژن پارک شامل ہیں۔اسکے دیگر مشہور شہروں جگہوں میں تالاب
مولا بخش اور رام تالائی ہیں۔تالاب مولا بخش وہ جگہ ہے جہاں مئی 1944 ءمیں
آل انڈیا مسلم لیگ کا سیالکوٹ کنونشن ہوا تھا۔سیالکوٹ، پاکستان کے صوبہ
پنجاب کا ایک اہم شہر ہے جو دریائے چناب کے کنارے واقع ہے۔ 30 لاکھ آبادی
والا یہ شہر لاہور سے 125 کلومیٹر دور ہے جبکہ مقبوضہ جموں سے صرف چند
کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ پاکستان کا ایک اہم صنعتی شہر ہے جو کہ
کافی مقدار میں برآمدی اشیا جیسا کہ سرجیکل، کھیلوں کا سامان، چمڑے کی
مصنوعات اور کپڑا پیدا کرتا ہے۔ سیالکوٹ کی برآمدات 1,000 ملین امریکی ڈالر
سے تجاوز کر چکی ہیں۔ سیالکوٹ کو شہر اقبال بھی کہا جاتا ہے، عظیم مسلمان
فلسفی شاعر، قانون دان اور مفکر علامہ محمد اقبال بتاریخ 9نومبر1877
سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔مشہور شہروں میں سیالکوٹ، پسرور، ڈسکہ اور ظفروال
شامل ہیں۔ 1998ءکے میں کی آبادی کا تخمینہ 27,23,481 تھا۔ ضلع سیالکوٹ میں
عمومی طور پر پنجابی، اردو وغیرہ بولی جاتی ہیں۔ اس کا رقبہ 3016 مربع
کلومیٹر ہے۔ سطح سمندر سے اوسط بلندی 265 میٹر (869.42 فٹ) ہے۔اسے انتظامی
طور پر چار تحصیلوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جو درج ذیل ہیں۔
تحصیل پسرور
تحصیل ڈسکہ
تحصیل سیالکوٹ
تحصیل سمڑیال
2007 ءکی ایک سروے رپورٹ کے مطابق یہاں 30 فیصد جٹ،13 فیصدآرائیں،14
فیصدراجپوت،25 فیصدگجرااور 5 فیصددوسری برادریاں شامل ہیں۔سیالکوٹ ایئرپورٹ
کا رن وے پاکستان کا سب سے بڑا رن وے ہے جس کی لمبائی تین عشاریہ چھ
کلومیٹر ہے اور اس پر دنیا کا سب سے بڑا طیارہ ائیربس تین سو اسی بھی لینڈ
کرسکتا ہے۔ اس ایئرپورٹ پر دو ارب ساٹھ کروڑ روپے لاگت آئی ہے۔ نجی شعبہ کی
طرف سے تعمیر ہونیوالے مذکورہ ایئرپورٹ پر بیک وقت بوئنگ 747 ایئرکرافٹ اور
4 بڑے ایئرکرافٹس کی پارکنگ کی گنجائش ہے۔ سیالکوٹ سے بین الاقوامی پروازوں
کا آغاز ۱۵ فروری ۲۰۰۸ ءکو ہوا۔ قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کی پرواز پی کے
۲۳۹ ،239-PK صبح ۱۰ بجے کویت کے لئے روانہ ہوئی۔
کھیل کے دوسرے سامان کے ساتھ ،سیالکوٹ کے فٹبال پوری دنیا میں مقبول
ہیں۔ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں ہاتھ سے بنے ہوئے فٹبال میں 80-85
فیصد سیالکوٹ کے بنے ہوئے ہوتے ہیں۔1994 ءاور1998 ءکے فٹبال ورلڈ کپ کیلئے
فٹبال سیالکوٹ سے بنوائے گئے تھے۔
سیالکوٹ سابقہ سپیکر نیشنل اسمبلی چوہدری عامر حسین کا آبائی ضلع ہے۔
یہاں کی زمینی پیداوار میں گندم،چاول،گنا،آلو وغیرہ شامل ہیں۔
ضلع سیالکوٹ کشمیری،آرائیں ،گجر،پٹھان ،مغل اور قریشی برادریاں آباد
ہیں۔یہاں زیادہ تر ووٹ کا فیصلہ نسلی بنیاد پر کیا جاتا ہے لیکن یہاں پر
موجود بااثر صنعتکار اور بزنس مین بھی الیکشن میں اثر انداز ہوتے ہیں اور
شہری علاقوں سے الیکشن میں حصہ بھی لیتے ہیں۔
اس ضلع میں دو بڑی لائبریریاں ،متعددگورنمنٹ و پرائیویٹ سکول اور کالج
ہیں۔سویڈن کے تعلق سے یہاں گارنمنٹ نے ایک انجیئنرنگ یونیورسٹی جبکہ
پولیٹیکنک انسٹیٹیوٹ اور ایک میڈکل کالج بھی موجود ہے۔اسکے 19.5 فیصد لوگوں
کا ذریعہ معاش زراعت ہے۔32.2 فیصد لوگ دیگر ذریعہ معاش سے روزگار کماتے
ہیں۔ اسکے شہری علاقوں میں شرح خواندگی 72.32فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں
53.84 فیصد ہے۔اسکے گنجان آباد علاقوں میں آدم کے گاﺅں،بدوکے چیمہ،جام کے
چیمہ،جانے والی،قاقے والی ،گاﺅں، پسور، چوندہ،کپور پور،خان ججا،کوٹلی
لودھراں،ڈالو والی،سیالکوٹ،شمسہ چیمہ،سمبڑیال،ساھو والا،مان
پور،پسرور،وان،ڈسکہ وغیرہ شامل ہیں۔
سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے نامور کھلاڑیوں میں عبدالرحمان،شعیب ملک،رضا
حسن قابل ذکر کھلاڑی ہیں۔
سیالکوٹ سے قریباََ 2000 سرجری کے آلات بیرون ممالک برآمد کیے جاتے
ہیں۔سیالکوٹ کا کاغذ جو کہ مان سنگھی کاغذ کے نام سے مشہور ہے پوری دنیا
میں مقبول ہے اسکی تاریخ مغل بادشاہ اکبر کے زمانے سے جاملتی ہے۔سیالکوٹ
پاکستان کے سب سے زیادہ ترقیافتہ شہروں میں سے ایک ہے، یہ پاکستان کی
سپورٹس انڈسڑی ، اور آلات جراحی کا مرکز ہے ۔سیالکو ٹ شہر کے ساتھ انڈیا کا
بارڈر ہے۔ پاکستان میں پہلا انٹرنیشنل ائر پورٹ پرائیویٹ سیکٹر کے تعاون سے
سیالکوت میں بنا۔ سابق سپیکر قومی اسمبلی امیر حسین کا ضلع پیدائش سیالکوٹ
ہے،سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک اور سیاستدان ، خواجہ صفدر کا بھی کا
بھی سپیکر اسمبلی منتخب ہونا ممکنات میں سے تھا جب 1985کے غیر جماعتی
انتخابات میں ملٹری ڈکٹیٹڑ ضیا ءالحق نے سید فخر امام کو سپیکر قومی اسمبلی
بنایا۔
پاکستان کے دوسرے علاقوں کی طرح سیالکوٹ میں بھی لوگوں کی اکثریت برادری کی
بنیاد پر ووٹ ڈالتی ہے۔ سیالکوٹ کی بڑی برادریاں”کشمیری، آرائیںاور گجر“
ہیں۔ تاہم شہری علاقوں میں بڑے بڑے صنعتکاروں اور تاجروں کی بھی عمل دخل ہے
اور وہ اس ضلع کے شہری علاقوں سے الیکشن جیتتے آئیں ہیں۔
ائر پورٹس اور فٹبال انڈسٹری سیالکوٹ کی بڑی وجہ شہر ت ہیں۔سیالکوٹ کی شہری
اپنی شجاعت کی باعث مشہور ہیں ۔ جب انڈین فوجوں نے 1965کی جنگ میں پاکستانی
علاقوں میں گھسنے کی کوشش کی تو دوسری جنگ عظیم کے بعد جو سخت ترین معرکہ
دیکھنے آیاوہ سیالکوٹ کے علاقے چوندا میں تھا۔
اسکے علاقوں میں علی پر ستی،علی والی،فتح پور،مراد پور،لنگر واہ،پیر
آباد،سلطان پور،اوپل،سیت پور،شاہ پور،ملک خیل،بیر بند،بکانی،جتوئی سٹی،
شہباز پور،وانس،کوٹلہ گمان،بدھ،احسان پور،کوٹ ادو،،منہان،محمود کوٹ،تھٹہ
گمرانی،احمد موہانا،گل والا،گنگا،لٹکاراں،نوحن والی،عثمان کوریا و دیگر
شامل ہیں۔
حلقہ جات
سیالکوٹ میں قومی اسمبلی کے حلقوں کی تعداد 5جبکہ صوبائی اسمبلی کے حلقوں
کی تعداد 10ہے۔
ماضی میں یہاں سے خواجہ محمد آصف، محمد ریاض،زاہد پرویز الیاس بشیر ،چوہدری
امیر حسین ،ادریس باجوہ،ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان،امیر حسین ،چوہدری اختر علی
، عمر احمد گھمن،رانا عبدالستار خان ،سید مرتضٰی امین، چوہدری شجاعت حسین ،
سید علی اسجد ملہی،ڈاکٹر ظہیر حسن رضوی،زاہد حامد خان، غلام عباس،چوہدری
عبدالستار نے انتخابات میں حصہ لیا۔
NA-110
2002کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے خواجہ محمد آصف نے مسلم لیگ ق سے تعلق
رکھنے والے ایک بڑے بزنس مین محمد ریاض کو 4000ووٹس سے شکست دی تھی، ۔
خواجہ آصف کے والد خواجہ صفدر ضیا ءالحق کی مجلسِ شوریٰ کے چیئرمین رہے
تھے۔ 2008کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن ہی کے خواجہ محمد آصف
73007ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ، جبکہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر زاہد پرویز
الیاس بشیر 32157ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے، مسلم لیگ ق کے میاں محمد
ریاض 9458لے کر تیسرے نمبر پر رہے ۔ 1988کے الیکشن سے مسلم لیگ ن اس حلقہ
سے مسلسل کامیاب ہوتی آئی ہے۔ 2008 کے انتخابات میں ٹوٹل رجسٹر ڈ ووٹ
275969تھے، جبکہ درسٹ کاسٹ شدہ وووٹ 114825تھے جبکہ 3295ووٹ ضائع ہوئے ،
ٹرن آﺅٹ کی شرح 42.8رہی۔
NA-111
ُٓ2002کے انتخابات میں مسلم لیگ ق کے چوہدری امیر حسین نے پاکستان مسلم لیگ
ن کے ادریس باجوہ کو بہت سخت مقابلے کے بعد شکست دی۔ 2008کے انتخابا ت میں
مسلم لیگ ن دوبارہ ادریس باجوہ کو ٹکٹ دیا، جبکہ پیپلز پارٹی نے ڈاکٹر
فردوس عاشق اعوان کو ٹکٹ دیا جبکہ ق لیگ کی طرف سے سابق سپیکر قومی اسمبلی
امیر حسین ہی ٹکٹ ہولڈر رہے، فردوس عاشق اعوان نے 78925ووٹ حاصل کیے ، مسلم
لیگ ن کے ادریس باجوہ نے 38193ووٹ جبکہ مسلم لیگ ق کے امیر حسین نے
46372ووٹ حاصل کیے۔ اس حلقہ میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 307465ووٹس حاصل
کیے، درست کاسٹ شدہ ووٹس کی تعداد 163783تھی، جبکہ 7536ووٹس ضائع ہوئے۔2008
میں ٹرن آﺅ ٹ کی شرح 55.72تھی۔فردوس عاشق اعوان 2002 کے انتخابات میںعورتوں
کی مخصوص نشست پر مسلم لیگ ق کے ٹکٹ سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئیں
تھیں،اور پارلیمانی سیکرٹری بھی بنیںتھیں تاہم 2007 میں انہوں نے اپنی نشست
سے اسعففٰی دے دیا اور پیپلز پارٹی میں شا مل ہوگئیں۔
امیر حسین یہ سیٹ88 19کے انتخابات سے لے کر اب تک دو مرتبہ الیکشن ہارے
ہیں، 1993میں وہ چوہدری اختر علی سے الیکشن ہارے تھے تاہم 1997کے انتخابات
میں وہ اختر علی کے بیٹے خوش اختر صبحانی کو شکست دی۔
حلقہ این اے 112
پاکستان مسلم لیگ ق کے کامیاب بزنس مین عمر احمد گھمن نے مسلم لیگ ن کے سید
مرتضٰی امین کو بھاری مارجن سے شکست دی۔گھمن وزیر مملک بنے لیکن حکومت کے
اختتام پر واپس امریکہ چلے گئے،2008 کے انتخابات میں مسلم لیگ ق کے صدر
چوہدری شجاعت حسین نے الیکشن لڑا، پیپلز پارٹی کی طرف سے سلطان سکندر گھمن
اور پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف سے رانا عبدالستار خان نے الیکشن لڑا۔ رانا
عبدالستار خان بھاری اکثریت سے الیکشن جیتے۔ رانا عبدالستار کے حق میں
92182 ووٹ،چوہدری شجاعت حسین کے حق میں 42713ووٹ جبکہ سکندر سلطان گھمن کو
29477ووٹ پڑے۔2008میں ووٹرز کی کل تعداد302932تھی جبکہ صحیح کاسٹ شدہ ووٹس
کی تعداد 164695تھی اور ضائع شدہ ووٹس کی تعداد 4979تھی۔اس حلقہ میں ٹرن
آﺅٹ کی شرح 56.1تھی
حلقہ این اے 113
پاکستان مسلم لیگ ق کے سید علی اسجد ملہی نے پاکستان پیپلز پارٹی کے سلطان
سکندر گھمن کو ...........ووٹس سے شکست دی جبکہ مسلم لیگ ن کے ظفر حسین گل
تیسرے نمبر پر رہے۔2008 کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے ڈاکٹر
ظہیر حسن رضوی، پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف سے سید مرتضٰی امین جبکہ مسلم
لیگ ق کی طرف سے علی اسجد ملہی کو ٹکٹ دی۔مسلم لیگ ن کے صاحبزادہ مرتضٰی
امین نے 77819ووٹ حاصل کر کے مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی کو بھاری اکثریت
سے شکست دی، علی اسجد ملہی نے 39186ووٹس ، جبکہ ڈاکٹر زہیرالحسن رضوی نے
31996ووٹس حاصل کیے۔ اس حلقہ میں رجسٹرڈ ووٹر ز کی تعداد 292273تھی جبکہ
درست کاسٹ شدہ ووٹس کی تعداد 155414اورضائع شدہ ووٹس 5996تھی جبکہ ٹرن آﺅٹ
کی شرح 55.23تھی۔
حلقہ این اے 114
2002کے انتخابات میں جو سابق گورنر پنجاب شاہد حامد کے بھائی ہیںزاہد حامد
خان ، نے پاکستان پیپلز پارٹی کے غلام عباس کو باآسانی شکست دی اور منسٹر
پرائیویٹائزیشن اور انوسٹمنٹ بنے تاہم 2008میںمسلم لیگ ق کی طرف سے ٹکٹ نہ
ملنے پرانہوں نے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور دوبار ہ کامیاب
ہوئے۔مسلم لیگ ق کی طرف سے چوہدری عبدالستار نے 56343ووٹس حاصل کیے، زاہد
حامد نے 62362ووٹ حاصل کیے جبکہ پیپلز پارٹی کے غلام عباس نے 55797ووٹس
حاصل کیے۔2008میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 305217تھی ، درست کاسٹ شدہ ووٹس
175113تھی جب مسترد شدہ ووٹ کی تعد 6008تھی۔ٹرن آﺅٹ کی شرح 59.34رہی۔ |