کیا عورت مرد کی دشمن ہے۔؟

مرد اور عورت عائلی زندگی کی بنیادی اکائی ہیں کوئی بھی خاندان کوئی بھی گھر نہ تو مرد کے بغیر اور نہ ہی عورت کے بغیر تکمیل پا سکتا بلکہ وجود ہی نہیں پا سکتا ہے عورت مرد کا اور مرد عورت کا لباس ہے دونوں ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں ازل سے ہی آدم کے لئے حوا اور حوا کے لئے آدم کے دل میں کشش رکھی گئی ہے جو دونوں میں باہمی الفت و محبت پیدا کرتی ہے اور یہ حقیقت صاف ظاہر ہے تو پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ عورت مرد کی دشمن ہے

کسی بھی عورت کے لئے مرد کی حیثیت ایک چھت، ردا اور لباس کی سی ہے جو عورت کو باپ٬ بھائی اور شوہر کی صورت میسر ہوتی ہے جب یہ حقیقت واضح ہے تو پھر یہ رجحان کیونکر عام ہوا کہ عورت مرد کی دشمن ہے

جس طرح ہر عمل کا رد عمل اور ہر تحریک کا کوئی نہ کوئی محرک ہوتا ہے اس رجحان کا بھی کوئی نہ کوئی محرک ضرور ہوگا کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ حقیقت تو ہوگی جو اس رجحان کا باعث بنی ہے

اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کیا سوچ ہے، وہ بات کیا ہے وہ کیا عمل ہے جس کے باعث یہ رجحان عام ہوا کہ عورت مرد کی دشمن ہے آیا کہ یہ رجحان درست بھی ہے یا محض من گھڑت خیال ہے

دیکھا جائے تو فطری طور پر عورت نرم ونازک، باحیا، خدمت گزار اور وفا شعار ہستی ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ عورت مرد کے لئے قدرت کا انعام ہے جو مرد کہ آرام و سکون کا باعث ہے جو مرد سے محبت کرنے کے لئے تخلیق کی گئی ہے اور مرد کو تکمیل انسانیت کے لئے تخلیق کیا گیا ہے تخلیق و تکمیل کا یہ عمل مرد کے ساتھ عورت اور عورت کے ساتھ مرد کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں عورت کسی آبگینے کی طرح دلنشین رنگین اور نازک ہے عورت مرد کا سکون و قرار ہے اور اسی طرح مرد بھی عورت کے لئے محبت و سکون کا باعث ہے اس کی چھت اسکا سایا اس کا لباس ہے اس سے ثابت ہے کہ عورت مرد کی دشمن ہو ہی نہیں سکتی

لیکن اس سب کے باوجود مشاہدے میں بہت سے ایسے واقعات آئے ہیں کہ جن سے مرد و عورت دونوں کے درمیان نفرت انگیز اختلافات کا انکشاف ہوا ہے اور ان میں سے بعض اختلافات نے کافی حد تک خطرناک صورت اختیار کی ہے جن کے اثرات بلواسطہ طور پر معاشرے میں اس منفی رجحان کے طور پر سامنے آئے ہیں کہ عورت مرد کی دشمن ہے اور مرد عورت کا دشمن

بجائے یہ کہ اس رجحان کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی انہیں اچھالا جانے لگا کبھی آزادی نسواں، عورتوں کے حقوق یا پھر عورتوں میں اپنے حقوق کا شعور اجاگر کرنے جیسی تحریکوں کا نام لے کر عورتوں کو ان کے اصل مقام و مرتبہ سے متنفر کرنے کے اقدامات کئے جانے لگے جس نے عورتوں میں مردوں کے خلاف نفرت کے جذبات کو ابھارنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ان کا اشتہار دنیا بھر میں بڑھا چڑھا کر پھیلایا جانے لگا

عورتوں کے حقوق سے کسی کو انکار نہیں اسلام نے عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق رکھے ہیں نا صرف عورتوں کے بلکہ حقوق العباد میں مردوں اور عورت دونوں کے حقوق انکی مختلف حیثیتوں کے حوالے سے واضح کر دیے گئے ہیں تو اس کے باوجود بھی ہم اسلامی تعلیمات سے ابھی تک آگاہ نہیں ہیں کیا آج بھی ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق حقوق العباد سے پوری طرح آگاہی نہیں رکھتے کی ان تحریکات کی ضروت پیش آئے جو آزادی نسواں کے نام پر عورتوں کو اپنے اصلی منصب سے دور لے جا رہی ہیں اپنے حقوق کی آواز بلند کرتے کرتے اپنے فرائض و ذمہ داریوں کو بھولتی جارہی ہیں اور اپنی ذمہ داریوں سے یہ دوری اپنے فرائض سے غفلت ہی دونوں کو ایک دوسرے سے دور کر رہی ہیں جب اسلام نے مرد اور عورت دونوں کے لئے ایک دوسرے کے حقوق و فرائض متعین کر دیئے ہیں تو پھر اب یہ کون سے حقوق ہیں جن کے تحفظ کا حصول چار دیواری سے باہر سڑکوں پر ملنا ہے

عورت کے لئے گھر داری کی اتنی ذمہ داریاں ہیں کہ اگر عورت ان کو پورے حق اور ایمانداری سے نبھائیں تو انہیں اپنا وقت گھر سے ناحق باہر گزارنے کا وقت ہی نہ ملے مگر وقت کی یہی تنگی ان کے عائلی زندگی سے ان تنگیوں کو ختم کرسکتی ہے جن کے باعث انکی زندگی اس قدر اجیرن ہے کہ وہ مرد کو دشمن سمجھیں یا مردوں کی دشمنی مول لیں

جہاں عورت کے حقوق ہیں وہیں عورت کے فرائض بھی ہیں جب عورت اپنے حق کے لئے آواز اٹھاتی ہے تو وہیں عورت کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو بھی مدنظر رکھتے ہوئےاپنے گھر اور اپنی اولاد کی بہتری کے لئے دل و جان سے کوشاں رہنا ہوگا جو خلوص دل سے اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں ان کے حقوق بھی محفوظ رہتے ہیں یہ نہیں ہوتا کے ہم حق حق کرتے رہیں اور فرائض سے یکسر غافل ہو کر بیٹھ رہیں مرد و خواتین دونوں کے لئے ایک دسرے کے حقوق و فرائض کی پاسداری لازم و ملزوم ہے

مزید براں مردوں کا عورتوں سے برتری کا احساس (جو اسلام کی دین نہیں ہے لیکن ماسوا گنتی کے چند مرد حضرات اکثریت میں پایا جاتا ہے) بھی عورتوں کے دل میں مردوں کی مخالفت کا باعث بنتا ہے احساس برتری کا یہ رجحان مردوں میں باصلاحیت خواتین کو موقع بہ موقع زچ کرنے پر آمادہ کرتا ہے چاہے خواتین گھریلو ہوں یا پھر ملازمت پیشہ احساس برتری رکھنے والے مردوں کا منفی رویہ بھی عورتوں کے دل میں مردوں کے خلاف عناد کو جنم دیتا ہے

احساس برتری میں مبتلا مرد اگرچہ خواتین کی ذہانت و صلاحیت، حسن تدبیر و تنظیم کو جانتے بھی ہیں تو مانتے نہیں اور وہ جان بوجھ کر خواتین کے ساتھ بلاوجہ تکیف دہ رویہ اختیار کرتے ہیں کہ خواتین میں اپنی ذہانت و صلاحیت سے پیدا شدہ خوداعتمادی کو ٹھیس پہنچے یہ کیفیت عورتوں میں مایوسی پیدا کرتی ہے جو بالآخر عداوت کا باعث بنتی ہے

ممکن ہے کہ عورتیں اپنی محبت خوص وفاداریوں اور دن بھر کی محنت و مشقت کے باوجود مردوں کے غیرمنصفانہ رویوں کا شکار ہو کر مرد کو دشمن سمجھنے لگتی ہوں

معاشرے میں حقوق العباد سے غفلت اور بڑھتا ہوا غیر مساویانہ رویہ ہی باہم دشمنیاں پیدا کرتا ہے عورت مرد کی دشمن نہیں ہوسکتی عورت محبت کی دیوی وفا کا پیکر ہے اگر مرد کی طرف اس کے حقوق میں غفلت نہ کی جائے تو عورت کبھی مرد سے گلہ تک نہ کرے دشمنی تو بہت دور کی بات ہے مرد کی محبت عورت کے لئے وہ پرسکوں چھاؤں ہے جو اسے گرم سرد ہر موسم سے بچائے رکھتی ہے عورت کی عزت کی جائے عورت سے محبت کی جائے اس کے حقوق پورے کئے جائیں اس کے جذبات کا احساس کیا جائے اس کا خیال رکھا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ عورت مرد کو اپنا دشمن سمجھے عورت کے لئے تو مرد کی تھوڑی سی محبت بھی بہت ہے کہ جس کے لئے وہ اپنا سارا جیون تیاگ دیتی ہے

عورت کی مثال آبگینے سے دی گئی ہے جو کہ نہایت نازک حسین اور دلکش ہے جسے بڑی نفاست اور احتیاط سے رکھنا چاہئے آپ اس آبگینے کی قدر کریں گے اس کا خیال کریں گے تو آپ کو اس آبگینے میں اپنا عکس بھی اسی قدر دلنشین نظر آئے گا جس قدر آپ اس کی حسن و دلکشی کی حفاظت کریں گے

یاد رہے کے آپ کے سخت رویوں کی ٹھیس اس آبگینے کو اس طرح چکنا چور کر دیتی ہے کہ پھر یہی آبگینہ آپ کے جسم آپ کی روح آپ کے دل کو اسی طرح زخمی و شکستہ کر دینے کی طاقت بھی رکھتا ہے جس طرح آپ اسے زخمی کرتے ہیں

اپنے آبگینوں کی اپنی عورتوں کی حفاظت کریں ان سے محبت کریں ان کے حقوق پورے کریں ان کے جذبات کا خیال رکھیں آپ کی اپنی دنیا حسین ہو جائے گی اور یہ کہ عورت مرد کی دشمن ہے یہ روایت خود بخود دم توڑ جائے گی
uzma ahmad
About the Author: uzma ahmad Read More Articles by uzma ahmad: 265 Articles with 488911 views Pakistani Muslim
.. View More