مئی کے دوسرے اتوار کو دنیا بھر میں ماﺅں کا عالمی
دن منایا جاتا ہے اس دن ساری دنیا کے بچے اپنی اپنی ماﺅں کو ہیپی مدرز ڈے
وِش کرتے ہیں کارڈز دیئے جاتے ہیں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے پھول تحائف
اور دعائیہ کلمات ان تک پہنچائے جاتے ہیں درودراز علاقوں سے سفر کرکے ان سے
ملنے کے لئے پہنچا جاتا ہے اور انہیں تہنیتی کارڈز دیئے جاتے ہیں اور پھر ؟
اور پھر اگلے مدرز ڈے تک ان کو اس طرح بھلا دیا جاتا ہے کہ جیسے ان کی ماں
کا وجود صرف اور صرف اولڈ ہومز کے لئے وقف ہو۔
گزشتہ چند عشروں سے وطنِ عزیز پاکستان میں بھی مدرز ڈے منانے کا رجحان تیزی
کے ساتھ فروغ پارہا ہے جس میں بنیادی کردار الیکٹرانک میڈیا ادا کررہا ہے
اور مارننگ شوز اس حوالے سے سب سے آگے ہیں بہت ہی دل موہ لینے والے تھیم
سانگز کے ذریعہ ایک بہت ہی پراثر ماحول بنا کر کہا جاتا ہے ماں تجھے سلام
اور انہیں عقیدت کے بام عروج پر پہنچا دیا جاتا ہے اولادوں کو ان کے قدموں
میں لاکر بٹھا دیا جاتا ہے ہر وہ عمل جائز ہوتا ہے جو ماﺅ کی کمی اور ان
شوز کی ریٹنگ بڑھانے میں زیادہ ممدو معاون ثابت ہوتا ہے۔
یہ بات ایک حقیقت ہے کہ دین اسلام اور ہمارے معاشرے میں ماﺅں کا مقام اور
مرتبہ بہت بلند ہوتا ہے حدیث نبوی بھی ہے کہ ”جنت ماﺅں کے قدموں تلے ہوتی
ہے“ ماں کوایک مرتبہ مسکرا کر دیکھنا بھی نیکی میں شمار ہوتا ہے لیکن آج کے
دور میں نظر اُٹھا کر دیکھیں تو ہمارے اطراف میں آج کی اولادوں اور آج کی
مائیں کیا اپنا فرض صحیح طریقے سے ادا کررہی ہیں؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے
آج کا دور بہت زیادہ تیز رفتار ترقی کا دور ہے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈا کی
ترقی نے اور الیکٹرانک اشیاءکی بھر مار نے جہاں زندگی کو آسان سہل اور
پرتعیش بنا کر پیش کردیا ہے وہیںہم ماﺅں کی ذمہ داریوں میں بھی بے پناہ
اضافہ کردیا ہے اور کیا دور حاضر کی ماں ان ذمہ داریوں کے احسن طریقے سے
پورا کررہی ہے آج کا یہ سوال نئے دور میں تمام ماﺅں کے لئے ایک سوالہ نشان
ہے؟
آج سے پینتیس چالیس سال پہلے کی ماﺅں کو اگر دیکھا جائے اور ان کا موازنہ
آج کے دور کی ماﺅں کے ساتھ کیا جائے تو کس قدر واضح فرق نظر آتا ہے گئے
وقتوں کی ماں سارا دن گھر میں ہی رہتی تھی اور گھریلو جملہ خانہ داری کے
امور بڑی جانفشانی کے ساتھ سرانجام دیتی تھی بچوں کی بڑھتی عمر کے ساتھ ماں
کی متانت فراست اور تجربے میں اضافہ ہوتا جاتا تھا اور ظاہری وقار اور رکھ
رکھاﺅ بھی اسی طرح میانہ روی اور بردباری کے ساتھ بتدریج نمایاں ہوتا تھا
پرانے وقتوں کی شاید ہی کوئی ماں ایسی ہوگی جو رات کو اپنے بچوں کو علاقائی
کہانیاں لوگ داستانیں اور لوری نہ سناتی ہوں گی چاہے اس ماں کا تعلق
پاکستان کے کسی بھی صوبے زبان اور علاقے سے ہو وہ چٹی ان پڑھ ہو یا پڑھنا
لکھنا جانتی ہو پرانے وقتوں کی شاید ہی کوئی ماں اپنے چوبیس گھنٹوں میں سے
چار سے چھ گھنٹے پارلر میں گزارتی ہو آج کی مائیں اپنے بچوں کو آیاﺅں،ماﺅں
اور ماسیوں کے حوالے کرکے بڑے مزے سے دن کے چار سے پانچ گھنٹے پارلر میں
گزاتی ہیں ان کے بعد ونڈوشاپنگ اور فٹنس کو قت دیتی ہیں درمیانے طبقے کی
مائیں وہ وقت جو کہانیاں سنانے دین کی باتیں بتانے کا ہوتا تھا دعائیں یاد
کرانے میں صرف کرتی تھیں،وہ وقت وہ اسٹارپلس اور پاکستانی چینلز کے ہوش ربا
اور لادینی واقعات پر مشتمل ڈرامے دیکھ کر گزارتی ہیں پوش علاقوں کی مائیں
اپنے نو عمر بچوں کو موبائل فون سیٹ دے کر اور گیمز پر بٹھا کر گھنٹوں فون
پر دوستوں سے گپ شپ کرکے فیس بک استعمال کرکے یا پھر مختلف ریستورانوں میں
جا کر برگر پیزا اور ڈرنک پلانے کے بعد خود کو ماڈرن مائیں ہونے کا ثبوت
پیش کرتی ہیں اور سمجھتی ہیں انہوں نے اپنے بچوں کوکافی ٹائم دے دیا ہے آخر
اپنی ذات پر ان کا بھی تو حق ہے وہ کیوں نہ اسمارٹ رہیں فٹ رہیں اور واقعی
اگر کل اور آج کی ماﺅں میں موازنہ کیاجائے تو بڑا واضح فرق نظر اتا ہے کل
کی بارہ چودہ سالہ بچے کی ماں تو نظر آتی تھی آج کل اتنے بڑے بچے کی ماں اس
کی ماں کم اور بڑی بہن زیادہ نظر آتی ہے وجہ تمام تر توجہ اپنے اوپر دینا
ہوتا ہے صحت اور فٹنس کا خیال رکھنا بہت اچھی عادت ہوتی ہے مگر بچوں کی
جسمانی جذباتی اور بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ اس کی ضروریات کا خیال رکھنا بھی
ایک ماں کی ذمہ واری ہوا کرتا ہے آج کی بیشتر مائیں پڑھی لکھی ہوتی ہیں جب
کہ پہلے کی ساٹھ سے ستر فیصد مائیں ان پڑھ ہوتی تھی یا پھر صرف خط و کتابت
یا اخبار پڑھنا جانتی تھیں مگر جب اس چٹی ان پڑھ یا واجبی پڑھائی والی ماں
کا بیٹا بھی جب فوجی جوان بن کر لوٹتا تھا یا ڈاکٹر بنتا تھا بنک میں کسی
اعلیٰ عہدے پر ہوتا تھا پائلٹ بنتا یا بزنس مین سب سے پہلے وہ ماں کے قدموں
میں آکر بیٹھتا ماں کی دعائیں لیتا سر پرہاتھ پھرواتا وہ کبھی ماں کو یہ نہ
کہتا کہ ماں آپ کو تو کچھ پڑھنا ہی نہیں آتا یا آپ تو کچھ نہیں جانتی ہیں
نہیں آپ کو کیا معلوم یہ کیا چیز ہے دراصل ہیں احترام وقعت اور ادب اس
گزارے ہوئے وقت اور کاموں کی انجام دیہی کے بعد ہی مل پاتا ہے جو پہلے کی
مائیں بچوں کے ساتھ گزارا کرتی تھی ان کو ادب آداب بڑوں کا لحاظ اور چھوٹوں
سے شفقت کا درس دے کر پورا کرتی تھیں آج کا بچہ تو برملا کہتاہے کہ ماں سے
بغیر کسی لحاظ کے مما آپ کو کیا پتہ اس گیم میں کیا ہوتا ہے کمپیوٹر کس طرح
چلایا جاتا ہے آپ کو تو کچھ معلوم ہی نہیں ظاہر ہے جب مائیں بچوں کو گھنٹوں
ٹی وی کے سامنے بٹھا دیں یا نیٹ اور کمپیوٹر دلا کر اپنے فراض سے چشم پوشی
اختیار کرتے ہوئے غیر ذمہ داری والے رویئے کا اظہار کریں گی تو انہیں کسی
قسم کے جواب کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ تیز رفتارترقی کے دور میں جو تھوڑا
بہت ادب آداب اور بڑوں بزرگوں اور ضعیفوں کا احترام جو بچاکچا رہ گیا ہے وہ
بھی کہیں ایسا نہ ہو مدرڈے کے حوالے سے ایک تہنیتی پیغام کی حد تک رہ جائے
اور ماں کو مدرڈے گفٹ بھیجنے کے بعد لگے مدرڈے پر ہی یاد کیا جائے گا۔
آج کی ماﺅں کو دراصل دورے محاذ پر لڑنا ہوگا انہیں اسے اپنے آپ کو اس قدر
تیکنیکی ساﺅنڈ کرتے ہوئے اپنے بڑھتے ہوئی عمر کے بچوں کی نگہداشت کرنی ہوگی
کہ انہیں یہ محسوس نہ ہو کہ ان پر کوئی پابندی عائد کی جارہی ہے یا وہ کسی
دباﺅ کا شکار ہیں نو عمر بڑھتی ہوئی عمر کے بچے اور بچیاں نازک سے پھلوں کی
کلیوں کے ماند ہوتے ہیں جنہیں معاشرے میں بڑھتی ہوئی آلودگیوں سے بچانے کے
لئے ماں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے اور عصر حاضر کی ماﺅں کی کمپیوٹر امیج کے
ان بچوں کو ہینڈل کرنے کے لئے بہت دانشمندی اور عقل و فراست سے کام لیتے
ہوئے انہیں مطلوبہ ٹائم دینا ہوگا کہ کہیں یہ کلیاں جنہیں پھول بن کر کھلنا
ہے بن کھلے ہی نہ مرجھاجائیں اور یہ ہم ماﺅں کی ہی ذمہ داری ہے کہ ہم ارفع
کریم ارندھا معین نوازش ملالہ یوسف زئی اور شرمین عبید چنائے بننے میں مدد
دیں اپنی بڑھتی ہوئی عمر کے بچوں کو قوت دیں انہیں بزرگان دین کے بارے میں
اور اسلام کی بنیادی باتوں کا شعور دیں ان کی نصابی اور ہم نصاب سرگرمیوں
میں ان کا ساتھ دیں جب وہ ٹی وی چینل کھولیں یا کمپیوٹر اور نیٹ وغیرہ کا
استعمال کریں تو حتیٰ المقدور وقت ان کے ساتھ رہ کر گزاریں یہ آج کے بچے ہی
ہیں جو کل کے اچھے معاشرے اور بہترین پاکستان کا مستقبل ہیں نپولین نے کیا
خوب کہا تھا کہ ”تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں بہترین قوم دوں گا“
یہ بات کسی شک و شبہے سے بالاتر ہے کہ اچھی مائیں ہی بہترین معاشرے اور قوم
کی ذمہ داری ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں ذمہ دارماں بننے کی توفیق عطا
فرمائے۔(آمین) |