سراہے جانا چاہے جانا یہ ایک
فطری عمل ہے جو کہ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اس
میں مردو خواتین کی کوئی تخصیص بھی نہیں لیکن اس عمل میںخواتین کچھ زیادہ
ہی تیز ہوتی ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں اس معاملے میں زیادہ
مواقع ملے لوگ انہیں سراہے ہم اپنے اردگرد کے ماحول اور معاشرے میں اب یہ
سلسلہ کچھ زیادہ ہی دیکھ رہے ہیں کہ سراہے جانے کی یہ خواہش ہمیں اور خصوصا
نئی نسل اور خواتین کو کس طرف لے جارہی ہیں اس کااندازہ نہ تو نئی نسل اور
خصوصا خواتین کو بالکل نہیں- کچھ عرصہ قبل پشاور کے ایک مارکیٹ سے ایسے
دکانداروں کو قانون نافذ کرنے کرنے والے اداروں نے گرفتار کیا جن کے
کمپیوٹر سے لوگوں کے ذاتی تصاویر برآمد ہوئیں ان میں کچھ ایسی تصاویر بھی
تھیں جو لوگوں نے موبائل فون کے ذریعے اپنے گھروں میں لی تھی جو غلط لوگوں
کے ہتھے چڑھ گئیں اور بعد میں وہ تصاویر اور ویڈیوز انٹرنیٹ پر لوگوں نے
لوڈ کردی یہ تصاویر مارکیٹ میں آئیں اور اس کے بعد متعلقہ لوگوں کی بدنامی
کا باعث بنی - ہم جس معاشرے میں رہ ہے ہیں اس کی کچھ روایات تھی جو کہ اب
دم توڑ رہی ہیں انہیں دم توڑتی روایات کے باعث ہم اس صورتحال پر پہنچ گئے
ہیں کہ ہم لوگ اپنے ہی ہاتھوں اپنا سب کچھ لٹا رہے ہیں-
امریکہ میں گذشتہ دنوں کی جانیوالے ایک سروے رپورٹ کے مطابق ہائی سکولوں کی
کم عمر طالبات انٹرنیٹ پر آن لائن خوبصورتی کے مختلف مقابلوں میں اپنی
تصاویر بھجواتی ہیں جو مختلف افراد کے ہاتھوں لگ جاتی ہیں اور بعد میں ان
طالبات اور ان کے والدین کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ سروے امریکہ
میں کیا گیا جس کے بارے میں یہ تصور عام ہے کہ وہاں پر ان چیزوں کی پروا
نہیں ہوتی لیکن ووہاں بھی یہ مسائل پیدا کررہی ہیں لیکن آج اگر ہم اپنے ارد
گرد دیکھ لیں تو یہی صورتحال ہمارے ہاں بھی موجود ہیں آن لائن دوستی سمیت
سوشل سائٹس قحبہ خانے بن چکے ہیں کسی کو اندازہ ہی نہیں کہ ہم اپنے گھروں
میں اپنے بچوںاپنے نوجوان نسل کو کس طرح لاپرواہی سے تباہی کے گڑھے میں
پھینک رہے ہیں ہم لوگ تو اس چکر میں خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے بچے کمپیوٹر پر
کام کرتے ہیں لیہ کام کونسا ہوتا ہے ناخواندہ والدین کو اس کا علم ہی نہیں
وہ تو بچوں کی خوشی کیلئے انہیں کمپیوٹر/ انٹرنیٹ اور دیگر سہولیات فراہم
کرتے ہیں جبکہ تعلیم یافتہ اور ماڈرن والدین کے پاس اول تو وقت ہی نہیں کہ
اپنے بچوں کی سرگرمیوں کو دیکھ لیں کہ ان کے لاڈلے کن کرتوتوں میں لگے ہوئے
ہیں دوسرے یہ لوگ شخصی آزادی کے نام پر بچوں کو کھلا چھوڑ دیتے ہیں اور بعد
میں ایسے مسائل میں پھنس جاتے ہیں کہ جن کا تدارک اگر آغاز میں کرے تو
انہیں ان مسائل کا سامنا ہی نہ کرنا پڑے-
کچھ عرصہ قبل راقم کی پڑوس میں رہائش پذیر ایک پڑوسی سے ملاقات ہوئی وہ
پڑوسی اپنے سکول جانے والے طالب علم بیٹے کی آوارہ گردیوں سے پریشان تھا
بیٹے کی خواہش پر اس کیلئے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کی تو اس دن
ملاقات میں پڑوسی بہت خوش تھا جب راقم نے اس سے سوال کیا کہ کیا صورتحال ہے
تو اس نے بتایا کہ اس کے بیٹے نے گھر میں آن لائن کمپیوٹر پر داخلہ لیا ہے
اور کسی جگہ پر ممبرشپ بھی کی ہیں جس کیلئے اس نے اضافی پیسے بھی مانگے
والد خوش تھا کہ اس کے بیٹے کو ممبرشپ مل گئی ہم بھی خوش ہوگئے کہ چلو
پڑوسی کا ذہنی تنائو کم ہوگیا اسی شام گھر سے نکلنے والے پڑوسی کے بیٹے کی
راقم کیساتھ ملاقات ہوئی جب اس سے آن لائن کمپیوٹر کورسز اور ممبرشپ کے
بارے میں پتہ کیا تو وہ ہنسنے لگا اس نے بتایا کہ "داجی" تو سادہ آدمی ہے
ان سے ممبرشپ کے نام پر پیسے بٹورے ہیں اور ممبرشپ تو اس نے ایک سوشل سائٹ
پرمفت میں کی ہے جس میں ہر قسم کے دوست ان سے آن لائن ملاقات کرتے ہیں اور
بقول اس کے اب گھر میں آن لائن بہت کچھ مل جاتا ہے اس لئے گھر سے باہر
نکلنے کی ضرورت ہی نہیں-افسوس کیساتھ ساتھ غصہ بھی بہت آیا لیکن کر بھی کیا
سکتے تھے سو ہم بھی خاموش رہ گئے- یہ ہماری نئی نسل ہے جس نے ملک کا مستقبل
سنبھالنا ہے -بات سے بات نکلتی ہے کہ کسی زمانے میں ہمارے ایک استاد دوران
طالب علمی ہمیں بتایا کرتے تھے کہ جب انہیں گھر سے پیسے نہیں ملتے تھے تو
وہ انک پاٹ کے نام پر والدہ سے پیسے نکلواتے اور کبھی کبھار تو انک اور پاٹ
کو الگ الگ کرکے آٹھ آنے اورایک روپیہ نکال لیتے تھے لیکن یہ چوری بھی صرف
کھانے پینے کی اشیاء تک محدود ہوتی تھی اب تو ماڈرن دور کے ماڈرن تقاضوں نے
جہاں والدین کو بے حال کردیا وہیں نئی نسل کو بھی لاپرواہ بدتمیز اور فضول
خرچ تک کردیا ہے -
دل کے پھپھولے توڑنے پر آتے ہیں تو بات دور تک چلی جاتی ہیں انٹرنیٹ پر آن
لائن سوشل سائٹس نے نوجوان نسل کو کن برائیوں کا شکار کردیا ہے اس کا
اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہی سائٹس پر اب "گئے کلب" بن
گئے ہیں جو باقاعدگی سے مختلف یوزر کو اپنے ساتھ ملانے کی کوششوں میں مصروف
عمل ہوتے ہیں اسی طرح"ڈانس کلب " سمیت بہت ساری کلب بنے ہیں جس کے ذریعے
نوجوان نسل کو مخصوص لوگوں سے ملایا جاتا ہے اور انہیں اخلاقی گرائوٹوں میں
دھکیلا جارہا ہے کچھ لوگوں کی ویڈیوز /تصاویر بنتی ہیں جنہیں مستقبل میں
انہیں بلیک میل کرنے کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے - کیا ہم نے اس صورتحال
سے نمٹنے کیلئے اپنے بچوں کو تیار کیا ہے کیا ہم خود ذہنی طور پر اس
صورتحال کا مقابلہ کرسکتے ہیں یقینا نہیں جب ہم خود تیار ہیں تو پھر کیسے
ہمارے آنیوالی نسل تیار ہوگی لیکن کیا انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں
ہم اپنی نئی نسل کو کمپیوٹر/ انٹرنیٹ اور آن لائن مختلف پروگراموں سے دور
کرسکتے ہیں یہ بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ ہمارے آنیوالی نسل نے دنیا کا مقابلہ
کرنا ہے تو پھر کیا انہی فضولیات سے بچنے کیلئے کہیں پر کسی تعلیمی ادارے
یونیورسٹی میں کوئی کتاب کوئی کورس ٹریننگ متعارف ہی نہیں ہوئی جس کے ذریعے
نئی نسل کو ان فضولیات سے آگاہ تو کرسکتے ہیں- اس بارے میں عملی قدم کون
اٹھاتا ہے یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر سرکار کیساتھ ہمیں بھی سوچنے کی ضرورت
ہے- |