ظفر آباد سرینگر بس سروس شروع ہونے سے چند ماہ قبل مقبوضہ
کشمیر سے صحافیوں کا ایک وفد آزاد کشمیر اور پاکستان کے دورے پر آیا۔چند
صحافیوں سے عزیز داری ہونے کی وجہ سے میں مظفر آباد میں ان کے ساتھ ساتھ
رہا۔ان کا قیام مظفر آباد میں دریائے جہلم اور نیلم(کشن گنگا) کے ملاپ کے
مقام دومیل میں واقع سنگم ہوٹل میں تھا۔انہی کے ساتھ چکوٹھی کا دورہ بھی
کیا جہاں چکوٹھی کے اگلے مورچے پہ ڈی جی” آئی ایس پی آر “نے وفد کو بریفنگ
دی۔وفد کی پہلی رات سنگم ہوٹل کی لابی میں انتظامیہ کے افسران کے پاس بیٹھا
تھا کہ اتنے میں تین افراد ہوٹل میں داخل ہوئے اور ہماری طرف بڑھے۔وہ
مقبوضہ کشمیر سے آئے صحافیوں سے ملنا چاہتے تھے۔انتظامیہ کے افسران نے آپس
میں مشورے سے طے کیا کہ انہیں مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں سے ملنے کی اجازت نہ
دی جائے۔اس پر ان تین افراد میں سے ایک شخص بہت برہم ہوا اور وفد کے ارکان
سے ملنے پر اصرار کرنے لگا لیکن کمروں کی طرف جانے والی سیڑھیوں پہ پولیس
کے مسلح اہلکارراستہ روکے کھڑے تھے اور کسی کو بھی اوپر جانے کی اجازت نہیں
دے رہے تھے۔میں نے انتظامی افسران سے گزارش کی کہ ان افراد کو وفد سے ملنے
دیا جائے ،ملنے کی اجازت نہ دینے کا تاثر ہمارے لئے اچھا نہیں رہے گا لیکن
وہ رضامند نہ ہوئے۔وفد کے ساتھ ہر وقت رہنے کی وجہ سے کئی افرادمجھے بھی
وفد کا رکن سمجھتے تھے۔میں برہم ہونے والے گورے چٹے شخص کو ایک طرف لے گیا
اور اور اسے کہا آپ فکر نہ کریں میں آپ کی ملاقات کراتا ہوں۔میں صحافیوں کے
کمرے کی طرف بڑھا تو پولیس والوں نے راستہ روکا ۔مشکل سے اوپر گیا اور دو
تین کمروں کے دروازے کھٹکا کر وفد کے کئی ارکان کو نیند سے جگا دیا۔ مقبوضہ
کشمیر کے ان صحافیوں سے ایسا تعلق تھا کہ وہ دن بھر کی تھکن کے باوجود
ناگواری کا اظہار نہ کر سکے۔انہوں نے نیند سے اٹھانے کی وجہ دریافت کی تو
میں نے انہیں بتا یا کہ ” نیشنلسٹ“ کہلائے جانے والے ایک صاحب عارف شاہد
اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ان سے کل
ملاقات کر لیں گے۔میں نے جواب دیا کہ کل آپ کا دن بہت مصروف ہو گا اور آپ
نے کل ہی اسلام آباد روانہ ہونا ہے،ممکن ہے کہ کل انہیں آپ سے ملنے کی
اجازت نہ ملے۔وفد کے ایک رکن نے کہا کہ آپ کو انہیں ہم سے ملانے میں کیا
دلچسپی ہے؟ میں نے کہا کہ آپ کو یہاں سے ایسا تاثر نہیں لے کر جانا چاہیئے
کہ آپ کو بعض سیاسی عناصر سے ملنے سے روکا گیا۔وفدکے ارکان نے عارف شاہد
صاحب اور ان کے ساتھیوں سے ملاقات کی اور ان کی گزارشات سنیں۔
عارف شاہد صاحب کو میں شروع میں ان کے رنگ و روپ کی وجہ سے گلگت بلتستان کا
باشندہ سمجھتا تھا۔کشمیر سے متعلق تقریبات میں ان سے سلام دعا ہوتی
رہتی۔گزشتہ ماہ ایک دوست کے دفتر میں ایک تقریب میں ان سے ملاقات ہوئی۔اس
موقع پہ میں نے محسوس کیا کہ وہ معصوم اور شرمیلی طبیعت کے مالک تھے۔چند دن
قبل رات کو معمول کے مطابق ’فیس بک‘ آن کی تو میری ’وال‘ پہ ڈاکٹر آفتاب کی
طرف سے چسپاں ایک خبر میںعارف شاہد کے قتل کی اطلاع دی گئی تھی۔کچھ ہی دیر
میں مقتول عارف شاہد کی گولیوں سے چھلنی نعش کی تصویر بھی ’ فیس بک‘ پہ آ
گئی۔ مقتول عارف شاہد کے چہرے سے بے چارگی بے ساختہ چھلک رہی تھی۔خبروں کے
مطابق عارف شاہد راولپنڈی میں رات کے وقت اپنے گھر پہنچے،ڈرائیور گیٹ
کھولنے کےلئے گاڑی سے اترا تو اتنے میں ایک شخص نے گاڑی میں بیٹھے عارف
شاہد کے سینے کے اوپر کے حصے میں کئی گولیاں داغ دیں۔ڈرائیور نے کیپ پہنے
ایک شخص کووہاں سے بھاگتے دیکھا۔پوسٹ مارٹم کے بعد اگلی صبح ان کی میت
راولاکوٹ ان کے گاﺅں لیجانے سے پہلے گنتی کے چند نوجوان ان کی نعش فیض آباد
روڈ پہ رکھ کر کچھ دیر تک احتجاج کرتے رہے۔ایک اطلاع کے مطابق عارف شاہد کے
نظریاتی ساتھی نماز جنازہ کے بعد ان کی تدفین میں شامل ہونے اور ان کے گھر
جانے کے بجائے پارٹی اجلاس میں مصروف ہوگئے۔
عارف شاہد کے اس بہیمانہ قتل کے خلاف آزاد کشمیر کی متعدد بڑی سیاسی
جماعتوں کے رہنماﺅں کی طرف سے بھی مذمتی بیانات شائع ہوئے۔عارف شاہد کے قتل
سے چند ہی دن قبل مسلم لیگ (ن)آزاد کشمیر کے ایک عہدیدار منظر بشیر
ایڈووکیٹ کو صبح کے وقت راولپنڈی کچہری جاتے ہوئے سرسید چوک کے قریب سے ان
کی گاڑی سے اتار کر اغوا کیا گیا،ان کی ٹانگوں اور بازﺅں میں کیلیں ٹھونکیں
گئیں اور ان پر بدترین تشدد کرنے کے بعد انہیں اڈیالہ روڈ پہ پھینک دیا
گیا۔ منظر بشیر ایڈووکیٹ سابق صدر مشرف کے کیس میں وکلاءکے ساتھ مظاہروں
میں پیش پیش تھے۔آج ہی یہ اطلاع بھی ملی کہ چند ہفتے قبل کنٹرول لائین کے
قریب پر اسرار طور پر تشدد کے ذریعے ہلاک ہونے والے کوٹلی کے نوجوان محمد
علی کے ورثاءنے خون بہا کے طور پر دو سرکاری نوکریاں،بارہ لاکھ روپے اور
چند کنال زمین قبول کر لی ہے۔
عارف شاہد ایک لکھنے پڑہنے والے انسان تھے۔ان کے نظریات سے اختلاف ہو سکتا
ہے لیکن جس طرح انہیں فائرنگ کر کے ظالمانہ طریقے سے قتل کیا گیا ہے،اس کی
کوئی بھی ذی شعور حمایت نہیں کر سکتا۔اگرملکی مفاد کے نام پر اس طرح کی
ظالمانہ کاروائیاں کی جائیں تو کوئی بھی محب وطن پاکستانی اس کی ہر گز
اجازت نہیں دے سکتا۔ اس طرح کی کاروائیاں ہر لحاظ سے مملکت اور عوام کے
خلاف ہیں اور یہ اس ذہنیت کی عکاس ہیں جس کا سامنا مشرقی پاکستان سے لیکر
باقی ماندہ پاکستان کے عوام کو کرنا پڑ رہا ہے۔عارف شاہد کے قاتلوں کو بے
نقاب کرنا نہایت ضروری ہے تا کہ بالخصوص کشمیری حلقوں میں پائی جانے والی
تشویش دور ہو سکے۔آزاد کشمیر کے سیاسی قائدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس
معاملے میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے اعلی حکومتی و سرکاری
عہدیداروں سے رابطے کریں۔عارف شاہد کے ظالمانہ قتل پر بلا نظریاتی تفریق ہر
ایک کو صدائے احتجاج بلند کرنا چاہئے کیونکہ اگر اس طرح کی کاروائیوں کا
تدارک نہ کیا گیا تو اس سے پاکستان کی اساس اور ملکی و قومی مفادات کو
ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ |