ہندوستان میں مسلمانوں کے بارے
میں کوئی اچھی خبر سننے کے لئے کان ترس جاتے ہیں اس کے برعکس بری خبر ہر
لمحہ سماعت سے ٹکرانے کیلئے تیاررہتی ہے اور یہیں سے انسان کا مزاج بنتا ہے۔
برادران وطن ہی نہیں بہت سارے مسلم صحافیوں، دانشوروں، پروفیسروں، سیاست
دانوں اور ماہر عمرانیات ( خصوصاً انگریزی میں پڑھنے لکھنے والے)کی شکایت
رہتی ہے کہ مسلمان یا اردو اخبارات منفی خبروں(سچ بات) کو زیادہ جگہ دیتے
ہیں۔مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کا قتل ہوجائے تو آپ کہیے کوئی بات نہیں معاشرے
میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں جیل میں
سڑایا جائے تو آپ ظلم و زیادتی کی شکایت کرنے کے بجائے حکومت اور خفیہ
ایجنسیوں کا اس بات کے لئے شکریہ ادا کیجئے کہ انہوں نے آپ کو نہیں پکڑا۔
آپ کے وقف املاک پر اگر قبضہ ہوجائے تو یہ کہیے دہلی کی جامع مسجد پر تو
قبضہ نہیں کیا۔مسلمانوں کے لئے مخصوص حکومت کی اسکیم کو دوسرے کھاتوں میں
ڈال کر خرچ کردیا جائے تو یہ کہیے کہ یہ بھی تو ہندوستانی ہی تھے ۔
مسلمانوں کی تعلیمی اداروں کو تباہ وبرباد کردیا جائے تو آپ یہ کہیے کہ سب
کو تو برباد نہیں کیا۔ فسادات میں منظم منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کی
تجارت ، ان کے کاروباراور جان کا بڑے پیمانے پر اتلاف کردیا جائے تو آپ
کہیے کہ فسادیوں نے سب کو تو نہیں مارا اور اس کے لئے آپ فسادیوں کا شکریہ
ادا کریں۔ غرض کہ آپ شکایت نہیں حکومت، میڈیا، مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ
کی شان میں ہمیشہ رطب اللسان رہیں تو آپ سیکولراور سچے ہندوستانی ہیں ۔ اگر
آپ نے حق اور سچ بات کہہ دی تو آپ کی حب الوطنی مشتبہ ہوجائے گی اور آپ پر
منفی سوچ رکھنے کا ٹھپہ لگ جائے گا۔ یہ باتیں اکثر کہی جاتی ہیں۔ ایک طرف
اردو کے اخبارات کو اور دوسری طرف ہندی اور انگریزی کے اخبارات کو دیکھیں
تو ہندی اور انگریزی اخبارات میں مسلمانوں کی مجرمانہ سرگرمیوں کی خبر تو
ہوگی لیکن ان پر حکومت، خفیہ ایجنسیاں ، سیاسی پارٹیاں اور دیگر کے ڈھائے
گئے مظالم کی خبریں نہیں ہوں گی کیوں کہ برادران وطن کی یہ پختہ سوچ ہے کہ
(صرف کچھ کو چھوڑ کر)مسلمانوں پر ڈھائے گئے مظالم کے بارے میں باتیں کرنا
ملک کی شان اور وقار کے خلاف بات کرنے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے سے
بڑے واقعات کو کسی بھی پلیٹ فارم پر جگہ نہیں ملتی جیسا کہ خالد مجاہد کے
معاملے کو جگہ نہیں ملی۔ سربجیت کے معاملے میں پورے ہندوستان کو جنگ کے
دہانے پر پہنچانے والا میڈیاخالد مجاہد کے حراستی قتل کے بارے میں بالکل
خاموش رہا۔ اردو اخبارات میں ہی اہم جگہ پر اسَ خبر کو شائع کی گئی ہے ۔
انگریزی، ہندی اخبارات نے اہمیت کے ساتھ شائع نہیں کی۔ چھوٹی سے چھوٹی
چیزیں، سانپ بچھو اور دیگر دیومالائی چیزوں کو گھنٹوں نشر کرنے والا ہندی
نیوز چینل کو تو سانپ ہی سونگھ گیا۔ کسی نیوز چینل نے اسے پرائم ٹائم میں
جگہ نہیں دی اور نہ ہی اس پر مذاکرہ کرایا۔ سرب جیت کے معاملے میں رات دن
ٹی وی چینلوں پر چلنے والی خبروں اور مباحثوں کے برعکس خالد مجاہد کے
معاملے نے یہِ ثابت کردیا ہے کہ ہندی نیوز چینلوں کے پاس نہ وقار ہے، نہ
انسانیت ہے اور نہ ہی وہ کسی صحافتی اصول کا پابند ہے۔ اگر پابند ہے تو صرف
اور صرف’ ہندوتو کی پالیسی‘ کا جس میں مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
خالد مجاہد کے ساتھ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ یہ اس ذہنیت کا نتیجہ ہے جس کی
سوچ یہ ہے کہ پکڑے گئے مسلمانوں کو کھانا کھلاکر اناج کو برباد کرنا ہے
جہاں پکڑو وہیں مار دو۔ یہ سوچ جاہلوں کی نہیں بلکہ پڑھے لکھے، قانون داں
اور دانشوروں کی ہے اور یہ لوگ ہمیشہ ہی ماورائے عدالت مسلمانوں کے قتل کے
حامی رہے ہیں۔ اس طرح کے جملے ٹی وی شو کے مباحثوں اور مذاکروں میں
ہندوستان کے وکلاء، دفاعی ماہرین، اینکرس، سیاست داں اور صحافی بارہا
دہراتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی سوچ یہاں کی پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کی بھی
ہے۔ جو ایک بار پکڑا جائے اسے مار ڈالا جائے کیوں کہ جب تک زندہ رہے گا
حقیقت عیاں ہوتی رہے گی اور خفیہ ایجنسیوں کے سیاہ کارنامے دنیا کے سامنے
آتے رہیں گے اس لئے قتل کرنا ان کے سامنے بہترین متبادل ہوتا ہے۔ ان قاتلوں
کو یہ یقین ہوتا ہے کہ قتل کرنے کے بعد ان سے نہ باز پرس ہوگی اور نہ ہی
انہیں سزا ملے گی ۔ آزادی کے بعد اب تک سیکڑوں مسلم نوجوانوں کو حراست میں
یہ لوگ قتل کرچکے ہیں اور اب تک ان میں سے کسی کا بال باکا تک نہیں ہوا ہے
اس لئے خوف کی کوئی بات نہیں ۔قتیل صدیقی، خواجہ یونس اور حال ہی میں جاوید
علی کو قتل کیا گیا لیکن سزا دینا تو دور کی ان لوگوں کی شناخت تک نہیں
ہوئی البتہ خواجہ یونس کے معاملے میں کچھ پولیس اہلکاروں کی شناخت کی گئی
لیکن کسی کو سزا نہیں ملی ۔ خالد مجاہد کو بھی قتل کرنے کے پس پشت یہی
ذہنیت کارفرما ہے۔ پاکستان کی کوٹ لکھپت جیل میں سربجیت کے قتل کے بعدپہلے
ثناء اللہ اور پھر جاوید علی اور اب خالد مجاہد کو قتل کیا گیا ہے۔ پولیس
نے پہلے لو لگنے سے موت ہونے کی تھیوری پیش کی پھر حرکت قلب بند ہونے کی
تھیوری پیش کی۔ خالد مجاہد کے وکیل نے فیض آباد کی عدالت میں اسے ٹھیک ٹھاک
دیکھا تھااور وہ اپنے لباس کرتا پائجامہ میں ہی تھا لیکن جب اسے اسپتال
پہنچایا گیا تو ٹی شرٹ میں تھا۔ یہ کیسے ہوا۔ اس کے جسم اور گلے پر تازہ خم
کے نشان تھے ۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسے اترپردیش پولیس نے اذیت دے کر
قتل کیا ہے۔ کیا ایسا بھی ہوسکتاہے کہ لو لگے یا حرکت قلب بند ہونے کی وجہ
سے جسم پر زخم کے نشان پیدا ہوجائے؟ اگر ایسا ہے تو یقیناًہندوستانی پولیس
کا ایک اہم کارنامہ ہوگا اور یوپی پولیس یقیناًبڑے انعام کا حقدار ہوگی۔
خالد کے فیض آباد میں وکیل جمال نے بتایا کہ سنیچر کی دوپہر دو بجے سے چار
بجے تک خالد دیگر تین ملزمان کے ساتھ کورٹ میں تھے۔خالد کے لکھنو کے وکیل
رندھیر سنگھ سمن نے اسے قتل قرار دیا ہے۔
پولیس کے قتل کرنے کی وجہ بھی موجود ہے کیوں کہ خالد کو نمیشن کمیشین نے بے
گناہ قرار دیا ہے اور ان کے خلاف کیس بنانے والے پولیس اہلکار وں کے خلاف
سخت کارروائی کی سفارش کی ہے۔ 23 نومبر 2007 کو اتر پردیش کے تین شہروں
لکھنو، فیض آباد اور وارانسی میں 25 منٹ کے اندر اندر سلسلہ وار دھماکے
ہوئے تھے ان دھماکوں میں 18 افراد ہلاک اور 21 زخمی ہوئے۔اتر پردیش میں
ہونے والے ان دھماکوں سے دہلی تک دہل گئی۔ان دھماکوں کے الزام میں طارق
قاسمی( 12 دسمبر 2007)کو اعظم گڈھ سے اور خالد مجاہد( 16 دسمبر 2007)
کوجونپور سے اترپردیش کی ایس ٹی ایف نے دونوں کا اغوا کیا تھا۔ جس کی
گرفتاری بارہ بنکی سے دکھائی گئی تھی۔ 14 دسمبر 2007 کو ڈاکٹر طارق کے اہل
خانہ نے مقامی تھانے رانی سرائے میں گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی تھی ۔ اس
کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا گیا ۔ 14 مارچ 2008 کو اتر پردیش کے اس وقت کے
ڈی جی پی وکرم سنگھ نے چیف سکریٹری اترپردیش حکومت کو خط لکھ کر عدالتی
تحقیقات کی درخواست کی جس کے بعد اسی دن اترپردیش حکومت نے نوٹیفکیشن جاری
کر کے ریٹائرڈ جج آر ڈی برمن نمیش کمیشن تشکیل دی۔یہ ایک رکنی کمیشن کو 6
ماہ کے اندر رپورٹ پیش کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ نمیش کمیشن نے تمام واقعات
اور حقائق کی جانچ کی اور 31 اگست 2012 کو جانچ رپورٹ اتر پردیش کی حکومت
کو پیش بھی کر دی۔ لیکن کمیشن کی رپورٹ کو اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا۔
اکھلیش یادو حکومت نے اپنے انتخابی منشور میں دہشت گردی کے الزام میں
گرفتار مسلم نوجوانوں کی رہائی کا مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا لیکن ملائم
سنگھ یادو اور ان کے بیٹے وزیر اعلی اکھلیش یادو اب تک اس رپورٹ کو اسمبلی
میں پیش نہیں کرسکے۔ رپورٹ پیش کئے بغیر مسلسل دباِؤ کی وجہ سے حکومت نے ان
دونوں نوجوانوں سے تمام مقدمات واپس لینے کا اعلان کردیا اور عدالت میں
درخواست بھی دے دی لیکن حشر وہی ہوا جس کا اندازہ ایک ادنی انسان کو بھی
تھا۔ عدالت نے یوپی حکومت کی درخواست مسترد کردی۔ کیوں کہ اترپردیش حکومت
کی نیت رہا کرنے کی تھی ہی نہیں اس لئے اس نے قانونی طریقہ اختیار نہیں
کیا۔ جب تک نمیش کمیشن کی رپورٹ کو ایکشن ٹیکن رپورٹ کے ساتھ اسمبلی میں
پیش نہیں کیا جاتا اس وقت تک اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق
خاطی پولیس افسران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی تھی جو اترپردیش حکومت
کسی قیمت پر نہیں کرنا چاہ رہی تھی۔ اس لئے خالد مجاہد کو قتل کیاگیا تاکہ
پولیس افسران کارروائی سے بچ جائیں۔ پولیس اور اترپردیش ایس ٹی ایف کے پاس
کوئی ثبوت موجود نہیں تھا اور تمام پیش کردہ ثبوت فرضی اور من گھڑت ثابت
ہوئے تھے ۔ اترپردیش پولیس اور ایس ٹی ایف نے جوش میں آر ڈی ایکس کی برآمد
بھی دکھادی تھی ممبئی بم دھماکے کے علاوہ ہندوستان کے کسی دھماکے میں آر ڈی
ایکس کا استعمال نہیں ہوا ہے۔ اس دھماکے تک حکومت کی ایجنسی ہی پہنچ سکتی
ہے۔
یوپی کے وزیر اعلی اکھلیش یادو نے خالد مجاہد کی موت کی سی بی آئی تحقیقات
کا حکم دے دیا ہے لیکن مسلمانوں کو بہت امید نہیں رکھنی چاہئے۔ پوسٹ مارٹم
کرکے لاش لواحقین کے حوالے کردی گئی ہے ۔لاش کے معائنے سے بھی اذیت دینے کا
معاملہ سامنا آیا ہے۔ اس کے علاوہ لکھنو ضلع جیل کے سپرنٹنڈنٹ ڈی آر موریہ
نے کہا کہ خالد مجاہد بیمار نہیں تھا۔ تو پھر اچانک کیا ہوگا کہ آنا فاناً
ان کی موت ہوگئی۔ خالد مجاہد کے اہل خانہ نے بھی کہا کہ پولیس خالد مجاہد
کو قتل کردینے کی مسلسل دھمکی دے رہی تھی۔ مسلمانوں حراست میں اور ماورائے
عدالت قتل کرنے کی طویل منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ گزشتہ دنوں اسی نوعیت کاایک
واقعہ پونے کی یروڈا جیل میں پیش آیا ہے جہاں قتیل صدیقی نام کے ایک نوجوان
کو بے رحمی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا، یروڈا جیل کی انتہائی
سیکورٹی والے انڈا سیل میں ہوئی قتیل صدیقی کی موت نے کئی سوالات جنم دیئے
ہیں حالانکہ جیل انتظامیہ نے اسے ساتھی قیدیوں کے ذریعے کیاگیا قتل قراردیا
ہے۔ لیکن چہار جانب سے قتیل صدیقی کی موت پر سوالات اٹھ رہے ہیں جن کا جواب
ابھی ملنا باقی ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ
میں پایا ہے کہ ہندوستان کی مختلف ریاستوں کے 47 اضلاع پر دو سال تک کئے
گئے ایک سروے میں پتہ چلا ہے کہ ہندوستان میں ہر سال1.8 ملین افراد پولیس
تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں قائم
قومی انسانی حقوق کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق روزانہ 43 افراد پولیس
زیادتی کے سبب ہلاک ہوجاتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ زیر حراست
اموات کی سب سے زیادہ شکایات جموں وکشمیر اور ملک کی شمال مشرقی ریاستوں سے
موصول ہوئی ہیں جہاں گزشتہ کئی دہائیوں سے بدامنی کا ماحول برپا ہے۔ رپورٹ
میں پولیس کی جانب سے دی جانے والی اذیتوں کی وضاحت کچھ اس طرح کی گئی ہے
۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیر حراست افراد کو ذہنی اور جسمانی اذیت کا شکار
بنایا جاتا ہے اور بعض اوقات تشدد کی انتہا کی وجہ سے انہیں ہمیشہ کے لئے
معذور کردیاجاتا ہے۔ جسم کے نازک مقامات پر بجلی کے شارٹ کا لگایا جانا،
جلتے ہوئے اسٹوو کو دونوں پیروں کے درمیان رکھ دینا نیز لوہے کی راڈ سے
دونوں پیروں کے درمیان تکلیف دینا پولیس زیادتی کا آزمودہ طریقہ ہے۔ گویا
اذیت دینے کے انتہائی خطرناک طریقوں کا استعمال ہماری پولیس کھلے عام کرتی
ہے ، لیکن اس طرح کی رپورٹوں کے باوجودپولیس زیادتی کو کنٹرول کرنے کے لئے
کوئی موثر اقدام تو درکنار ان واقعات کا کوئی نوٹس تک نہیں لیا جاتا، ان
واقعات سے نہ صرف پولیس کی سفاکی اور ظالمانہ کردار کا پتہ چلتا ہے بلکہ
ہندوستان میں حقوق انسانی کے تحفظ کی اصل تصویر سامنے آتی ہے۔
خالد مجاہد کی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ ابھی نہیں آئی ہے ۔ تفصیلات آنے میں چند
دن لگ سکتے ہیں۔جس طرح کے حالات ہیں اس میں سچ بات سامنے آئے اس کی امید
بہت کم ہے ۔کیوں کہ داکٹروں پر بہت دباؤ ہوتا ہے اور دباؤ کی وجہ سے ڈاکٹر
اذیت رسانی کی موت کو فطری موت یا کسی بیماری ہونے والی موت قرار دے دیتے
ہیں۔ یہ بات ایک رپورٹ میں سامنے آئی ہے ۔ ایشئن ہیومن رائٹس کے ڈائریکٹر
سہاس چکما کے مطابق’ان تحویل میں ہونے والی ہلاکتوں کی کوئی تفتیش نہیں
کرائی جاتی اور اس قسم کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ ڈاکٹر پولیس کے
زبردست دباؤ میں رہتے ہیں اور اسی دباؤ میں وہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ لکھ
دیتے ہیں کہ مرنے والے شخص کے ساتھ ایذا رسانی نہیں ہوئی ہے۔رپوٹ میں یہ
بھی کہا گیا ہے کہ ہندوستان ایذا رسانی سے ہونے والی اموات کو قبول کرنے سے
انکار کرتا رہا ہے۔آج سے کچھ برس قبل حقوق انسانی کے تحفظ کے لئے سرگرم
سماجی کارکنان کے مسلسل دباؤ کے بعد مرکزی حکومت نے انسداد تشدد بل تیار
کیا تھا جسے لوک سبھا نے پاس بھی کردیا تھا لیکن جب بل کی کمزوریوں کے خلاف
سماجی کارکنان نے آواز اٹھائی اسے مسترد کرکے اس بل کو واپس لے لیاگیااور
ازسرنو دوسراس بل کوڈرافٹ کیاگیا لیکن یہ نیا بل حکومت کی بدنیتی کی وجہ سے
ابھی تک سرد خانے میں پڑا ہے۔ آئے دن ہونے والی حراستی اموات نے ملک کے
سنجیدہ شہریوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ حکومتیں اگرحقائق کو نظرانداز
کرنے کے رویے پر اسی طرح کاربند رہیں تو ملک کے عوام میں مایوسی اور خوف
گھر کرجائے گا۔ یہ صورتحال ایک صحت مند مستقبل کے لئے انتہائی نقصان دہ
ثابت ہوگی اور موجودہ حالت میں تبدیلی پولیس کی جوابدہی طے کئے بغیر ممکن
نہیں ۔اس کے علاوہ ہندی میڈیا کے لئے بھی احتساب کا دن ہے جس طرح سربجیت کے
معاملے پر پاکستان کو وحشی ، جلاد اور درندہ گلا پھاڑ پھاڑ کر قرار دے رہے
تھے اب وہ اترپردیش پولیس کو کیا کہیں گے؟یکے بعد دیگرے جیل میں اذیت رسانی
سے کئی اموات ہوچکی ہیں اور وہ سب مسلمانوں کی ہوئی ہیں تو یہ سمجھاجانا
چاہئے کہ ہندوستان کی حکومت مسلمانوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے کا منصوبہ
بناچکی ہے؟ ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستانی جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد
تقریباً 35 فیصد ہے۔کیا یہ اسی سازش کاحصہ ہے کہ پہلے سازش کرکے اسے جیل
بھیج دیا جائے اور پھر جیل میں اسے قتل کردیا جائے اوریہ باور کرایا جائے
کہ گروپ بندی میں اس کی جان گئی؟ |