بیٹیوں کی شادی کے بعد والدین کی ذمہ داریاں ختم ہوجاتی ہیں؟

یہ مہندی پیار کے رنگوں میں پھیلی چاندنی جیسی
یہ کاجل شرم کے دامن سے لپٹا سرمئی بادل
یہ چوڑی مسکراہٹ کو چھپانے کی ادا جیسی
یہ کنگن اک شرارت اور محبت کا حسیں جادْو
یہ پایل چھیڑتی ہے ان کے آنے کی خبر دے کر
یہ آنچل اور ہواؤں کی عجب پیاری سی سازش ہے
کہ مجھ کو کھینچتی ہیں ان کے رستے کی طرف ہر پل
بس اب تم آ بھی جاؤ نا
ذرا آ کر یہ دیکھو نا
مجھے کتنا ستاتے ہیں
میری خفگی بڑھاتے ہیں
یہ مہندی اور یہ کاجل
یہ کنگن اور یہ پایل
ہوائیں اور یہ آنچل
بلاتے ہیں تمہیں ساجن
یہ ہر اس لڑکی کی تمنا ہے جو اپنے خوا بوں کے شہزادے کے انتظار میں پلکییں بچھائی بیٹھی ہے۔اس کا دل بس یہی چاہتا ہے کہ اس کا راج کمار گھوڑے پر سوار ہوکر آئے اور اپنے ساتھ ڈولی میں بیٹھا کر اسے لے جائے۔اس کی زندگی میں خوشیاں بکھر دے اور وہ اپنے ساجن کی باہوں میں کھوجائے۔یہ بات بالکل بجا اور سہی ہے کہ ہر لڑکی کی زندگی میں شادی کی امیدیں ہزاروں سپنے لے کر آتی ہے جب وہ اپنے ماں باپ،بہن بھائی،سہیلیاں،،سب کو چھوڑ کر ایک انجانے سفر پر چل نکلتی ہے۔جہاں ایسے اگر اچھا ہمسفر مل جائے تو وہ اپنی منزل پا لیتی ہے ورنہ ساری زندگی بھٹکتی رہتی ہے۔اپنی شادی کی بات سن کر جہاں دل اداس ہوتا ہے وہاں ایک عجیب سی خوشی بھی ہوتی ہے دْلہن بننے کی،کسی کے نام کی مہندی لگانے کی،کسی کی شریکِ حیات بننے کی ا ور اپنے پیار اور خلوص سے ایک نئی دْنیا آباد کرنے کی۔یقیناّ یہ ہر لڑکی کے دل کا ارمان ہوتا ہے کہ وہ دْلہن بنے اور ان لمحات کی خوشی ہونی بھی چاہیئے کیونکہ یہ اﷲ پاک کا فضل و کرم ہے کہ ہماری عزت و آبرو کو ایک محفوظ چادر سے ڈھانپ دیتا ہے۔لیکن جب یہی محفوظ چادر اپکے سر سے عظمت کی چاد ر تک اتاردیتا ہے تو ساری امیدیں ساری خوشیاں جل کر خاک ہوجاتی ہیں۔ بس ایک پل میں صدیوں سے بسایا ہوا پیار بھرا گھروندہ تنکا تنکا ہوکر بکھر جاتا ہے۔اس کے ارمانوں کا جنازہ نکل جاتا ہے ۔ آنکھوں سے حسین خوا ب اوجھل ہوجاتے ہیں اورخوف ناک مستقبل کی فکر ستانے لگتی ہے۔کائنا ت (تبدیل شدہ نام ) کی دنیا بھی اس وقت بکھر گئی جب اسے اپنے خوابوں کے شہزادے کا اصل چہرہ نظر آیا۔جب سسرال میں قدم رکھتے ہی اس نے اسے بیوی سے کہیں زیادہ ماں کی خادمہ اور گھر کی صاف صفائی کرنے وا لی ملازمہ بنادیا۔ وہ شادی کا پہلا دن تھا جب کائنات کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے اور آج شادی کے چار سال بعد اس کی آنکھوں کے آنسو سوکھ چکے ہیں وہ زندہ تو ہے مگر ایک لاش کی طرح ۔لیکن یہ لاش بھی اس وقت چیخ اٹھتی ہے جب اس کی بچی اس کے جلے ہوئے ہاتھ کو زور سے تھام لیتی ہے۔یہ درد زخم کا ہوتا ہے یا بچی کے خوفناک مستقبل کے تصور کا یہ تو ایک ماں کا دل ہی بتا سکتا ہے۔لیکن ایک لڑکی کا یہ درد ہر لڑکی محسوس کرسکتی ہے خواہ وہ آنکھوں میں ساجن کے گھر جانے کا خواب سجائی بیٹھی ہو یا اپنے گجرے کی خوشبو سے پیا کے گھر آنگن کو مہکا رہی ہو۔

پارک سرکس علاقے ( تبدیل شدہ علاقہ ) میں رہنے والی یہ لڑکی کائنات کی زندگی بظاہر با لکل آسان اور سہل ہے۔ آپ اسے مل کر اس کے درد کا اندازہ ہی نہیں لگا پائیں گے۔ عام سی دکھنے والی یہ لڑکی گزشتہ چار برسوں سے اپنے شوہر کی زیادتیوں کو خاموشی سے برداشت کر رہی ہے۔ پا ڈر اورسرخی کے پیچھے چھپا اصل چہرہ اس وقت نظر آتا ہے جب اس کی بیٹی اسے تو تلی زبان میں امی کہہ کر بلاتی ہے تب کائنات
کی آنکھیں بچی کے پیار اور سسسرال والوں کے مظالم سے بھر جاتی ہیں۔ اپنی بچی کوسینے سے لگاتے ہوئے پیار کرتے کرتے آنکھوں سے بے تحاشہ آنسو بہنے لگتے ہیں تو چہرے کا سارا پاڈر بہہ جاتا ہے اور آنکھو ں کے گرد سیاہ حلقے اس کی جاگتی اور گھٹتی راتو ں کی گوا ہی دینے لگتے ہیں ۔بچی کو پیار کرتے وقت جب اسکی ساری لالی اسکے گالوں پر لگ جاتی ہے تو کا ئنات کے ہونٹوں پر چوٹ کے وہ نشان بھی نمایاں ہوجاتے ہیں جو چیخ چیخ کر اس کے درد کو بیان کررہے ہوتے ہیں۔ چوڑیوں کے نیچے جلنے کے زخم کا درد بھی اس وقت نظر آتا ہے جب اسکی بچی آئس کریم والے کو دیکھ کر آئس کریم کی ضد کرتے ہوئے زور سے اسکا ہاتھ کھنچتے ہوئے آئس کریم والے کے پاس لے جاتی ہے۔ اس وقت اگر آپ کا ئنات سے بات کریں تو اس کے دل کا کرب محسوس کر سکتے ہیں کہ وہ کس طرح اپنے زخموں کو چھپا کر بچی کے لئے ہنٹوں پر جھوٹی مسکرا ہٹ بکھر دیتی ہے۔

’’میں بہار کے ایک چھوٹے سے ضلع کی رہنے والی ہوں ۔میرے والد کے انتقال کے بعدامی میری شادی کے لئے پریشان رہنے لگیں تبھی ان کے پہچان کے ایک شخص کے ذریعہ کو لکاتہ کے پارک سرکس علاقے میں رہائش پزیر ایک خاندان کا علم ہو ا ۔لڑکا برسر روزگار تھا الیکٹرونک کمپنی میں اچھی تنخواہ پر معمور تھا ۔دو بہنوں کی شادی ہوچکی تھی اور وہ بھی اپنے اپنے سسرال میں عیش وآرام کی زندگی بسر کررہی تھیں ۔لڑکے کے دو چھوٹے بھائی ہیں جو ٹیوشن کرکے اپنی جیب خرچ نکال لیتے ہیں۔ والد اب ریٹائر ہوچکے ہیں اور زیادہ تر وقت گھر پر ہی گزارتے ہیں ۔ ماں کا مزاج تھوڑا کڑا ہے اور نہایت تلخ لہجے میں بات کیا کرتی ہیں لیکن پھر بھی میری شادی کے لئے یہ گھر مناسب لگا اور امی نے پوری تسلی کرنے کے بعد ہماری شادی کردی۔والد کا سایہ سر پر نہ ہونے کے باوجود انہوں نے مجھے ہر ساز و سامان سے آراستہ کر کے رخصت کیا اور ساتھ ہی یہ سیکھ بھی دی کہ شادی کے بعد لڑکی کا اصل گھر اس کا مائیکہ نہیں سسرال ہوتا ہے۔ دلہن کی ڈولی اس گھر میں جاتی ہے اور اس کے بعد وہاں سے اس کا جنازہ نکلتا ہے۔ساس کا لب ولہجہ تلخ اور سخت ہوتا ہے اس لئے اس کی باتوں کو برداشت کرنے کی عادت ڈالنا اور اسے الٹ کر جوا ب نہیں دینا۔ شوہر تمہارا مجازی خدا ہے اسے ناراض کرنے سے خدا ناراض ہوتا ہے ۔ماں کی اسی سیکھ نے میری زبان پر تالہ لگادیااور میں یہ سوچ کر ان کی ہر بات برداشت کرتی رہی کہ شاید زندگی سنبھل جائے ۔میں آج بھی خاموشی سے ہر بات ہر ظلم ہر تشنہ وطعنہ برداشت کئے جارہی ہوں کیونکہ آج مجھے اپنی زند گی کی خوشیوں سے کہی زیادہ اپنی بچی اور چھوٹی بہن کی مستقبل کی فکر ہے۔‘‘

کائنات کی زندگی ہماری اور آپ کی طرح سہل اور آسان نہیں۔صبح آنکھ کھلتے ہی گھر کی صاف صفائی میں مصروف ہوجاتی ہے اورصبح کے نو بجے تک سبھوں کے لئے ناشتہ تیار کرتی ہے ۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ تو ہر گھر کا معمول ہے لیکن نمک کم یا زیادہ ہونے پر کھانہ اس کے منھ پر پھینک دینا کوئی عام بات نہیں۔سسرال والوں کو کھانا گرم چاہئے لیکن جب اس گرم کھانے کی وجہ سے کسی کا ہاتھ یا زبان جل جاتی ہے تو اس گرم کھانے کو اس پر انڈیل دیا جاتا ہے جس کی تا ب نہ لاکر وہ زوروں سے چلاتی ہے تو اس کے منھ میں گرم گرم کھاناٹھونس دیا جاتا ہے اور اسے زمین پر نہ پھینکنے کی ہدایت بھی کی جاتی ہے ۔ تکلیف سے اس کی آنکھیں باہر نکل آتی ہے اور سانس پھولنے لگتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے بس یہ وقت اس کی زندگی کا آخری وقت ہے اب اسے تمام مشکلوں سے نجات مل جائے گی لیکن دوسرے ہی پل اس کی بچی اس سے آکر لپٹ جاتی ہے یہ ساری ا ذیتیں اگر اس کی ساس اسے دیتی تو یہ سوچ کر برداشت کر لیتی کہ ساس بے مروت اور بے رحم ہوتی ہے اسے صرف اپنی بیٹی کی خوشی کا خیال ہوتا ہے۔ بہو کی تکلیف کا نہیں ۔ بہو کو تکلیف دینا اس کا شیوہ ہے ۔پھر شوہر کی محبت بھری بس ایک نظر اسکے سارے زخموں پر مرہم لگادیتی ہے۔اس کے پیار کا احساس ہی سارے درد دور کردیتا ہے لیکن جب شوہر ہی ظالم اور جابر ہوجائے تو ایک بیوی ٹوٹ جاتی ہے اس کی ساری امیدیں ریزہ ریزہ ہوکر بکھر جاتی ہے اور زندگی کی آگ جہنم کی آگ سے زیادہ تپش اور جلن پیدا کردیتی ہے۔ کائنات نے آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا کہ ’’سارا دن گھر میں نوکر کی طرح کام کر کے ساس کی ڈانٹ پھٹکار سن کر جب رات کو تھک کرمیں اپنے کمرے میں جاتی ہوں تو’ انکی ‘ (شوہر ) ہوس اور وحشی پن کا شکار ہوتی ہوں جس کے زخم میرے جسم سے کہیں زیادہ میرے دل کو مجروح کردیتے ہیں اور پھر روتے روتے ساری رات اس امید کے ساتھ گزا رد یتی ہوں کہ شائدیہ رات میری زندگی کی آخری رات ہو اور دوسرے دن تاریکی کو چیرتی ہوئی سورج کی کرنیں مجھے حیات ابدی عطا کرے گی ۔‘‘

سورج کی پہلی کرن جہاں ہماری زند گی میں نیا سویرا اور امید کی نئی کرن لے کر آتی ہے وہیں کائنات خود کو زندہ پاکر مایوس ہوجاتی ہے اورپھر ایک دن اسی کیفیت اور اضطراب و پریشانی میں گزارنے کاخوف اس کے چہرے پر اداسی بکھر دیتا ہے ۔ لیکن جب اپنی تین سال کی بچی کو گود میں لیتی ہے تو اس کی ساری یاس و مایوسی اس کی معصوم مسکراہٹ میں تھوڑی دیر کے لئے گم ہوجاتی ہے۔ ایک بار پھر وہی جدوجہد اور تکلیف کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس کی کائنات اب عادی ہوچکی ہے۔کائنات نے ڈرتے ڈرتے کہا ’’ کہ’ وہ‘ بظاہر نہایت شریف اور سیدھے سا دے سے انسان لگتے ہیں ۔ اکثر موقع ملنے پر اپنی بچی ’’ شفا ‘‘ کے ساتھ کھیلتے بھی ہیں ۔ان میں شراب نوشی کی عادت نہیں کیوں کہ شراب کے نشے میں انسان وحشی بن جاتا ہے۔لیکن’انہیں ‘ وحشی بنے کے لئے شراب کا سہارا نہیں لینا پڑتا یہ وہ درندہ ہے جو گوشت دیکھتے ہی جھپٹ پڑتا ہے۔جی ہاں و ہ مجھے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں سمجھتا ہے۔بس میں اس کی جسمانی ہوس پوری کرنے کاایک ایسا ذریعہ ہوں جس پہ نہ کوئی پیسہ خرچ کرنا پرتا ہے اور نہ ہی میں ا س کے خلاف کوئی مقدمہ درج کرا سکتی ہوں اور جب کبھی مجھ سے دل بھر جاتا ہے تو اپنی ضرورتوں کو پر کرنے کے لئے باہر کی ان لڑکیوں کا سہارا بھی لیتا ہے جن کا کام ہی شادی شدہ گھروں کو برباد کرنا ہے۔‘‘جب میں نے اس سے ان سب زیادتیوں کو برداشت کرنے کی وجہ دریافت کی تو اس نے صرف اتنا کہا کے اس کہ علاوہ اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ۔آخر اس نے ایک لڑکی کو جنم دیا ہے۔‘‘میں نے اس کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا ؟ اس نے اپنے ہنٹوں پر جھوٹی مسکراہٹ بکھرتے ہوئے کہا کہ’’ کیا ایک بچی کو پیدا کرنا گناہ نہیں؟ وہ بھی تب جب سسرال والے پوتے کی امید لگائے ہوئے ہوں۔میں نے تو ان پر مالی بوجھ ڈال دیا ہے۔‘‘ کیا تم بھی ایسا سوچتی ہو ؟ میں نے سوال کیا ۔’’آپ ایک بے بس ماں کی تکلیف کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتیں۔ میں اپنی بچی کے مستقبل کے خیال سے ہی خوف زدہ ہوجاتی ہوں ۔اگر مجھے کچھ ہوگیا تو اس بچی کا کیا ہوگا ۔میری نند سسرال کے بجا ئے گھر پر پڑی رہتی ہے اور کئی کئی گھنٹے میری بچی سے ہاتھ پیر دبا تی رہتی ہے۔ ساس کو بھی یہ بات ناگنوار نہیں گزرتی وہ بھی اسے بلا وجہ مارتی پٹتی رہتیں ہیں اکثر اسکے ہاتھ سے دودھ کا گلاس یہ کہہ کر چھین لیتیں ہیں کہ اسے دودھ پلا کر کیا حاصل ہوگا ؟‘‘ اتنا کہتے کہتے وہ زور زور سے رونے لگیں ۔ میں نے اسے سہارا دیتے ہوئے چپ کرایاتو اس نے پھر سے باتیں شروع کی اور کہا ’’ ایک دن جب میں نے اپنے شوہر کو سمجھانے کی کوشش کی توانہوں نے مجھے دوسروں کے ساتھ جسمانی تعلق بنانے پر مجبور کیا حتیٰ کے یہاں تک کہہ دیا کہ وہمجھے اسی کام پر لگائے گا تاکہ میری حرام خوری بند ہو اور گھر پر آمدنی کا ذریعہ بنا رہے۔پس شوہر کی زبان سے ان الفاظ کا نکلنا تھا کہ میں ٹوٹ کر بکھر گئی اور با لکل بد حواس سی ہوگئی ۔تبھی ساس نے نہایت تلخ لہجے میں آواز دیا ’’مہا رانی گھر کے کام کاج کیا تیری ماں کرے گی؟‘‘پھر کسی طرح جب میں خود کو سنبھالتے ہوئے اپنے کمرے سے باہر نکلی تو ساس نے میری چوٹی کھنچتے ہوئے مجھے باورچی خانے میں پھینک دیا اور کھانا بنا نے کا اشعارہ کرتے ہوئے کہا’’ہر وقت منحوس صورت بنائے رہتی ہے ۔اس منحوس نے گھر کا ماحول بھی خراب کردیا ہے۔یہ ایک کیا کم تھی اب اس کی بیٹی کو بھی پالنا ہوگا ‘‘۔میں نے ساس کی طرف پر امید نظروں سے دکھا اور اپنے شو بات اسے اس امید پر بتادی کہ شاید وہ ایک عورت ہونے کے کا حق ادا کردیں اور اپنے بیٹے کو سمجھائیں کہ اس کے دل میں اس خیال کا آنا کس قدر غلط ہے ۔ میں اس گھر کی بہو ہی نہیں اس گھر کی عزت بھی ہوں ۔لیکن ساس کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکر ا ہٹ دیکھ کرمیں گھبرا گئی۔ ان کی آنکھیں ایسے چمک رہی تھیں جیسے انہوں نے کوئی قلعہ فتح کر لیا ہو ۔سنتے ہی فوراً بپھر اٹھی اور کہا ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے میرا بیٹا وہ تیری چال چلن سے اچھی طرح واقف ہے اسی لئے ۔خود دوسرے مردوں کے پاس جائے تو ٹھیک ۔ایسے گھر پر بھی کچھ آمدنی ہوجائے گی۔تیرا اور تیری بچی کا خرچ نکل جائے گا ۔‘‘ اتنا کہتے کہتے وہ سسک سسک کر رونے لگی۔

بات صرف جسمانی ا ذیت کی ہوتی تو پھر بھی ایک بے بس ولاچار بہو اور محبت بھرا دل رکھنے والی بیوی خاموشی سے اسے برداشت کر لیتی ۔لیکن جب اس کی عزت بچانے والا اس کا مجازی خدا ہی اس کے سر سے عظمت کی چادر اتار انے میں لگ جائے تو اسے معاف کرپانا آسان نہیں ہوتا ہے۔کائنات کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو اا ب نہ وہ ان لوگوں کے ساتھ اس گھر میں رہ پارہی ہے اور نہ ہی گھر چھوڑ سکتی ہے ۔جب ہم نے اس سے پوچھا کے وہ ان لوگوں کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کرتی تو اس نے ڈرتے ہوئے کہا کہ ’’میرے والد نہیں ہیں ۔ابو کے پنشن سے امی اور چھوٹی بہن کا گزارا ہوتا ہے۔وہ تو میری اس حالت کے بارے میں جانتی ہی نہیں۔رشتہ داروں میں بھی ایسا کوئی نہیں جو مالی اعتبار سے ہماری مدد کرسکے ۔ وہ اپنی بچی کے لئے خاموش ہے ۔ اگر میں انہیں چھوڑ دو تو میری امی جیتے جی مرجائیں گی ۔پھر میری بہن سے شادی کو ن کرے گا ؟ لوگ تو مجھ میں ہی عیب نکالیں گے اور پھر میری بچی اس کی پرورش کیسے ہوگی؟ ‘‘ لڑکی ہونا ہی کیا کم گناہ ہے اس پر طلاق کا بدنما داغ میں نہیں جھیل پاوں گی ‘‘۔

میں نے اس سے پھر سوال کیا اس نے تمہیں زبر دستی کسی آدمی کے پاس بھیجا؟ ۔ کچھ دیر تو وہ خاموش رہی پھر اس نے کچھ بھی بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ’’ میری زندگی تو برباد ہوگئی ہے اب میں اپنی بچی کا مستقبل خراب نہیں کرسکتی۔ اب مجھے ہر پل اپنی بچی کی مستقبل کا خیال ہے کہ جانے کل اس کا مستقبل کیا ہوگا ؟ ‘‘اتنا کہتے کہتے اس کی آنکھیں بھیگ گئی اسکا ضبط ٹوٹ گیا اور وہ رو پڑی۔میں کوئی اور سوال کرتی اس سے پہلے شفا اپنے ننھے ننھے نرم وگداز ہاتھوں سے کائنات کے آنسو پوچھنے لگی اور کائنات مزید کچھ نہ بتاپانے کی معافی مانگتے ہوئے مجھ سے ہاتھ ملاکر رخصت ہوگئی ۔اور ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرگئی کہ کیا شادی کردینے سے والدین کی تمام ترذمہ داریاں ختم ہوجاتی ہیں ؟ کیا شادی کے بعد سسرال والوں کے مظالم برداشت کرنا ہر بہو کا فرض ہوتا ہے؟ کیا لڑکی پیدا کرنا گناہ ہے ؟ بیٹی پر جان نچھاور کرنے والی ایک ماں اتنی بے رحم ساس کیسے بن جاتی ہے؟ ایک عورت دوسری عورت کی دشمن کیوں ہوتی ہے؟ ۔عور ت قانون کا دروازاہ کھٹکھٹانے سے کیو ں ڈرتی ہے ؟ طلاق شدہ ہونے کا داغ صرف عورت پر کیوں لگتا ہے ؟ان سوالات کا جوا ب تلاش کرنا نہایت ضروری ہے ۔

لڑکی تو آرزوں و ارمانوں کی دنیا سجا کر محبت بھری آغوش سے جدا ہوکر سسرال کی چوکھٹ میں قدم رکھتی ہے۔ وہ اس بات کو جانتی ہے کہ وہ ایک نئی دنیا شروع کرنے جا رہی ہے۔ وہ کسی کی شریک حیات بن گئی ہے اور اپنے شریک حیات کے گھر جارہی ہے۔ جہاں اس کو اپنے شوہر کی بھر پور توجہ حاصل ہو گی۔ وہ اس کے لئے مضبوط سائباں ثابت ہوگا۔مگر افسوس کہ اس کے سارے خواب چکنا چور ہوجاتے ہیں ، اس کو زبردست ٹھیس لگتی ہے جب وہ یہ دیکھتی ہے کہ سسرال والے اس کو جذبات و احساسات سے عاری ایک مشین سمجھتے ہیں ، جس کا کام صرف اطاعت و خدمت ہے۔ جس کی ذات کو ہر شخص تنقید کا نشانہ بنا سکتا ہے۔ اور شوہر نامدار خاموش تماشائی بن کر کھلی نااتفاقی اور ظلم کو اس لئے دیکھا کرتے ہیں کہ بیوی کی تائید میں کچھ کہنا ماں باپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کے خلاف سمجھتے ہیں اور ان کو ناراض کر کے دوزخ کا ایندھن بننا نہیں چاہتے اور پھر یہ بھی ڈر ہے کہ لوگ انہیں زن مرید کہنے لگیں گے۔ وہ بیوی کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ اس کی دلجوئی کریں یا محبت بھرا سلوک کریں ا ور جب اس کو سنایا جاتا ہے کہ اس کو خدمت کے لئے لایا گیا ہے۔اور اگر شوہر ہی بے مروت اور عصمت دری کرنے والا ہو تو اس کا وجود باقی نہیں رہتا اور وہ بس وہیں مر جانا چاہتی ہے۔

شادی چار لفظوں کا مجموعہ بظاہر چھوٹا سا لفظ مگر بڑا معنی خیز ہے یہ ایک بہت بڑی معاشرتی مذہبی اور سماجی ذمہ داری ہے جو صرف شادی شدہ لوگوں پر عائد نہیں ہوتی ہے بلکہ سماج کے ہر اس فرد پر عا ئد ہوتی ہے جو اس سماج کا حصہ ہیں ۔اگر ہم شادی کو سماجی زندگی کا اہم جز مانتے ہیں تو ہمیں اس کی ذمہ داریوں سے بھی واقف ہو نا چاہئے ۔’’کائنات‘‘ کی جگہ آپ کی بیٹی یا بہن بھی ہوسکتی ہے۔اپنے آس پاس ہو رہے گناہ کو سمجھیں ۔گھریلو جھگڑے کبھی کبھی اپنے دائرے سے نکل کر تشدد کی شکل اختیا ر کر لیتے ہیں اسے نظر انداز نہ کریں ۔فوراً کوئی ٹھونس قدم اٹھا ئیں ’’ کا ئنات‘‘ مجبور ہے آپ نہیں۔

اپنے آس پاس ہورہے گناہ کے خلاف آواز اٹھائیں ۔ ہمارے گھروں کے تاریک کونوں میں ہونے والی ان ذیادتیوں پربے لاگ تبصرہ کریں جن سے ہمارا اجتماعی مزاج تشکیل پاتا ہے۔سب سے بڑھ کر یہ انسانی حساسیت کو مجروح کرتا ہے۔کیونکہ اس احساس ذمہ داری کے بغیر ایک صحت مند معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
NOOR US SABA
About the Author: NOOR US SABA Read More Articles by NOOR US SABA: 7 Articles with 9693 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.