جن نفوسِ قدسیہ نے اپنی ماتھے کی آنکھوں سے مصطفی جانِ رحمت صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم کی زیارت کی اور حالتِ ایمان پہ اس دنیا سے وصال کیا؛انہیں
اصطلاح میں صحابیِ رسول کہتے ہیں۔ اﷲ کے حبیب مصطفی جانِ رحمت صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم کے مشن کو جن جاں بازوں نے نصف صدی کے اندر اکنافِ عالم میں
پہنچایا، اسلام کے نغمۂ توحید و رسالت سے کفرستان کے در و دیوار کو زیر و
زبرکیا، جنہوں نے وفاداری اور وفا شعاری کی وہ مثالیں دنیا کے سامنے پیش
کیں جس کا جواب آج تک کسی قوم جماعت یا تہذیب نہیں دے سکی، جن کی کوششوں سے
سجدے آوارہ ہونے بچے، اخلاقی اقدار رسوا ہونے سے بچے، آدمی کو انسانیت کا
درس ملا، اچھے برے کی تمیز ہوئی، تہذیب و معاشرت میں سدھار پیدا ہوا؛ اسی
جماعت کو صحابۂ کرام کی مقدس جماعت کہتے ہیں۔رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین!
اسلامی تعلیمات اور تاریخ شاہد ہے کہ اصحابِ رسول کو ہر دور میں اہلِ ایمان
نے عقیدت و احترام کی نگاہ سے دیکھا۔ان کے مقامِ بلند اور عظمت و شان کے
آگے مسلمانوں کی گردنیں ہر دور میں جھکی رہیں۔ ان سے محبت و الفت اور عقیدت
کو نشانِ ایمان بتایا اور مانا گیا۔ان سے عداوت اور بغض کو نفاق و گم راہی
کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔احادیث میں اس کی تعلیم دی گئی۔وہ ہر دور میں
اہل ایمان کے لیے مقتدا و پیشوا کی حیثیت رکھتے ہیں،ان کے اقوال حجت، ان کے
افعال دلیل اور ان کے وجود کو باعث خیر وبرکت ہی جانا جاتا ہے۔روافض کے
علاوہ شاید ہی کوئی شقی القلب فرد یافرقہ ہو جو ان کی عظمت و شان کا منکر
ہو اوران کی بارگاہ کا جریح و گستاخ ہو۔
تاریخِ اسلام میں کیسے کیسے خونی اور جنگی دور گزرے،آپسی سیاسی چپقلش بھی
رہی ہے مگر کبھی بھی ان پاک باز ہستیوں کی بارگاہوں میں گستاخی کا کوئی
واقعہ نہیں ملتا۔مگر وقت کی یہ ستم ظریفی ہے آج جب کہ عالمی سطح پر
مسلمانوں کی بربادی و تباہی کے نہ صرف منصوبے بنائے جارہے ہیں بلکہ متعدد
ممالک میں خونِ مسلم سے ہولی کھیلی جارہی ہے۔ عرب ممالک میں انقلاب کے نام
پر مسلم املاک و جان کی تباہی و بربادی بھی اسی سازش کا حصہ معلوم ہوتی
ہے۔یہ بات کسی غلط فہمی کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان تازہ واقعات کی بنا پر
کہی جارہی ہے جو ٹھوس اور مستند ذرائع سے ہم تک پہنچ رہے ہیں۔مصر کے
بعدلیبیااور شام سب سے زیادہ عرب انقلاب سے متاثر ہوئے۔اس انقلاب کے جواز
یا عدم جواز سے ہمیں بحث نہیں مگر اس انقلاب کے پس پردہ جن صہیونی عزائم کی
تکمیل کی راہ ہم وار کی جا رہی ہے وہ یقینا ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
افغانستان میں طالبانی ظالم حکومت کے دورِ اقتدار میں جس طرح اولیا ے کرام
کے مزارات کو مسمار کیا، اہل سنت کے علما و مشائخ کو تہہ تیغ
کیاگیا،پاکستان میں عالمِ اسلام کی ممتاز اور مسلّم ہستی مفتی ڈاکٹر سرفراز
نعیمی کی شہادت اور سانحۂ نشتر پارک کے صدمے کیا کم تھے کہ لیبیا اور شا م
میں بھی انقلابی مہم کی آڑ میں اولیا و صحابۂ کرام کے مزارات کو شرک و بدعت
کے مرکز بتاکر بموں سے اُڑا دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔لیبیا میں شدت پسند
وہابی دہشت گردوں نے جب اہل اﷲ کے مزارات کو شرک و بدعت کے فتوے دے کر بموں
اور میزائلوں سے اُڑانے کا سلسلہ شروع کیا تھا اس پر عالمِ اسلام کی سب سے
بڑی اور تقریباً ہر مکتبِ فکر کی مسلّم درس گاہ جامعہ ازہر مصر کے شیخ
الجامعہ اور مستند مفتیانِ کرام نے نہ صرف مزاراتِ اولیا و صحابہ کو عین
اسلام بتایا بلکہ ان مزارات کی تباہی کی اس طرح کی کارروائیوں کو غیراسلامی
اوردہشت گردی سے تعبیر کیا تھا۔لیبیا کے بعد شام میں اسی طرح کی بم باریوں
کے ذریعے بزرگانِ دین اور صحابہ کے مزارات کو مسمار کرکے اپنی صہیونیت
نوازی کا ثبوت دیا جارہاہے۔ چند ہفتوں قبل حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کے مزار مبارک کو بم باری سے نشانہ بن کر شہید کر دیا گیااور ابھی جاری
ماہ مئی کے پہلے ہفتہ میں شام کے دارالحکومت دمشق کے ’’عذرا‘‘نامی علاقے
میں واقع صحابیِ رسول حضرت حجر بن عدی کامزار شہید کر دیا گیا۔قابلِ غور
بات یہ ہے کہ جو قوتیں ملک شام میں مزاراتِ اولیا کو بموں کے ذریعے مسمار
کر رہی ہیں انہیں ابھی تک دمشق کے قدیم قبرستان میں واقع ’’امام الوہابیہ‘‘
شیخ ابن تیمیہ کی قدِ آدم کے برابر پکّی بنی ہوئی ’’مزار‘‘ اب تک وہابی
دہشت گردی سے محفوظ ہے۔یہ بات کس ذہنی و فکری اور اعتقادی رشتہ کی طرف
اشارہ کرتی ہے، اس کا فیصلہ ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں !!! |