بے پردگی

آج ہمارے معاشرے میں بے پردگی جس طرح عام ہےاس سے دامن بچانا اتنا ہی ناگزیر ہے نئی جدت کا رنگ دے کر ہر طرف پے پردگی ہی کا سماں ہے نیز اسی طرح شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں اس قدر خرافات اور تکلفات ہیں کہ ہر ایک دوسرے پے سبقت کی غرض سے اس قدر اہتمام کرتا ہے کہ پیسوں کی کمی کو پھرپوراکرنے کےلیے سودی قرضے رشوت جیسی برائیوں میں مبتلا ہوناپڑتاہے جسکی بنیادی جڑ یہی فضول خرچی اور اسراف ہے جب نکاح کی برکت کم خرچ کرنے میں ہے تو امت برکت کیوں نہیں لیتی ؟؟؟

آج کل ایک رواج ہے شادی بیاہ میں مووی بنانے کا اس درجہ بے حیائی کا عالم ہے کے باہر سے مووی میکر آرہا ہے نہ غیرمحرم کی فکر نہ کوئی پردہ مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کی مووی بنائی جارہی ہے دولہن دولہا کے ساتھ غیر محرم رشتہ دار بھی کھڑے ہیں اور پھر گھرگھرمووی کی زیارت ہوتی ہے اپنی محرمات کو غیر مردوں کو دیکھایا جارہاہے پھر اکثر لوگ یہی کہتے ہیں صاحب پریشانی ہے روزی میں برکت نہیں ۔

جب ہم اللہ کی ناراضگی کو دعوت دیں گے تو لازمی بات ہے روزی میں برکت کہاں سے آئے گی پریشانیاں ہوں گی نہ دن کو چین ملے گا نہ رات کو آرام میسر آئے گا ہر وقت مولا کو ناراض کیے جارے ہیں اور پھر رونا پیٹتے ہیں کے گھر میں چین وسکون نہیں پریشانیاں ہیں چین وسکون تو اللہ کی یاد اور اسکے زکرمیں ہے جو ہم بھلا بیھٹے ہیں ۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں عشق مجازی کا مرض تین طرح کا ہوتا ہے بعض لوگوں کو حسین لڑکوں سے عشق ہوتا ہے بعض کو حسین لڑکیوں سے اور بض کو دونوں طرف میلان ہوتا ہے۔ اسی عشق سے پھر بدکاری اور زنا جنم لیتے ہیں اسکا سبب ہی پے پردگی ہے جو اپنے زھرآلود اثر سے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے شاعر کہتا ہے
کسی خاکی پے مت کر خاک اپنی زندگانی کو
جوانی کر فدا اس پر کہ جس نے دی جوانی کو

حضرت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے وعظ میں بیان کرتےہیں کے تقسیم ہند سے پہلے ایک شوہر اپنی بیوی کوخوب عمدہ لباس پہناکر شملہ پہاڑکی ہوا کھلا رہاتھا اس زمانے میں وہاں انگریزوں کے بنگلے ہوا کرتے تھے۔ایک انگریز کے بنگلے کے باہر دوگورے ہاتھوں میں بندوق لیے چوکیداری کررہے تھے۔ گرمی کا موسم تھا یہ مرد(شوہر) اپ ٹو ڈیٹ ٹائی لگائے ہوئے اپنی بے پردہ نوجوان بیوی کو خوب بناسنوارکر اسکے فیشن دیکھا رہاتھا۔ان چوکیداروں نے بندوق کی نوک پر اس مردکے سامنے اسکی بیوی سے منہ کالا کیا۔شوہر بے بسی کی تصویر بنے اسے دیکھ رہاتھا۔

آج ہمارے معاشرے کا بھی یہی حال ہے طرح طرح کی آفات ہم پر ہیں لیکن ھم اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے اور اپنی زندگی میں مست ہیں ناجانے وہ کونسی گھڑی ہوگی کے موت کا فرشتہ آئے اور ھماری روح اسی حال میں ہی قبض ہوجائے کہ بقول شاعر
وائے نادانی کے وقت مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھاجوکچھ کے دیکھا جو سنا افسانہ تھا

ہماری اولین کوشش یہی ہوکے اپنے گھر سے پردہ کا رواج عام کریں دوسروں پے تنقیدکرنا بہت آسان ہوتا ہے لیکن خود عمل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے ہم جب تک خود بے پردگی سے نہیں بچے گے ہم کسی اور کو بھلا کیا روک سکے گے اسلام تو ہمیں درس ہی یہی دیتا ہے کہ اپنی نگاہوں کو جھکا کرچلو کسی غیرمحرم پرنظریں مت گاڑو۔
بس ہےاپنا ایک نالہ بھی اگر پہنچے وہاں
گرچہ کرتے ہیں بہت نالہ وفریاد ہم
اللہ ہمیں ہر قسم کی آفات سے بچائے اور قلب سلیم عطاء فرمائے(آمین)
داغ حسرت سے دل سجائے ہیں
تب کئی جاکے انکو پائے یہں
قلب میں جس کے جب وہ آئیں ہیں
اپنا عالم الگ سجائے ہیں
ان حسینوں سے دل بچانے میں
میں نے غم بھی بہت اٹھائے ہیں
حسن فانی کے چکروں میں میر
کتنے لوگوں نے دن گنوائے ہیں
کام بنتا ہے فضل سے اختر
فضل کا آسرا لگائے ہیں
yasir qazi
About the Author: yasir qazi Read More Articles by yasir qazi: 15 Articles with 19056 views IAM 19 YEAR OLD LIVE IN KARACHI
I WANT TO BECOME IN FUTURE A FAMOUS POET.....(ITS MY DREAM)
.. View More