آج جس حساس موضوع پر قلم کشائی کرنے کی جسارت کررہا ہوں یقینا اپنے تئیں
ایک مشکل اور پیچیدہ موضوع ہے ۔ کیونکہ اس کے تمام تر رموز و اقاف بیان
کرنا میرے جیسے عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے ، تاہم ایک کوشش ضرور کی ہے
، امید ہے پڑھنے والوں کو پسند آئے گی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
ترجمہ '' اور جب تم بات کہو تو عدل کرو ، اگرچہ کوئی قریبی ہی کیوں نہ ہو
''۔
اسلامی ثقافت عدل و انصاف کا محور و مرقع ہے ، نبی کریم ۖ نے فرمایا کہ
'' قیامت کے دن جب خدا کے عرش کے سایے کے سوا کوئی دوسرا سایہ نہ ہوگا، خدا
سات شخصوں / افراد کو اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا ، جن میں ایک شخص ''
امام عدل '' ہوگا۔
ارشاد ہوتا ہے کہ '' بے شک اللہ تمہیں عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے ''۔
ایک معاشرہ ظلم و جبر پر تو تشکیل پاسکتا ہے مگر عدل وانصاف کے بغیر یہ عمل
ناممکن ہے ، عدل دراصل غریب اور امیر کو ایک صف میں کھڑا کرنے کا دوسرا نام
بھی ہے ۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
اسلام میں تمام انسان برابر ہیں، برابری کا یہ پائیدار قانون معاشرہ کے ہر
فرد پر لاگو ہوتا ہے ۔ ارشاد نبوی ۖ ہے کہ کسی عربی کو کسی عجی ، کسی گورے
کو کسی کالے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ، فوقیت صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے ''
۔
جس معاشرے میں اونچ نیچ ، جمع تفریق ، امیر غریب کا امیتاز ختم نہ ہوسکے وہ
معاشرہ جہالت کے اندھیروں میں پنپتا ہے ۔ بدقسمتی سے آج غریب انصاف کے حصول
کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانے ، عدالتوں کے چکر لگانے پر مجبور ہے ، جبکہ
امیر کمرہ عدالت سے فرار ہورہے ہیں۔ آج عادل غریب کی سنتا نہیں ، جبکہ امیر
عادل کی سنی ان سنی کرکے '' زورِزر '' سے معاشرہ میں تفریق ڈالے ہوئے ہے۔
غریب انصاف نہ ملنے پر خودکشیاں کررہے ہیں ، امیر طبقہ جرائم سے لت پت ہے ،
پھر بھی ہم پر حکمرانی کررہا ہے ۔ عجیب معاشرتی تفریق ہے ۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہاں انصاف کی متلاشی زیادہ تعداد خواتین کی ہے ۔
خواتین کے حقوق کے نام پر لوٹ مار کرنے والی نام نہاد این جی اوز بھی اس
حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ یا پھر ان کی آنکھوں پر سیاہ
پٹی باندھ دی گئی ہے ۔ عدالتوں کے چکر لگاتی یہ خواتین انصاف نہ ملنے پر
ماتم کناں تو ہیں ہی تاہم ہمارے معاشرتی اقدار کیلئے بھی سوالیہ نشان ہے ۔
شاکر شجاع آبادی نے اس مایوسی کا خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے کہ
اے پاکستان دے لوکو! پلیتیاں کوں مٹا ڈیو
نتاں اے جئیں وی ناں رکھئے، اے ناں اوں کوں ولا ڈیو
جتھاں مخلص نمازی ہنِ او مسجد وی ہے بیت اللہ
جو ملاں دے دکاناں ہنِ مسیتاں کوں ڈہا ڈیو
اُتے انصاف دا پرچم تلے انصاف وِکدا پئے
اِیہو جئیں ہر عدالت کوں بمع عملہ اڈہ ڈیو
پڑھو رحمن دا کلمہ بنڑوں شیطان دے چیلے
منافق توں تاں بہتر ہےِ جو کافر ناں رکھا ڈیو
جے سچ آکھنڑ بغاوت ہےِ بغاوت ناں ہےِ شاکر دا
چڑھا نیزے تے سر بھانویں میڈے خیمے جلا ڈیو |