عقیدہ: عقل کا دشمن؟

سب تیِرے سوا کافر آخر اس کا مطلب کيا
سر پِھرا دے انسان کا ايسا خبط مذہب کيا

گزشتہ ہفتے ايک کام کی غرض سے ملتان جانا ہوا- بس کے لاہور سے نکلتے ہی ڈرائيور نے کيسٹ لگا دی، ابھی لتا کا نغمہ 'دو دل ٹوٹے دو دل ہارے، دنيا والو صدقے تمہارے' پوری طرح سے ابھرا بھی نہ تھا کہ ايک گرجدار آواز گونجی: 'بند کرو يہ فحش گانے' گھنی داڑھی والا عالم غيض ميں تھا- ايک سواری نے اس کو کہا کہ 'تم کون ہو روکنے والے، ہم تو سنيں گے'- کچھ اور سواريوں معہ خاکسار نے بھی اس آواز کا ساتھ ديا اور کہا 'ڈرائیور کيسٹ چلا دو!' کيسٹ دوبارہ چلا دی گئی- اس پر ريش دراز مزيد غيض وغضب ميں آيا اور خاصی ‘تُو تُو ميں ميں‘ ہوئی اور دھمکی آميز لہجے ميں کہنے لگا 'تم چلا کر ديکھو يہ گندے گانے ميں تم سب کو ديکھ لوں گا-' ڈرائيور نے گھبرا کر کيسٹ بند کردی- پھر آوازيں آنے لگيں 'کيسٹ چلاؤ!'، 'کيسٹ بند کرو'، ' کيسٹ ضرور چلے گی'، 'ميں نہيں چلنے دوں گا---' ڈرائيور جو اس ہنگامہ سے اب خاصہ پريشان دکھائی دے رہا تھا سواريوں سے مسکينی انداز سے مخاطب ہوا 'جانے ديں جناب، آپ لوگ تو چلے جائيں گے، انہوں نے مالکوں سے ميری شکايت کردی تو ميں نوکری سے جاؤں گا'- پھر کيسٹ تو نہ چلی مگر سو ميل کا سفر عجب تناؤ ميں کٹا-

ميں سارا راستہ يہی سوچتا رہا کہ انہيں کس نے اختيار ديا ہے کہ اگر موسيقی انہيں پسند نہيں تو باقی لوگ بھی نہيں سن سکتے- روزِ محشر جب ہر ایک نے اپنا حساب کتاب آپ ہی دینا ہے، ہر ایک نے اپنی اپنی قبر میں اترنا ہے تو پھر ان مولانا صاحب کو کیا ضروت پیش آئی کہ وہ دوسروں کو اپنے ‘عقیدہ و تعلیمات‘ پر عملدرآمد کرنے پر طاقت و دھمکیوں کا استعمال کریں- بہرحال اس واقعہ سے ايک بات تو طے ہو جاتی ہے کہ عقيدہ چاہے مذہبی ہو، سياسی ہو، وراثتی ہو، جينياتی ہو، قانونی ہو، معاشرتی ہو يا کوئی اور عقيدہ ہو، وہ ذہانت کو نقصان پہنچاتا ہے اور اسکی نشونما ميں روڑے اٹکاتا ہے-

اسی طرح گناہ اور سزا کے عقيدے کو حاصل زندگی سمجھ لينے سے انسان کی 'رحم دلی' کی خاصيت کو سخت نقصان پہنچتا ہے کيونکہ گناہ و سزا کا عقيدہ دلوں کو ‘سخت‘ کر ديتا ہے اور گنہگاروں کے ساتھ ہمدردی، دردمندی اور رحمدلی سے پيش آنے کو روکتا ہے- حالانکہ ہمدردی، دردمندی اور رحمدلی تمام مذاہب کی مشترک تعليم ہے- يہ ہمارے دينی مفکرين، علماء، خطيبوں، نظام تعليم اور ملائيت کا کمال ہے کہ انہوں نے عقل دشمنی کيلیے کوئی کسر نہيں چھوڑی- اس امر کے باوجود کے قرآن کی جن آيات ميں نماز روزہ کی تلقين کی گئی ہے ان کی تعداد 250 ہے جبکہ 756 آيات ميں زندگی، اسکے مظاہر کے مطالعہ، زمين و کائنات پر غوروفکر کی تلقين کی گئی ہے- کيا کسی ملا نے جمعہ کے خطبہ ميں ايسے ارشادات کو بتانے،  انکی تفسير و تشريح کی کوشش کی؟ کيا نصابی کتب ميں خردپسندی پر ابھارنے والی آيات و احاديث کو بغير چراغ کے ديکھا جاسکتا ہے؟ قطعاً نہيں- کيونکہ جب ملک 'بنوايا' ہی ملائيت نے اپنے حلوہ مانڈہ کيلیے ہو تو يہ خرد مندی ابھارنے والے اسباق کا پرچار کر کے اپنی کرسی کو کيوں خطرہ دکھائے گی؟

حاصل بحث يہ کہ دنيا کو عموماً جبکہ ملائيت اور اسکی پيداواروں و حواريوں کو خصوصاً، عقيدوں کی بجائے عقلی و منطقی اور سائنسی رويوں کو اپنانے کی ضرورت ہے اور اس فانی دنيا کو يہ بات تو ہنگامی بنيادوں پر سيکھنے کی ضرورت ہے کہ انسان کی ايذا رسانی، ايک غيرانسانی، غير اخلاقی اور غيرپسنديدہ فعل ہے اور يہ فعل مردہ دلی و مردہ ضميری کو ثابت کرتا ہے، چاہے اس فعل کا ذمہ دار جوزف سٹالن ہو يا کوئی ديوتا ہو-
Najeeb Ur Rehman
About the Author: Najeeb Ur Rehman Read More Articles by Najeeb Ur Rehman: 28 Articles with 68437 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.