ایک لاوارث بچے کی کہانی

ایک لاوارث بچہ اور بے اولاد والدین

جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو بے شمار گھرانے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ان میں دونوں اطراف کے لوگ شامل ہیں۔ دریا ئے جہلم کے کنارے ایک شاہ گھوڑا نام کا گاؤں آباد تھا جسے عرف عام میں آئمہ شاہ جی بھی کہتے ہیں۔ وہاں پر میری دادی صاحبہ مرحومہ کے ایک چچا رہا کرتے تھے ان کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی۔ جبکہ میرا آبائی گاؤں کلری ہے جو ضلع بھمبر آزاد کشمیر میں واقع ہے۔ تو کہانی کچھ یوں ہے کہ نقل مکانی کرنے والے خاندان چوری اور راہزنی کے ڈر سے طلوع صبح سے بیشتر بوریا بستر باندھ کر اپنی منزل کی جانب روانہ ہوتے تھے اور لوگوں سے چھپ چھا کر جنگلوں بیابانوں کے راستے سفر کرتے تھے اور کہیں جنگل میں ہی پچھلے پہر پناہ گاہ تلاش کر لیتے تھے کہ تھکان دور کر سکیں اور رات گزارا کرسکیں۔ اور اگلی صبح منزل کی راہ لیں۔ اسی طرح آئمہ شاہ جی کے پاس کے پاس کے جنگل میں کسی کھتری (کھشتریہ) خاندان نے رات گزارنے کی غرض سے پڑاؤ ڈالا اور اگلی صبح پو پھٹنے سے پہلے رخت سفر باندھا۔ ان کے کارواں میں مرد و زن اور بچوں کے علاوہ مال و متاع زندگی بھی رہا ہوگا۔ خیر اگلی صبح میری دادی مرحومہ کے چچا جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لانے کے لئے روانہ ہوئے۔ جب وہ لکڑیاں کاٹنے کے لئے ایک خاص مقام پر جنگل میں پہنچے تو انہیں کسی بچے کے رونے کی آواز سنائی دی ۔عام فہم مفروضے اور سنی سنائی باتوں کے زیر اثر وہ بھی سمجھے کہ شاید کوئی جن یا بھوت ہے اور انہیں ڈرانے کی کوشش میں ہے یا پھر اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے۔ پہلے تو وہ واقعی ڈر گئے مگر جب غور سے سننے کی کوشش کی تو انہیں ادراک ہوا کہ یہ واقعی کسی بچے کے رونے کی آواز ہے۔ وہ دل میں وسوسہ لئے اور کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے اس سمت قدم بڑھانے لگے کہ شاید کوئی بچہ ہے اور وہ اس کی مدد کر سکیں۔ جب وہ اس مقام پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک بچہ تین سے چار سال کی عمر کے لگ بھگ وہاں بیٹھا رو رہا ہے۔ بزرگوار نے اس سے ڈرتے ہوئے پوچھا کہ کہ تو کون ہے اور یہاں کیا کر رہا ہے۔ تو اس بچے نے جواب دیا کہ اس کے ماں باپ اسے بوجھ سمجھ کر پھینک گئے ہیں ۔ ان کے لئے اسے اٹھا کر بھاگنا دشوار ہو رہا تھا جب انہیں تسلی ہوئی کہ کسی نقل مکانی کرنے والے خاندان نے اسے پھینک (Abandon) دیا ہے تو انہیں ایک تو بچے پر ترس آیا اور ہمدردی پیدا ہوئی اور دوسری طرف اس بچے کی سلامتی کی فکر ہوئی ۔ اسی وجہ سے وہ اس بچے کو اٹھا کر اپنے گھر لے آئے۔ اور اپنی بیوی کو بھی ساری کہانی سنائی۔ اس کے ماں باپ کی تلاش ریگستان مں پانی کی تلاش کے مترادف تھا اور خاص طور پر ان غیر یقینی اور محدود وسائل جیسے حالات میں۔ اور جبکہ اس کے ماں باپ بھی اسے بوجھ سمجھ کے پھنک گئے تھے۔ اور شاید جسے ساتھ لے جانا ان کے بس کی بات بھی نہیں رہی ہوگی اب لوگوں کی باتوں کی انہیں فکر ہوئی کہ کہیں وہ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ وہ کسی کا بچہ اغوا کر کے لے آئے ہیں مگر وہ اس گاؤں کی مسجد میں لوگوں کے بچوں کو قرآن پاک کا درس دیا کرتے تھے اور امامت بھی کرتے تھے اس لئے لوگوں نے ان کی باتوں کا یقین کر لیا۔ جس کی انہیں تسلی بھی تھی۔ اب کیا ہے کہ وہ اسے ہندو کے طور پر تو پال نہیں سکتے تھے اس لیے انہوں نے اس مسلمان کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس بچے کے بال لمبے تھے اور پیچھے کی طرف گندھے ہوئے تھے۔ جب وہ اس کے بال کاٹنے لگے تو بچہ رو پڑا اور کہنے لگا کہ وہ اسکے بال نہ کاٹیں اس پر بزرگوار نے اسے سمجھایا کہ اس طرح وہ اس کی دیکھ بھال نہیں کر سکیں گے۔ اور لوگوں کا کیا بھروسہ کہ کوئی اسے اس حالت میں دیکھ کر مار ہی نہ ڈالے اس کے بعد باقی کی رسوم معہ ختنہ ادا کی گئیں۔ اسکا نام تبدیل کر کے محمد شفیع رکھا گیا اپنی بساط کے مطابق اسے انہوں نے پڑھایا بھی اور پھر کام کی غرض سے ہاتھ پاؤں مارنے لگا۔ وقت اور حالات کے مطابق اس نے محنت مزدوری بھی اور ان بے اولاد ماں باپ کا سہارا بھی بنا۔ جب اس کے وہ ماں باپ بھی اللہ کو پیارے ہو گئے تو وہ ہمارے دادی دادا کے گھر ہی آ کر رہنے لگا کیونکہ اسکے پالنے والے ماں باپ میری دادی مرحومہ کے چچا لگتے تھے۔ اس طرح وہ ہمارے ساتھ رہنے لگا میں اس وقت چھوٹا بچہ تھا میری اسکے ساتھ دوستی ہو گئی۔ یہ سن عیسوی 1972-1976 کے درمیانی عرصہ کی بات ہے۔ وہ اس وقت ہمارے گاؤں کلری کے پاس جو بس اسٹاپ پڑتا ہے وہاں کے چھوٹے سے بازار میں قصاب کا کام کیا کرتا تھا۔ اس جگہ کو کلری موڑ کہتے ہیں۔ یہ جگہ میرپور آزاد کشمیر سے بھمبر جاتے ہوئے راستے میں پڑتی ہے۔ ایک وجہ سے اسکا دل اس کام سے اچاٹ ہوگیا تھا۔ کیونکہ پاس کے گاؤں کا قصاب مرتے وقت بہت تکلیف سے گزرا درد نزع سے کئی روز وہ چیختا چلاتا رہا تھا۔ لوگ سمجھے وہ قصاب جانوروں کے ساتھ ظلم سے پیش آتا تھا شاید اسی وجہ سے اسے مرتے وقت بہت تکلیف سے گزرنا پڑا۔ اور وہ ہمارا گھر اور گاؤں چھوڑ کر کسی نئے روزگار کی تلاش میں چل پڑا۔ معلوم پڑا کہ وہ کسی بس کے ساتھ کنڈیکٹر کا کام کرنے لگا ہے۔ ہم لوگ گاؤں چھوڑ کر میرپور شہر میں آباد ہو گئے تب کی بات ہے کہ سن عیسوی 1983 میں محمد شفیع کے کسی بس ڈرائیور دوست نے ضلع گجرات کے کسی گاؤں سے اس کے لئے کوئی رشتہ تلاش کیا تھا اور پھر اسکی شادی ہوگئی منگلا ڈیم کے کنارے واقع کالونی میں اس نے گھر بھی لے لیا تھا۔ شادی کے چند دن بعد جپ وہ چھٹیاں گزار کر کام پہ واپس گیا تو نہ معلوم کن خیالات میں گم رہا ہوگا کہ عام روز مرہ مشاہدے کے مطابق جیسے کہ بس کنڈکٹر بسوں کے باہر دروازوں سے سر باہر نکالے ٹریفک کا مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں یا پھر رش کی وجہ سے ہی ایسا ہوتا ہے ۔ وہ بھی نجانے کیا کر رہا تھا کہ مخالف سمت سے آنے والی گاڑی منگلا ڈیم پر واقع جڑی کس موڑ اس کی گاڑی سے ٹکرا گئی اور وہ بھی پچھلے کنڈیکٹر والے دروازے کی لوکیششن پر۔ محمد شفیع گاڑی سے باہر سڑک پر دھڑام سے گاڑی کی ایکسلریشن سپیڈ کی رفتار سے گر پڑا۔ اور اسکا سر پھٹ چکا تھا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ اس کی نو بیاہتا بیوہ کی حلت دیدنی تھی . محمد شفیع کو منگلا کالونی ضلع میرپور آزادکشمیر کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔

تو یہ تھی اس شخص کی کہانی جسے ماں باپ تو جنگلی جانورں کا چارہ بننے کے لئے پھینک گئے تھے۔ اسے قدرت نے بے اولاد ماں باپ کے ہاتھوں نہ صرف بچایا بلکہ انکا بھی آسرا بنایا مگر جب اسکی زندگی کی ناؤ کسی کنارے پہنچنے کے قریب تھی تو وہ منگلا ڈیم کی جھیل کے کنارے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ڈوب گئی۔ مجھے کب سے احساس ستا رہا تھا کہ میں اس شخص کی کہانی لاکھوں لوگوں تک پہنچاؤں کہ جسے میں شاید جانتا تھا۔ کہ بچپن میں جو میرا دوست بنا تھا اور اسکی انگلی پکڑ کر میں چند قدم چلا ہوں گا۔
والسلام۔
قیصر مُختار
About the Author: قیصر مُختار Read More Articles by قیصر مُختار: 4 Articles with 10773 views im living in Hong Kong for the past 18 years with my family .. View More