ویسے تو ہر کام کو اس کی انتہا تک پہچانا ہی کامیابی ہے
لیکن کوئی بھی کام ایک دم سر انجام نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے آہستہ آہستہ ،
درجہ بدرجہ اور step by stepکرنا چاہیے۔ کوئی بھی کام نہ انتہائی تیز
رفتاری سے ہو سکتا ہے اور نہ بالکل سست روی سے۔ اسی طرح ہر وقت مسجد میں
پڑے رہنے یا اعتکا ف میں بیٹھے رہنے یا صرف دعائیں مانگنے )اور عمل نہ کرنے
(سے مسائل حل نہیں ہو تے بلکہ ان کے لیے عمل, کو شش اور محنت کرنی پڑتی ہے۔
اسی طرح سارا دن کام میں لگے رہنے سے اور آرام نہ کرنے سے انسان کو کبھی
خوشی نہیں ملتی۔ ہر کام کی ایک حد ہو تی ہے اور آرام کی بھی ایک حد ہو تی
ہے۔یہ نہیں کہ بندہ ہر وقت کام میں لگا رہے, اس طرح تو وہ جلد بیمار ہو
جائے گا، اور پھر کام سے بالکل ہی جائے گا۔اور یہ بھی نہیں کہ بندہ ہر وقت
سوتا ہی رہے اور آرام ہی کرتا رہے۔اس طرح تو وہ سست اور ہڈ حرام ہو جائے گا
اور بیمار بھی۔ اسی لیے کام اور آرام کی ایک حد ہونی چاہیے۔۔اسی طرح اگر
آدمی بہت زیا دہ کھانا کھا لےگا تو اس کا پیٹ بھی بڑھ جا ئے گااور وہ بیمار
بھی ہو جائےگا۔ اور اگر وہ بہت تھوڑا کھا ئے گا تو کمزور ہو جائے گا اور
شاید بیمار بھی۔اسلئے کھا نے پینے میں اعتدال ضروری ہے۔ نہ بہت زیادہ کھا
ئے نہ بہت کم تا کہ صحت بھی ٹھیک رہے اور جسم بھی نہ بہت موٹا ہو جائے نہ
بہت کمزور۔ اس لیے اعتدال میں رہنا بہت ضروری ہے۔
ویسے تو قنا عت، صبر وشکر، محنت وکو شش، عفوو در گزر، رواداری، کفایت شعاری،
صدقات و خیرات، عبادات وغیرہ اور رفاہِ عامہ کے کام بہت اچھے اور ثواب کا
موجب ہیں لیکن ہر کام میں اعتدال ضروری ہے۔ایسا نہ ہو کہ آدمی قناعت،
عبادات،صبرو شکر، محنت و کو شش کرتا کرتا تھک جائے اور کہیں کا نہ رہے اور
اسے کچھ حاصل نہ ہو۔ عفوو در گزراور رواداری کرتا رہے اور لوگ اس کے سر پر
سوار ہو جائیں۔ کفایت شعاری، صدقات و خیرات کرتا رہے اور خود کنگال ہو
جائے۔نہیں ایسا نہیں کرنا بلکہ ہر کام اعتدال کے ساتھ یعنی مناسب حد تک کر
ناہے۔
انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ مذ ہبی رہنماوُں کی باتوں پر چلے اور اپنے
ضمیر اور عقل سے بھی کام لے۔ وہ عبادات بھی کرے اور آرام بھی۔وہ کمائے بھی
سہی اور کھا ئے بھی۔وہ خرچ بھی کرے اور کچھ بچت بھی۔نہ نرا فضول خرچ بنے نہ
نرا کنجوس۔وہ روزے بھی رکھے اور ماہِ رمضان کے بعد چھو ڑے بھی سہی۔وہ
اعتکاف میں بھی بیٹھے اور آزاد بھی رہے۔ وہ شادی بیاہ بھی کرے اور دنیا سے
بے رغبت بھی رہے۔وہ علم بھی حاصل کرے اور اپنی عقل سے بھی مدد لے۔یعنی
زندگی کا ہر کام ضروری ہے۔ لیکن ہر کام ایک مناسب حد کے اندر ہونا چاہیے۔
اپنے اصولوں کو نہ چھوڑا جا ئے اور دوسروں کو گھٹیا ، برا اور بے وقوف نہ
کہا جائے۔ اچھی صحبت میں بیٹھا جائے ، اچھی باتوں کو سنا جائے اور ہر اچھی
بات کو قبول کیا جائے چاہے کہنے والا کوئی غیر ہی ہو ،کوئی بچہ یا پاگل بھی
ہو۔کیونکہ ہر ایک کے منہ سے کوئی نہ کوئی اچھی بات نکل جاتی ہے۔اچھی بات کو
قبول کیا جائے اور اس پر جہاں تک ہو سکے عمل کیا جائے ۔ اپنی جان کو زیادہ
تنگی اور محنت میں نہ ڈالا جائے۔ نہ جلدی کی جائے اور نہ سستی کہ وقت فضول
باتوں یا سونے میں یا بیکار رہنے میں ضائع ہو جائے اور نتیجہ نہ بڑھا پے
کیلئے کچھ بنے اور نہ آخرت کے لیے۔ زندگی غنیمت ہے ۔دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔
وقت سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے۔
حج امیر آدمی کیلئےزندگی میں صرف ایک دفعہ کرنا فرض ہے۔باربار حج کرنے سے
تو بہتر ہے کہ وہی پیسے غریبوں، یتیموں، بیواوُں، محتاجوں کو دے دیے جائیں
اور ماں باپ کی خدمت کی جائے۔ اس سے مقبول حج کا ثواب ملے گا۔ اسی طرح رفاہِ
عامہ کے کام بھی موجبِ ثواب و نیکی ہیں۔ہمیشہ کنویں کے مینڈک کی طرح ایک ہی
جگہ پڑے رہنا بھی ٹھیک نہیں، تھوڑا سا سیر سپاٹا بھی کر لینا چاہیے۔ اس سے
خدا کی قدرتیں اور کام نظر آتے ہیں۔ واک کرنے سے صحت بھی ٹھیک اور جسم بھی
سمارٹ رہتا ہے۔ زکواۃ اور قربانی دینےسے مال کی محبت بھی ختم ہوتی ہے اور
دوسروں کی مدد بھی ہوتی ہے۔ روزہ رکھنے سے دوسروں کی بھوک پیاس اور خدا کی
نعمتوں کا بھی احساس ہوتا ہے اور جسمانی صحت اور معدہ بھی ٹھیک رہتا ہے۔
نماز پڑھنے سے انسان کی خدا سے لاپرواہی بھی ختم ہوتی ہے اور اس کا خدا سے
تعلق بھی قائم ہوتا ہے۔ لیکن ہر وقت مسجد میں رہنے سے روزمرہ کے کاموں میں
حرج ہوتا ہے۔ اس لئے پانچ وقت نماز بھی پڑھو اور باقی وقت اپنی تعلیم،حلال
روزی اور دوسرے زندگی کے ضروری کاموں میں صرف کرو۔ ہر کام کرو لیکن اعتدال
کے ساتھ۔ اعتدال پر چلنے والا آدمی کامیاب زندگی گزارتا ہے۔
بڑوں کیلئے لازم ہے کہ وہ بچوں کو سمجھائیں بھی سہی اور ان کو آزادی سے کام
بھی کرنے دیں۔ انہیں دینی علم بھی سکھائیں اور دنیاوی بھی۔ وہ زندگی کے
مثبت پہلو بھی مدِ نظر رکھیں اور منفی پہلو بھی تاکہ وہ زمینی حقائق کے
مطابق صحیح فیصلے کر سکیں۔ نہ کسی سے زیادہ دوستی لگاوَ کہ وہ تمہارے راز
آوَٹ کر دے اور نہ کسی سے زیادہ دشمنی کرو کہ اسے اپنے قریب بھی نہ آنے دو۔
اسلئے عقلمندی سے اعتدال کی راہ اپناوَ۔دنیاوی زندگی بھی دینی ہدایات کی
روشنی میں گزارو اور دینی کام بھی دنیاوی حالات کے مطابق کرو تاکہ تم ہر
لحاظ سے کامیاب ہو۔ |