چلتے پھرتے موت کے سوداگر

مریم ثمر

گجرات میں ایک انتہائی افسوس ناک سانحہ وقوع پزیر ہوا۔تفصیلات کے مطابق ،گجرات میں اسکول وین میں گیس سلنڈر لیک ہونے سے آگ لگ گئی۔،خوفناک حادثے میں 17بچے اور ایک خاتون ٹیچر جاں بحق ہوگئیں۔وین کا ڈرائیور موقع سے فرارہوگیا،تفصیلات کے مطابق صبح سات بچے ،اسکول وین نے بچوں کو گھروں سے لیا اور درس گاہ کی جانب روانہ ہوگئی،بچے ہنستے کھیلتے اسکول جا رہے تھے کہ اچانک قیامت ٹوٹی ،وین کا سلنڈر لیک ہوا ،اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری گاڑی آگ کی نظر ہو گئی۔حادثہ اس وقت پیش آیا جب وین منگووال میں قائم اسکول سے صرف ڈیڈھ کلومیٹر کے فاصلے پر تھی ،بتایا جاتا ہے کہ امدادی ٹیمیں موقع پر پہنچیں ،لیکن خوفناک آگ نے وین کو اتنی بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا ۔کوشش کے باوجود بھی آگ پر قابو نہیں پایا جاسکا ،شعلوں کی لپیٹ میں آنے والی22 میں سے18 زندگیاں جھلس گئیں ،زرائع کے مطابق مرنے والوں میں ایک خاتون ٹیچر بھی شامل ہیں۔آگ کے شعلے بچوں کو موت کی وادی میں لے گئے اور گاڑی کا ڈرائیور بچوں کو جلتی ہوئی گاڑی میں چھوڑ کر فرار ہوگیا۔واقعے میں بچ جانے والے5 بچوں میں سے3 کی حالت انتہائی نازک ہے زخمیوں کو لاہور منتقل کردیا گیا ہے ۔حادثے کو شکار ہونے والے بچوں میں نرسری سے آٹھویں جماعت تک کے طالبعلم تھے۔تمام بچوں کی عمریں 3سے12 سال کے درمیان بتائی جاتی ہیں ،واقعے کی تفتیش شروع کر دی گئی ہے ،وہیکل فٹنس کے عملے سمیت تمام ذمہ داروں کو تفتیش میں شامل کیا جائے گا۔

اس افسوسناک واقعہ نے ہر درد دل رکھنے والے شخص کو خون کے آنسو رولا دیا۔17 معصوم فرشتے زرا سی لاپرواہی سے موت کی آغوش میں ہمیشہ کے لئے سو گئے۔اور جو باقی بچے وہ ناقابلِ بیان درد کو برداشت کرنے کے لئے ہسپتال میں پڑے ہیں،ہمارے ہاتھ کے ایک زرا سے حصے پر آگ کا ہلکا سے بھی شعلہ چھو جائے تو ہم درد سے بلبلا اٹھتے ہیں ۔فورا ہی پیسٹ،برنال اور ایسا ٹونا ٹوٹکا کرتے ہیں کہ ہمارے درد کو فورا آرام آجائے۔ذرا تصور کریں ان معصوم طالب علموں کا کہ جو حصول علم کی خاطرگھروں سے نکلے اور معاشرے کی لاپر واہی اور بے حسی کا شکار ہو گئے۔ان کے نازک اور خوبصورت جسم کس قدر اذیت برداشت کر رہے ہیں ۔یہ بچے اپنی ماں کی آغوش میں بھی آنا چاہتے ہیں ۔بیتاب ہیں کہ کب ماں اپنی گود میں ان کو سمیٹتی ہے کہ کم از کم ڈر اور خو ف کی اذیت ہی کم ہو جائے کہ جو اس حادثے کے بعد ان کے دل و دماغ میں سمائی ہے ۔مگر زخموں کی وجہ سے تو ایسا بھی ممکن نہیں ہے ۔۔ادھر ماں باپ بھی اپنے جگر کے ٹکڑوں کی تکلیف پر تڑپ تڑپ اٹھتے ہیں۔ کس قدر ظالم اور سفاک اور بے حسی کو شکار ہے ہمارا معاشرہ ۔۔اک زرا سی لاپرواہی نے ان ننھے ہنستے مسکراتے کھلکھلاتے پھولوں کو پل بھر میں مرجھا کے رکھ دیا ہے ۔

یہ انتہائی مجرمانہ غفلت اور لاپرواہی نہیں تو اور کیا ہے ۔۔؟؟آخر اس ویگن کو چلنے سے قبل مکمل چیک کیوں نہیں کیا گیا؟یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گیس سلنڈر نہیں پھٹا بلکہ شارٹ سرکٹ ہوا ہے ۔جو بھی ہو ,سنگین لاپرواہی تو بہرحال برتی گئی ہے -

ہمارے روز مرہ مشاہدہ میں آتا ہے کہ ڈرائیور حضرات کس قدر لاپرواہی اور جاہلانہ طریقے سے بسوں ،ویگنوں کو چلاتے ہیں ، ایک تو ہمارے ملک کی سڑکوں کا بھی اﷲ ہی حا فظ ہے ۔اس قدر خراب سڑکیں ہیں کہ ان پر گاڑی چلانا بھی ایک فن ہے ،ان حالات میں دوران سفر بجائے اس کے کہ دعا کو اپنا شعار بنایا جائے،گندے اور لچر قسم کے پاکستانی اورزیادہ تر انڈین گانے لگائے جاتے ہیں اورڈرائیور حضرات سمیت سب مسافر اس پر سر دھن رہے ہوتے ہیں ،اور تو اور گندی سے گندی فلمیں لگا کر سفر کو خوشگوار بنایا جاتا ہے ،یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سفر کرنے کی بجائے کسی غیر مسلم ملک میں سفر کر رہے ہیں کہ جہاں شترِبے مُہار آزادی حاصل ہے ۔مسافروں میں بچے بوڑھے اور نوجوان اور خواتین سفر کر رہی ہوتی ہیں ، غالبا ان ڈرائیورحضرات کی مائیں بہنیں ان بسوں اور ویگنوں میں سفر نہیں کرتیں ،جبھی تو ان کی آنکھوں کی شرم و حیا کا پانی ہی خشک ہو چکا ہے ۔

ہمارے ملک کی بسوں اور ویگنو ں کا ڈھانچہ اس قسم کا بنا ہوا ہے کہ کسی بھی حادثے کی صورت میں فوری طور پر جان بچانے کے لئے باہر نکلنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ نہ ہی ان بسوں میں جان بچانے والے آلات نصب ہوتے ہیں ، کم از کم اب تواس بات کو یقینی بنایا جائے کہ فرسٹ ایڈ کا سامان ۔اور آگ بجھانے والے ضروری آلات ان بسوں اور ویگنوں میں لازمی موجود ہوں ۔

اس درد ناک خبر کا افسوس ناک پہلو یہ بھی تھا سنگدل ڈرائیور اس حادثہ کے فورا بعد وہاں سے فرار ہو گیا ،بجائے انسانی ہمدردی کے تحت جتنی بھی جانیں بچا سکتا تھا ان کو بچانے کی کوشش کرتا سنگدلی اور بے رحمی کی انتہا ہے ۔مگر ڈرائیور نے انتہا ئی بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ اور جب اس ڈارئیور کو گرفتار کرکے میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا ،تب بھی اس کے چہرے پر ندامت یا دکھ کا کوئی شا ئِیبہ تک دکھائی نہیں دے رہا تھا اور تو اور اس کے پاس شناختی کارڈ اور ڈرائیونگ لائیسنس تک نہ تھا ،۔اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح ٹریفک کے قوانین کی دھجیاں بکھیری گئی ہیں ۔یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا خوفناک حادثہ نہیں ہے ۔پاکستان میں آئے دن ہی اس قسم کے حادثات اب معمول بنتے جا رہے ہیں ۔ متعلقہ اداروں اور ذمہ داروں کے کانوں پر پھر بھی جوں تک نہیں رینگتی۔تھوڑے سے منافع اور بے حسی نے ان سب کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے ۔

دورانِ سفر ایک اور بیماری اکثر ڈرائیور حضرات کو یہ بھی لاحق ہوتی ہے کہ وہ سگریٹ نوشی سفرمیں جاری رکھتے ہیں،پتہ نہیں سیگرٹ پینے سے ان کو کیا تسکین ملتی ہے ،سگریٹ نوشی ہزار بیماریوں کی جڑ ہے ،مگر پھر بھی یہ باز نہیں آتے ،یہاں تک کہ گاڑی چلاتے وقت بھی سیگریٹ سلگائی جاتی ہے اور یوں انتہائی لاپر واہی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ،حکومت کو چاہیے کہ اس سلسلے میں سخت سے سخت قوانین بنانے کے ساتھ ساتھ ان پر سختی سے عملدر آمد کو یقینی بنائے،تاکہ مسافروں کی جانوں کو محفوظ بنایا جائے۔آخر کب تک یہ چلتے پھرتے موت کے سوداگرمسافروں کی زندگیوں سے کھیلتے رہیں گے۔

Saima Maryam
About the Author: Saima Maryam Read More Articles by Saima Maryam: 49 Articles with 48634 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.