دین کے نام پرپانی کی طرح پیسہ بہانے والوں نے کیاا ئمۂ
مساجدکی تنخواہ کے مسئلے کودین کے باہرکی کوئی چیزسمجھ لیاہے؟
کسی بھی عمارت کو تعمیرکرنے سے پہلے زمین کے اندراس کی بنیادکھودی جاتی ہے
اوران بنیادوں میں اینٹیں رکھی جاتی ہیں۔یہ اینٹیں زمین کے اندردب جاتی ہیں
اوران کے اوپرپوری عمارت تعمیر ہوتی ہے۔دیکھنے والے عمارت کی دیدہ زیبی
تودیکھتے ہیں مگرجو اینٹیں قربانیاں دے کراورخودکومٹی میں دفن کرکے پوری
عمارت کابوجھ اٹھاتی ہیں وہ کسی کونظرنہیں آتیں۔بنیادوں میں اگراینٹیں نہ
رکھی جائیں تویہ یقین سے نہیں کہاجاسکتاکہ عمارت زیادہ دنوں تک قائم رہے گی۔
ٹھیک یہی حال امام مسجداوراستاذمدرسہ کاہے ۔یہ اچھے معاشرے کی بنیادی
اینٹیں ہیں جومعاشرے کی عمارت کے نیچے مٹی میں دفن ہیں۔اسلام کے لیے جتنی
بڑی قربانی یہ حضرات دیتے ہیں کوئی اورنہیں دیتابلکہ یہ کسی اورسے ممکن ہی
نہیں مگرزمین میں دبی ہوئی بنیاد کی اینٹوں کی طرح یہ بھی ہمیشہ نگاہوں سے
اوجھل رہتے ہیں ۔
کہا جاتا ہے کہ معاشرے کو اچھے اساتذہ نہیں فراہم ہوپارہے ہیں ۔ سوال یہ ہے
کہ اچھا استاذ برآمد کرنے کے لیے ہمارے اندر کتنی اچھائیا ں ہیں اور ہم اس
کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے کتنے تیار ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ اچھے استاذ کے
فقدان کا تصور سرے سے غلط ہے۔ آج بھی ہمارے درمیان بہت سارے اچھے استاذ ہیں
یا اچھے استاذبن سکتے ہیں مگر مادی جبر نے ان کی اچھائیوں کو نگل لیا ہے ،
روزگارکے تنورمیں ان کی خوبیاں جل کرخاک ہوچکی ہیں یا دھیر ے دھیرے
خاکسترہورہی ہیں۔ ایک استاذ معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے، وہ فکر کی
تشکیل کرتا ہے، تربیت کی تعمیر کرتا ہے، اخلاق کی تذہیب کرتا ہے، شخصیت کو
تنویر عطا کرتا ہے ، انگلی پکڑ کر آدمیت سے انسانیت کی منزل تک پہنچاتا ہے
اورمعاشرے کے مستقبل کارخ متعین کرتاہے مگرکیا معاشرے کو بلندی
اورنورعطاکرنے والے اس عظیم شخص کے اندرون میں ہم نے کبھی جھانکنے کی کوشش
کی ہے؟کیاہمیں کچھ خبربھی ہے کہ ا س عظیم شخص کی زندگی کن مسائل
اورپریشانیوں میں الجھی ہوئی ہے اورا س کے گھرکے صحن میں خوش حالی رقص کناں
ہے یامایوسی اورتنگ دستی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔؟پرائیویٹ مدارس میں پڑھنے
والے ان اساتذہ کی تنخواہیں عموماً۴ سے ۷ ہزار کے درمیان ہوتی ہیں اوربہت
زیادہ سے زیادہ دس ہزار ۔ گرانی اتنی زیادہ ہے کہ معمولی تنخواہ پانے والے
شخص کے لیے زندگی گزارنابہت مشکل ہے مگر پھر بھی اﷲ کے بھروسے پرہمارے یہ
مقامی قائدین زندگی گزار رہے ہیں اورروزبروزبڑھتی ہوئی گرانی کے اس دور میں
بھی یہ بے چارے اتنی قلیل ترین تنخواہ پرقوم کے بچوں کامستقبل سنوارتے ہیں
جب کہ خود ان کا مستقبل بلکہ حال بھی کسی شاخ نازک کے رحم وکرم پرہوتاہے ۔
مساجد کے ائمہ کی حالت تو اساتذہ سے بھی بہت پتلی ہے ۔ ہم اپنے امام صاحب
کے پیچھے صرف نماز پڑھنا جانتے ہیں، اس کے علاوہ ہم ان سے کوئی سرکار نہیں
رکھتے یارکھنا نہیں چاہتے۔ یہ شکوہ توہمیشہ ہماری نوک زبان میں رہتا ہے کہ
امام صاحب تعویذ دیتے ہیں تو پیسہ لیتے ہیں، فاتحہ کرتے ہیں تو نذرانہ لیتے
ہیں، امام صاحب غیر قانونی طور پر پیسہ کماتے ہیں ، امام صاحب فرضی رسید
چھاپ کرچندہ کرتے ہیں، امام صاحب یہ کرتے ہیں اور امام صاحب وہ․․․․ سوال یہ
ہے کہ آخروہ ایسا کرنے پر مجبورکیوں ہوئے ۔ ؟ گہرائی میں اتر کر دیکھیں تو
اس کے مجرم وہ نہیں خود ہم ٹھہریں گے۔ ان کے جرم کی سنگینی بھی کم نہیں خدا
کے یہاں ان کی بھی پکڑ ہوگی مگر انہیں جرم تک پہنچانے پر کسی اور کا نہیں
ہمارااپنا کردار ہے۔ اس لیے ہم بھی اتنے ہی لائق گردن زنی ہیں جتنے کہ وہ۔
ہم عید اور بقرعید کے دن نیز دیگر خوشی کے مواقع پر اپنے اہل خانہ کے لیے
حسب بساط اچھے سے اچھے کپڑے بنواتے ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے گھر میں دنیا
کی ساری آسائشیں مہیا ہوں ،کولر ہو، فریج ہو، گریزر ہو،انٹرنیٹ ہو،ٹی وی
ہو،کیبل ہو اور نہ جانے کیا کیا۔ مگر کیا ہم کبھی غور کرتے ہیں کہ ہم اپنے
محلے کی مسجدکے جس امام کے پیچھے پنج وقتہ نماز پڑھتے ہیں، جمعہ کے دن ان
کے خطابات سے اپنی روحانی دنیامنورکرتے ہیں، ان کی معاشی پوزیشن کیاہے ،ان
کے بچے بنیادی ضرورتوں سے محروم تونہیں ہیں، ان کی ضرورتوں کی تکمیل کس طرح
ہورہی ہے اوران کی زندگی کی گاڑی پٹری پرکس طرح دوڑرہی ہے۔
ہماری فکری پستی کی انتہا یہ ہے کہ ہم دنیا و ی علم سکھانے والوں کے سارے
مطالبات پورے کر دیتے ہیں،انہیں منہ مانگی فیس دیتے ہیں،ان کے نخرے اٹھاتے
ہیں، اپنے بچوں کے اچھے کرئیر کے لیے مہنگے سے مہنگے اسکول میں داخل کراتے
ہیں، فیس اور دیگر لوازمات کے نام پر کثیر سرمایہ بخوشی خرچ کرنے کو تیار
ہوجاتے ہیں مگر جب اپنے انہی بچوں کو دینی تعلیم دلانے کی بات آتی ہے تو جس
امام صاحب یا مولانا صاحب سے ٹیوشن پڑھواتے ہیں توان کی تنخواہ اتنی معمولی
رکھتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے تنخواہ نہیں بھیک دے رہے ہوں اوریہ بھیک بھی دے
کراحسان کررہے ہوں۔بعض امیر تویہی چاہتے ہیں کہ امام صاحب ہمارے بچوں کو
مفت میں پڑھادیا کریں۔ پھرجب یہی لوگ علما، ائمہ اور اساتذہ پرسرراہ
تنقیداورطعن وتشنیع کرتے پائے جاتے ہیں توان کی بیمار ذہنیت پرحددرجہ ماتم
کرنے کوجی چاہتاہے ۔
ہمارے مذہبی معاشرے میں مشائخ کرام اور پیران عظام کا بہت زیادہ اثرہے
۔معاشی طورپر یہ خوش حال بھی ہوتے ہیں۔ان کے ایک ایک اشارے پران کے مریدین
پانی کی طرح پیسہ بہادیتے ہیں حالاں کہ پیر یا شیخ سے زیادہ امام صاحب سے
ہمارا واسطہ پڑتا ہے۔جب بھی ہمیں کوئی دینی ضرورت درپیش ہوتی ہے توہمیں سب
سے پہلے اپنی مسجدکے امام اوراپنے مدرسے کے استاذکے آستانے پردستک دینی
پڑتی ہے مگر پیر کا اتنا خیال کہ صرف ایک اشارے پرکیاسے کیاکرڈالنے کوہمہ
وقت تیاراورمسجدکے امام صاحب سے بے زاری کایہ حال کہ نمازوں کے اوقات کے
سوا دیگر اوقات میں ان کی خیریت معلوم کرنے کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں۔ یہ
دو الگ الگ انتہائیں کیوں ہیں؟اگرپیرصاحب کی خدمت کرناہمارے دین کاحصہ ہے
توامام صاحب کی خدمت دین کاحصہ کیوں نہیں ہے؟ مشائخ طریقت اگرکمرہمت کس لیں
تو اپنے اپنے حلقے سے محلوں کی مسجدوں کے امام صاحبان کو معاشی آسودگی
فراہم کراسکتے ہیں۔
ہم کانفرنسوں میں لاکھوں کروڑوں خرچ کرتے ہیں، خطبا و شعرا کوان کی مارکیٹ
ویلیوکے حساب سے منہ مانگا نذرانہ بخوشی پیش کرتے ہیں اوران پرعقیدت ومحبت
کے پھول نچھاورکرتے ہیں۔مزہ تویہ ہے کہ اسے ہم ایک اہم دینی کام سمجھتے
ہیں۔یہ کوئی بری چیزنہیں مگریہی عقیدت اوریہی دین پرستی امام صاحبان کے حق
میں تھپکی دے کرکیوں سلادی جاتی ہے ۔؟امام صاحب کے ساتھ ہمارارویہ تویہ
ہوتاہے کہ ہم عید و بقرعید میں انہیں تحفہ تک دینے کے لیے خود کو تیارنہیں
کرپاتے ۔ مروجہ جلسوں میں اتنا کثیر سرمایہ خرچ کر کے ہم پیشہ ورمقررین
وشعراسے کتنے فی صد دین سیکھ رہے ہیں اور ہمارے اندر کتنی دینی تبدیلیاں
پیدا ہورہی ہیں ؟ ہم اتنی خطیررقم خرچ کرکے کہیں فضول خرچی کے مرتکب تونہیں
ہورہے ہیں؟ ہمیں اپنی ہر دینی ضرورت پر امام صاحب یا د آتے ہیں،ان بغیرہم
اپنے دینی مسائل حل نہیں کرسکتے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم اپنے دین کا
ایک اہم ترین حصہ ان کے ذریعے مکمل کرتے ہیں مگرامام صاحب ان عنایات سے
محروم کیوں ہیں؟ ہم ان جلسوں میں اپنے محلے کے امام صاحب یا مدرسے کے
مولانا صاحب سے تقریرکیوں نہیں کراتے؟۔ ہم ان کو وقت سے پہلے موضوع دیں
تاکہ وہ بھرپور تیاری کے ساتھ خطاب کرسکیں اور پھر انہیں بھرپور نذرانہ پیش
کریں۔شایدہم پیشہ ورمقررین سے کہیں زیادہ اپنے امام صاحب سے دین سیکھ جائیں
گے ۔
ہم مزارات پرحاضری دیتے ہیں،چادرچڑھاتے ہیں، گھر میں نیازکااہتمام کرتے ہیں
توخوب دھوم دھام سے جشن مناتے ہیں۔ اگر ہم یہ دین کاکام سمجھ کراورحصول
ثواب کی نیت سے کرتے ہیں تو کیا مسجدوں کے اماموں کاضروریات کاخیال
رکھنادین سے باہرکی کوئی چیزہے؟یہی امام صاحب ہی توہیں جنہوں نے ہمیں نیاز
فاتحہ کا طریقہ سکھایا،نماز،روزہ ،حج ،زکوٰۃ کی تعلیمات فراہم کیں اور جو
ہر ہفتے جمعہ کے دن حسب بساط ہماری دینی تربیت کرتے ہیں مگرہم انہیں اس
کاکیاصلہ دیتے ہیں؟
ہم ہرمہینے بجلی کابل بھرتے ہیں،کیبل اورانٹرنیٹ کی ماہانہ فیس جمع کرتے
ہیں کیاہم اپنی مساجدکے امام صاحبان کے لیے مہینے میں کچھ مقررنہیں
کرسکتے؟یہ ہماری اسی غفلت کانتیجہ ہے کہ اب باصلاحیت علماامامت کوترجیح
نہیں دیتے وہ کسی اورطرف نکل جاتے ہیں۔عام طورپرامامت کے منصب پروہی لوگ
فائزہیں جوکم پڑھے لکھے ہیں۔یہ ٹرسٹیوں کی چاپلوسی کرتے ہیں،ان کی پسندکے
مطابق انہیں دین کی باتیں بتاتے ہیں اس لیے ٹرسٹیان انہیں مساجدسے
باہرکاراستہ نہیں دکھاتے کیوں کہ اگروہ اچھے عالم دین کاانتخاب کریں گے
تووہ انہیں ان کی پسندکامال فروخت نہیں کرے گا۔دراصل عوام کی اکثریت چاہتی
ہی نہیں کہ وہ کسی اچھے قائدکے پیچھے چلیں اوریہ سلسلہ امامت سے لے
کرتقریباً ہرشعبے تک پھیلا ہوا ہے ۔کم پڑھے لکھے اماموں کی وجہ سے بہت سارے
علاقوں میں مسائل بھی پیداہورہے ہیں۔وہ اپنے مقتدیوں کی صحیح ڈھنگ سے دینی
تربیت بھی نہیں کرسکتے۔آج جودین سے غفلت عام ہے اس کی سب سے بڑی اور بنیادی
وجہ یہی کم پڑھے لکھے اورغیرتربیت یافتہ امام ہیں۔عوام الناس اورمحلے والوں
کاروزانہ پانچ وقت ان سے واسطہ پڑتاہے مگرعوام محروم ہی رہتے ہیں۔اچھی
چیزوں کے لیے کچھ قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں اورآج کے دورمیں تودین بھی
بغیرپیسے کے حاصل نہیں ہوتا۔جس طرح کم پیسے سے خراب چیزخرید کرہم اپنانقصان
کرلیتے ہیں یوں ہی کم پڑھے لکھے اور غیر تربیت یافتہ اماموں کورکھ کرہم
اپناہی دینی اور روحانی نقصان کررہے ہیں ۔ ہمیں امامت جیسے غیرمعمولی
اوراسلام کے نہایت کلیدی منصب کے شایان شان افرادکاانتخاب کرناچاہیے۔
یہ بات تجربے کی ہے کہ جو کام چھوٹے لوگوں سے ہوجاتاہے وہ بڑوں سے نہیں
ہوپاتااوریہ چھوٹے ہی ہوتے ہیں جوبڑوں کے کام آسان کردیتے ہیں اوران کی
مشکلات کم کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔سپہ سالار کی سپہ سالاری اس وقت
تک قائم رہتی ہے جب تک سپاہی جی جان سے اس کا تعاون کرتے ہیں ۔ سپہ سالار
یا قائد زیادہ تر حکم دیتا ہے اور اس کے حکم پر چھوٹے چھوٹے لوگ اس کا کام
پورا کرتے ہیں۔ آپ کسی بھی سطح پر دیکھ لیں منظر نامے میں یہی تصاویر دکھیں
گی۔ اس طرح اب اس مسئلے کو لیجیے کہ ہمارا زیادہ تر تعلق اپنے محلے کے امام
صاحب سے ہوتا ہے، پیر صاحب سے تو کبھی کبھار ہی ملاقات ہوپاتی ہے۔ عوامی
سطح پر جتنا دینی کام امام صاحب جوبڑے حضرات سے بہرحال چھوٹے ہوتے ہیں،
کردیتے ہیں وہ بڑوں سے مشکل سے ہوپاتا ہے چوں کہ بڑوں کے پاس کام کی فہرست
بھی بہت طویل ہوتی ہے اس لیے عوامی سطح پرانہیں کام کرنے کے مواقع نہیں مل
پاتے۔ مطلب یہ کہ بنیادی کام معمولی تنخواہ پرکام کرنے والے انہی اماموں
اور مدرسوں سے ہوتا ہے۔
ہمیں یہ بھی یادرکھناچاہیے کہ ہمارے ان مقامی قائدین کی تنخواہوں کامسئلہ
ہمارامسئلہ ہے حکومت کا نہیں، اسے کس طرح حل کرنا ہے، یہ ہمیں سوچنا ہے ۔اس
لیے حکومت سے ان کی تنخواہوں کامطالبہ کرنادانش مندی نہیں ہے۔ اس کے
جومفاسدہیں وہ اہل نظرسے مخفی نہیں۔
عموماً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، نیاز، فاتحہ، درود وغیرہ کی فضیلتوں پر تو
خوب خوب تقریریں ہوتی ہیں مگر اس اہم پہلو کی طرف بہت ہی کم توجہ دی جاتی
ہے اور توجہ دی بھی کیوں جائے کہ مقررین ومشائخ کی ضرورتیں تو پوری ہو ہی
رہی ہیں نا۔ اس رویے کو بے نیازی کہتے ہیں۔ بے نیازی بذات خود بری چیز نہیں
ہے بلکہ بعض مواقع پر اچھی بھی ہے مگر بے نیازی کی نفسیات کے نتائج بہت برے
ہیں ۔یہ اسی بے نیازی کی نفسیات کانتیجہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی ضرورتوں
اوران کے مسائل سے غافل ہیں۔بلاشبہہ ہمارے امام صاحب معاشرے میں نہایت عزت
کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں مگرسماجی عزت ہونا اور بات ہے اور معاشی ضرورت
ہونا اور بات ۔کسی کی عزت وعظمت ا س کے پیٹ کی آگ نہیں بجھاسکتی ۔ہم اپنے
امام صاحب کو چاہے تخت و تاج پر بیٹھا دیں لیکن اگر ان کی ضرورتیں پوری
نہیں ہورہی ہیں تو ان کے لیے ایسا مقام ایسی عزت کس کام کی ہے۔؟
یہ دیکھاگیاہے کہ امام صاحب یامولاناصاحب پراگرکوئی ناگہانی آفت آجائے
توٹرسٹیان اورمقتدی حسب بساط ان کی امداد کرتے ہیں،یہ بلاشبہہ اچھی بات ہے
۔اگربروقت یہ امدادمیسرنہ ہوتوپھرامام صاحب کامعاملہ اﷲ کے رحم وکرم
پرہوتاہے مگرسوال یہ ہے کہ آپ انہیں ہاتھ پھیلانے پرمجبورکیوں کرتے ہیں،
اتنی تنخواہ کیوں نہیں دیتے کہ انہیں کسی کے سامنے دست سوال درازکرنے کی
نوبت ہی نہ آئے اوروہ اپنے مسائل خودہی حل کرلیاکریں۔
یہ محاورہ ہرخاص وعام کی زبان پرہوتاہے ’’گھرکی مرغی دال برابر‘‘امام صاحب
کے تعلق سے ہم اس محاورے پربھی پورے نہیں اترتے ،ہم انہیں’’دال‘‘کے
برابربھی نہیں سمجھتے ۔اگرہمارے نزدیک ان کی اہمیت ہوتی توہم ان کی ’’دال‘‘
کاخیال ضرور رکھتے ۔
ہم اپنے علما وائمہ کی بدنامی تو بڑی آسانی سے کر دیتے ہیں لیکن ان کے
مسائل سے آنکھیں موندلیتے ہیں۔حالات سے تنگ آکرکبھی یہ حضرات سیاسی اسٹیج
پرکھڑے ہوجاتے ہیں،کبھی کسی دولت مندکے دربارمیں جابیٹھتے ہیں اورکبھی
علاقے کے کسی بااثرآدمی کے سامنے دست بستہ بیٹھے نظرآتے ہیں۔ان کامسئلہ یہی
ہوتاہے کہ انہیں معاشی تحفظ چاہیے ہوتاہے ۔ہاں کچھ لوگ ضرورایسے ہیں جومالی
طورپر ٹھیک ٹھاک ہونے کے باوجود ہل من مزید کا نعرہ لگاتے ذخیرہ اندوزی
کرتے ہیں،وہ یقیناننگ دین ہیں اوردین کی حرمتوں سے کھیل رہے ہیں۔
دراصل ہمارے معاشرے کی ایک بہت بڑی بیماری دین کامحدودتصورہے۔ہم نے دین
کومحض چندباتوں کامجموعہ سمجھ لیاہے اوراسی مفروضے کوہم دین کی کلیت سے
تعبیرکرتے ہیں۔اس لیے جو مسئلہ ہمارے مفروضے پرفٹ بیٹھتاہے تووہ ہمارے
نزدیک دین ہو تا ہے اورجومسئلہ اس مفروضے سے ادھرادھردکھائی دیتاہے توہم
اسے دین سے باہرکاراستہ دکھادیتے ہیں۔اس طرح کے مسائل کی ایک طویل فہرست
ہے۔اس غلط تصورکاایک خاص سبب یہ ہے کہ بعض موضوعات کواتنے اصراراورشدت کے
ساتھ بیان کیاگیاکہ عوام نے انہی کوکل دین سمجھ لیااوربہت سارے موضوعات
غیرشعوری طورپرنظراندازہوتے گئے توعوام ان کی اہمیت سے آگاہ ہی نہ ہوسکے ۔
اس اعتبارسے دیکھیں توہمارایہ معاشرہ دینی تضادات کا معاشرہ بن چکاہے اوریہ
تضادات عوام سے لے خواص تک سب کاتعاقب کررہے ہیں اگرچہ ہم فکری سطح پراس کے
قائل نہیں ہوتے لیکن ہماری عملی سطح جوچیزنظرآتی ہے وہ یہی ہے یعنی دینی
تضاد ۔ دین کی جوبات ہمیں پسندآجاتی ہے توہمارے فکروعمل اسی کااحاطہ کرلیتے
ہیں چاہے وہ کتنی ہی غیراہم کیوں نہ ہو۔اس کے برعکس جوبات ہمارے محدود دینی
تصورسے ٹکراتی ہے تواس سے ایسے لاتعلق ہوجاتے ہیں گویاوہ دین کاحصہ ہی نہ
ہواگرچہ وہ دین میں کتنی ہی غیرمعمولی کیوں نہ ہو۔اسی تصورکی وجہ سے ہم اما
مت وقیادت جیسی اہم ترین چیزکوغیراہم چیزسمجھ لیتے ہیں اوردیگرفروعی مسائل
کواہم ترین چیز۔
اس کوایک اورپہلوسے سمجھیں،دین کے جس حصے میں ہمارے نفس کوغذاملتی ہے توہم
بہت جلداس کی طرف لپکتے ہیں گویا ہم اس سے ایک ساتھ دومقاصدپورے کرنے کی
کوشش کرتے ہیں،ایک دین کا اور ایک اپنے نفس کا مگرامامت وقیادت جیسے
دیگربہت سارے مسائل میں ہمارے نفس کا ساما ن نہیں ہوتا اس لیے غیرشعوری
طورپروہ خودبخود ہماری مفروضہ مذہبیت کی فہرست سے خارج ہوجاتے ہیں۔غورکریں
کہ دین کا محدود تصور ہمیں کہاں تک لے آیاہے؟
موجودہ تقاضوں اوربے شمارمسائل نے ہمیں جوچیزہمیں سکھائی ہے وہ یہ کہ اب
ترجیحی طورپرکام کیے جائیں ،ہرمسئلے کواس کی اہمیت کے اعتبارسے مس کیا جائے
اوراسے بھرپورطریقے سے عمل میں لایا جائے ۔ اگرہم ایسانہیں کریں گے تویقین
کیجیے ہم اپنے دین کونقصان پہنچائیں گے اوراپنی دنیابھی اپنے ہاتھوں سے
بربادکریں گے۔
ائمۂ مساجدکی تنخواہوں کامسئلہ کوئی معمولی اورغیراہم مسئلہ نہیں ہے ،یہ
ہمارااجتماعی مسئلہ ہے ہم اسے جتنی جلدی حل کرلیں گے ہمارے معاشرے کی عمارت
کی بنیادیں اتنی ہی جلدی مضبوط ہوجائیں گی۔ا س کے لیے سب سے پہلے ہمیں دین
کی کلیت کاتصورذہن میں بٹھاناہوگا،کسی ایک جزیاچنداجزاپرعمل کرکے پورے دین
پرعمل کرنانہیں کہلائے گا۔
معاشی خوش حالی مہیاکرنے کے باوجوداگر امام صاحب اپنی ذمے داری نبھانے سے
کترا رہے ہیں تو گویا وہ منصب امامت کے بالکل بھی حق دار نہیں ہیں، انہیں
فوراً مسجد سے نکال کر باہر کردینا چاہیے۔
قصہ مختصرمسجد ومدرسہ ہمارے دین کے دو نمائندہ ادارے ہیں، یہاں سے وابستہ
اساتذہ اور ائمہ اسی وقت اسلام کی نمائندگی کا صحیح حق ادا کرسکیں گے
اورمسجدومدرسے کے قیام کے تقاضوں پرعمل کرسکیں گے جب وہ معاشی طور پر
مستحکم ہوں گے۔بغیران کی ضرورت پوری کیے صرف ان سے ذمے داری کی توقع
کرنااوراپنی ذمے داری فراموش کرجاناقرین انصاف نہیں ہے۔یہ مسجدیں ہمارا
میڈیاہاؤس ہیں اور یہ سب سے طاقت ور،مؤترین اوربااعتمادمیڈیاہے ،یہ اسی وقت
توانا ہوسکے گا جب امام صاحبان خود کفیل ہوں گے اور انہیں ہر طرح سے آسودگی
میسر آئے گی۔آئیے ہم سب مل کرتنہائی میں اپنی ذات سے ملاقات کریں اوراس سے
پوچھیں کہ ہم اپنی ذمے داریاں پوری نہ کرکے کسی کاحق تونہیں ماررہے ہیں۔ |