مسلم معاشرہ: تنزلی کے اسباب وعوامل اور تدارک کی صورتیں

مسلم معاشرے میں اصلاح و اخلاقی اقدار کی تربیت پر خصوصیت کے ساتھ زور دیا جا رہا ہے،جس کا اہم سبب معاشرے میں محزبِ اخلاق جرائم کی بڑھتی شرح ہے۔ یہ حالات کیسے اور کیوں واقع ہوئے،ان کے پیچھے کیا اسباب و محرکات ہیں؟ اگر اس کو پیشِ نظر رکھ کر تدارُک کی صورتیں وضع کی جائیں تو اصلاحی کوششیں کام یاب ہو سکتی ہےں۔ برائیوں کے فروغ میں جو عوامل و محرکات کارفرما ہیں انھیں ان اقسام میں منقسم کیا جا سکتا ہے:
(۱)گھریلو ماحول کا لادینی ہونا،والدین کی دینی بصیرت کا فقدان
(۲)رزقِ حلال سے کوتاہی
(۳)مخلوط نظامِ تعلیم
(۴) ٹیلی ویژن اور فلمیں
(۵) موبائل کا منفی استعمال
(۶) اساتذہ سے احساسِ ذمہ داری کا رُخصت ہونا

گھریلو ماحول: بچوں کی تربیت میں ابتدائی نقوش والدین کے پڑتے ہیں، گھر کاعمومی ماحول بچوں کے لیے Role Model ہوتا ہے،اگر اسی میں کم زوری اور دین سے دوری ہو تو اس کا اثر آگے چل کر ضرور ظاہر ہوتا ہے، والدین میں اگر دینی تعلیم کا فقدان ہے، یا علم تو رکھتے ہیں لیکن دنیا داری ایسی غالب آئی کہ دینی اُصولوں کو فراموش کر بیٹھے تو اس کا اثر بچوں پر پڑتا ہے۔ ہمارے شہر میں تو اس بات کو تسلیم نہیں کیا جائے گا کہ یہاں عمومی ماحول دینی ہی ہوتا ہے۔تو پھر اخلاقی تباہی کے اسباب میں والدین کا کوئی کردار تسلیم جائے گا؟ ہاں! اس میں بھی والدین پر عائد ذمہ داری سے دامن بچایا نہیں جا سکتا۔ اس کا ایک سبب تو والدین کی خوش فہمی ہے کہ وہ دینی شعوررکھتے ہیں تو سمجھ لیتے ہیں کہ اتنا ہی کافی ہے۔ جب کہ موجودہ نازک ترین حالات میں بچوں کے پَل پَل کی خبر رکھنا چاہیے،ان میں اگر کوئی فعل غیر اسلامی پنپ رہا ہو تو اس کی اصلاح ابتدا ہی سے کرنی چاہیے۔ ہوتا یہ ہے کہ چھوٹی غلطیاں کہہ کر ان کی اصلاح سے چشم پوشی کر لیتے ہیں اور بعد کو وہی غلطیاں ناسور بن کر رُونما ہو جاتی ہیں۔والدین یاد رکھیں ابتدائی تربیت گھر سے ہوتی ہے،پہلے اپنی غلطیوں کا تدارُک کریں پھر بیرونی ماحول کو دوش دیں۔

رزقِ حلال سے کوتاہی: تربیتی عناصر میں حرام و حلال کا عمل دخل فطری ہے۔ حلال کی فطرت پاکیزہ ہے، حرام کی اخبث، ہمارے یہاں رزق کے لیے اب وہ احتیاط نہیں پایا جاتا جو پہلے ہوا کرتا تھا۔ رزقِ حرام کھایا جارہا ہے،نمازوں کی پابندی بھی کی جارہی ہے،حج بھی ادا کیے جا رہے ہیں،سمجھا جارہا ہے کہ نیک کاموں سے حرام کا داغ دُھل جائے گا،ایسا نہیں، پہلے رزق پاک کیا جائے، حلال مال گرچہ کم ہو بابرکت ہوتا ہے، تنگی برداشت کر لی جائے،لیکن رزقِ حلال کی ہی طلب کی جائے،اس کا اثر نئی نسل پر پڑتا ہے،رزقِ حلال سے حَیاآتی ہے،اللہ کا خوف آتا ہے،اسی کی ہمیں اور ہمارے گھروں کو ضرورت ہے،خوفِ خدا ہوگا تو گناہوں سے بچنا آسان ہوگا۔بُرائیوں سے بچنا سہل ہوگا۔

مخلوط نظامِ تعلیم: عصرِ جدید میں فحاشی کے فروغ میں مخلوط نظامِ تعلیم کا بھی خاصا عمل دخل ہے، لڑکوں سے لڑکیوں کی دوستی اسی نظام کی دین ہے،اس دوستی کو اس قدر چھوٹ دے دی گئی ہے کہ اب اسے معیوب نہیں سمجھا جاتا جس کے بھیانک نتائج خود ہمارے شہر میں رونما ہوئے،اس لیے کہ اسی مزاج کو کالج و اسکول کے باہر بھی رواج مل رہا ہے، کالج کے طلبا و طالبات کے علاوہ عام بچے اور بچیوں میں بھی دوستی کا رُجحان بڑھتا اور پھیلتاجا رہا ہے۔اس مہلک مزاج پر قابو نہ پایا گیا تو پھر مغربی معاشرہ کی سی تباہی سے ہمارا مسلم معاشرہ ہرگز نہیں بچ پائے گا۔اس پہلو سے زیادہ غور کی ضرورت ہے۔ کچھ جِدّت پسند بھائیوں کو شاید یہ پوائنٹ اچھا نہ لگے کہ معاشرتی تباہی میں کیوں مخلوط تعلیم کودوش دیا جارہا ہے؟

ٹیلی ویژن اور فلمیں: ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ پہلے کوئی مسلم شخص یاخاتونِ خانہ فلم دیکھنے چلے جاتے تھے تو بڑی حزیمت و شرمندگی اٹھانی پڑتی تھی، معاشرے میں گِری نظروں سے دیکھاجاتا تھا،آج عام مزاج بن چکا ہے فلمیں دیکھنے کا،فلمیں کل بھی اسلامی لحاظ سے ناجائز و حرام تھیں اور آج بھی ہیں،فرق اتنا ہے کہ کل کی فلموں سے زیادہ آج کی فلمیں فحاشی و بے حیائی کا پلندہ بن چکی ہیں، فلموں کی مقبولیت اس کی حَیاسوزی پر منحصر ہے۔شیطانی طبیعت کو پروان چڑھانے میں فلموں نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔مغربی بے ہودگی فلموں کے دوش پر ہند میں وارد ہوئی اور مسلم کمیونٹی کی تباہی کا سبب بنی۔ بے حِسی اتنی کہ اب تو فلموں کے ذریعے عقیدے کا بھی سودا کیا اور کرایا جا رہا ہے۔اللہ کی جناب میں بے ادبی،توحید کے تقاضوں کی پامالی، فرامینِ مصطفی ﷺ کی صریح مخالفت اور اسلامی اَقدار کا مذاق نیز شریعت کی شدید مخالفت سب کچھ فلموں میں کی اور کرائی جا رہی ہے، مسلمانوں کی حیا ایسی مر گئی کہ ان سب کو آسانی سے برداشت کیا جا رہا ہے،ایسا کہ اب تو گھروں میں فلموں کو دیکھا اور دِکھایا جا رہا ہے۔ جب غیرت کا جنازہ ہی نکل جائے تو معاشرتی اصلاح کیسے ہو گی؟ پھر ایک طبقہ جو اسلام میں بھی ماڈرنائزیشن اور جدیدیت کا حامی ہے وہ ٹی وی کی کُھلی حمایت کرتا ہے، محض ایک دو اسلامی چینلز کے لیے، سیکڑوں حَیاسوز چینلوں کی لاشعوری حمایت کی جارہی ہے۔ وہ داعی جو ٹی وی کے پُر زور حامی ہیں وہ اسلامی چینلز دیکھنے پر تو زور دیتے ہیں بلکہ اس میں ایسے شدت پسند واقع ہوئے کہ شریعت کے حامی علماے قدیم کو بُرا بھلا کہنے سے بھی نہیں چوکتے ۔ان کی ٹی وی حمایت مہم کے نتیجے میں گرچہ اسلامی چینلز دیکھنے والوں کی تعداد بڑھی ہے لیکن اس سے زیادہ غیر اسلامی اور فحش چینلز کے ناظرین میں بھی اضافہ ہوا۔فرق اتنا ہے کہ پہلے صرف غیر اسلامی چینلز دیکھے جاتے تھے اب کچھ اسلامی چینلز کے ساتھ ہی دیگر مغربی عریانیت کو فالو کیا جا رہا ہے۔گویا یہ مغرب کی پسند کے مطابق اسلام کی جدید تعبیر ہے۔(معاذاللہ)

موبائل کا منفی استعمال: سوشل نیٹ ورک سائٹس فیس فُک ، ٹوئٹر وغیرہ کے ذریعے جس طرح سے لڑکیوں سے دوستی کی لہر چل پڑی ہے یہ بھی پڑھی لکھی نسل کی تباہی کی اہم وجہ ہے، ملٹی میڈیا،انٹرنیٹ کا بے جا استعمال اس کا ذمہ دار ہے، والدین بچیوں کو موبائل ہرگز نہ دیں اور ضرورت ہو تو اپنی نگرانی میں دیں اور بچوں کو بھی موبائل دلائیں تو نگرانی بھرپور ہو،نیز موبائل روزآنہ چیک کیا جائے، ساتھ ہی یہ خیال ملحوظ ہوتو زیادہ بہتر ہوگا کہ موبائل سادہ دلایا جائے جس میں وڈیو اور میمری کی سہولت نہیں ہوتی۔ یہ بھی صحیح ہے کہ ایک طبقہ صرف قراءت اور نعت و بیان وسلام ہی سُنتا ہے لیکن عام طور پر گانے،فلمیں، مووی،سیریل وغیرہ ملٹی میڈیا موبائل کے ذریعے دیکھے سُنے جاتے ہیں جس کا اثر اخلاقی گراوٹ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

اساتذہ کی ذمہ داری: اسکول، درس گاہ، کالج میں اساتذہ طلبا و طالبات کی ذہن سازی کریں، انھیں والدین کی اطاعت، اساتذہ کا احترام اور غیر اخلاقی محرکات سے بچنے کی سنجیدہ و سلجھے انداز میں تلقین کریں، یاد رکھیں نرمی سے جو بات سمجھائی جائے وہ سمجھ میں آتی ہے،اس سلسلے میں نرمی درکار ہے، لیکن اس میں غفلت نقصان دہ ہے۔ عام طور پر دیکھا یہ جاتا ہے کہ اساتذہ اپنا فرضِ منصبی پورانہیں کرتے جس کے نتیجے میں کالج و اسکول میں ماحول انجوائے کا زیادہ اور پڑھائی کا کم ہوتا ہے،اس سے تضییعِ اوقات جراثیم میں اضافہ ہوتا ہے،اسی کے بطن سے بے جا تفریح اور ٹائم پاس کے نام پر غیر مہذب دوستی(بواے فرینڈ/گرل فرینڈ) کا رجحان بڑھتا ہے جس کے مہلک نتائج ہمارے سامنے ہیں۔

ہمیں چاہیے کہ گناہوں سے سچّی توبہ کریں، معاشرتی اصلاح کے ساتھ تنزل کے اسباب بھی تلاش کریں اور اُن بنیادوں کو ہی ختم کردیں، جن سے معاشرہ تباہی کی سمت تیزی سے بڑھ رہا ہے،ماڈرن والدین بھی خدا کے لیے اسلامی ماحول میں ہی بچوں کی تربیت دیں ورنہ کل اور بُرا ہوگا۔ اصلاح کی ذمہ داری ہر فرد کی ہر شخص کی ہے،اس میں کوئی ایک کو ہم ذمہ دار نہیں قرار دے سکتے سبھی مل کر اپنے اپنے منصب کو ادا کریں تو معاشرتی اصلاح بہ حسن و خوبی ہو سکتی ہے۔ اس کے لیے خلوص ومحنت اور اسلامی احکام پر عمل کی ضرورت ہے۔

Gulam Mustafa Razvi
About the Author: Gulam Mustafa Razvi Read More Articles by Gulam Mustafa Razvi: 277 Articles with 257102 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.