پاکستان ایک امن پسند ملک ہے۔یہاں کی مٹی سے اس سر زمین پر سانس لینے والے
ہرپاکستانی کو محبت ہے اور اپنے اس دعوے میں کروڑوں پاکستانی کوہِ استقامت کے مانند
ہیں۔لیکن ملک کا ایک طبقہ حب الوطنی کا حسین لبادہ اوڑھ کر مادرِ وطن کو زہر ہلاہل
پلا رہاہے اپنی ناپاک زبان سے جھوٹی محبت کا دعویٰ کرنے والے منصوبہ بند طریقہ سے
شب و روز ملک کی تخریب کاری اور اپنے ناپاک مشن میں رواں دواں ہیں۔چنانچہ اس مشن کو
آگے بڑھانے سے روکنے کے لئے نئی بننے والی جمہوری حکمرانوں کو مذاکرات کا راستہ
اختیار کرنا ہوگاکیونکہ ملک میں ایسی افرا تفری والا معاملہ جاری رہا تو پھر فرقہ
واریت،مسلکیت اور نہ جانے کون کون سی بیماریاں ہم میں پیوست ہو جائےں گی اس سے پہلے
کہ بہت دیر ہو جائے اور پاکستانی عوام کو برگشتہ کرنے کی ناپاک سعی کی جاتی رہے
جنکے سپوتوں نے اپنے خونِ جگر سے سر زمینِ پاکستان کو سینچ کر حیاتِ جاوداں بخشی،ان
کو بچانا حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔کیونکہ اس مادرِ وطن سے محبت کرنے والے لوگ آج
بھی تابندہ حیات ہیں اور 1947ءوالا جوش آج بھی زندہ و تاباں ہے۔بہرکیف یہاں کی اکثر
جماعتوں کا حال یہ ہے کہ سب ایک ہی سکے کے دو پہلوکی طرح نظر آتے ہیں اور ان
جماعتوں کا مقصد صرف ایک ہے، لڑاﺅ اور حکومت کرو۔مگر ان مذموم مقاصد والوں کا خواب
کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گاکیونکہ یہ قوم باشعور ہے اور صحیح اور غلط کی تمیز
ان میں آ چکی ہے۔وہ مسائل جو پاکستانی عوام کی ڈکشنری میں سرفہرست ہیں ان میں فرقہ
پرستی، مسلکی واویلا،دہشت گردی، نشانہ وار قتل، مہنگائی،بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ شامل
ہیں۔ ان سب مسائل سے ابھی تک تمام ہی حکومتوں نے چشم پوشی کی ہے بھلے ہی ان کے
انتخابی منشور میں یہ وعدہ لکھا گیاہو۔ان تمام معاملوں کو اس لئے پسِ پشت ڈال دیا
جاتاہے کیونکہ ان سب کا براہِ راست تعلق عوام سے ہے۔اور ارباب کو اس راستہ کی تمام
مشکلات کا بخوبی اندازہ ہے۔جب تک مرکز میں پیش رفت نہ کی جائے ،صوبائی سرکار موثر
قدم اٹھانے سے معذور ہی دکھائی دیتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ان مسائل کو زیادہ
ٹالنا خود کشی کے مترادف ہوگا۔
نئی حکومت چاہے وہ صوبائی ہو یا مرکزی وہ صرف بیان بازی کرکے اب لوگوں کا اعتماد
حاصل نہیں کر سکیں گے اس لئے دوسری صورت یہی ہے کہ انہیں عوام کی خدمت کرکے ان کا
اعتماد حاصل کرنا ہوگا۔عوام نے ہی انہیں منتخب کیاہے۔صدقِ دل سے عوام کی خدمت کرکے
عوام کا اعتماد بحال کریں تاکہ لوگ اسلام آباد سرکار کی تعریف کرنے پر مجبور ہو
جائیں جیسے کہ گزشتہ پانچ سالوں سے کراچی اور لاہور کے سڑکوں کو چمکاکرکیاہے۔بس
اتنا یاد رہے کہ یہ موقع ہر کسی کو نہیں ملتا۔اگر واقعی مرکزی اور صوبائی حکومت
عوام کے تئیں سنجیدہ ہیں تو وہ عوامی خدمت کو اپنا شعار بنا لیں۔ویسے بھی مجھ سمیت
عوام اور اربابِ اقتدار سب کو معلوم ہے کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ایک لمحہ کی
غفلت سے سینکڑوں سال کی مسافت گلے پڑ جاتی ہے۔مسیحا یا نجات دہندہ کی تلاش و آرزو
عمل سے بیگانہ بنا دیتی ہے۔لیکن دریا کو اپنی موج کی طغیانی سے کام ہوتا ہے ، وہ یہ
نہیں دیکھتاکہ کس کی کشتی پار لگی،کس کی درمیان میں ہے اور کس کی ہچکولے کھا رہی ہے
یا ڈوب گئی ہے۔بعض بستیاں ایسی ہوتی ہیں جہاں موسم ٹھٹھر جاتے ہیں ،رتیں نہیں
بدلتیں، منظر ساکت و جامد ہو جاتے ہیں اور زندگی کے شب و روز کروٹ بدلنا بھول جاتے
ہیں اور زندگی سازشوں کے ابلیسی جال میں پھڑ پھڑاتی رہتی ہے۔ہر آنے والا مسیحا اور
نجات دہندہ لگتاہے جس کی وجہ سے عمل کرنے کی عادت چھوٹ جاتی ہے، خواہشات کے سائبان
سے مصائب کی بارشوں کا علاج کیاجاتاہے،پاکستان کی عوام انہی حالات سے دو چار ہے۔ایک
جیسی سیاست،ایک جیسے بیزار کن موضوعات اور مقدر بن جانے والے معمولات سے چھٹکارہ
ملتا دکھائی نہیں دیتا۔سوکھے پتوں کے ڈھیرکی طرح مستقبل جل رہا ہے ۔کہیں درد کی
چنگاری سلگتی دکھائی دیتی ہے بس دل سے دھواں نہیں اٹھ رہاہے۔ہر موج کے جال میں
سینکڑوں مگر مچھ اپنے جبڑے کھولے شکار کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔اور ان مگر مچھوں
میں ناسور کی طرح کرپشن ، رشوت ستانی رچی بسی ہوئی ہے۔یہاں حال یہ ہے کہ اکثر
دھماکوں سے لوگوں کے دل پتوں کی طرح لرز جاتے ہیں ۔کچھ دنوں کی خاموشی اور پھر
بدلتے سیاسی ماحول اور پھر امیدوں کی روشنی، ظاہر ہے ان مہیب سایوں کو کس طرح
برداشت کر سکتے ہیں اگر مسائل کا حل نہ ملا تو۔مسائل کا حل نکالنے سے لے کر عوام کے
عصری تقاضے تک حکومت کو جرات و ہمت کے ساتھ تندہی سے کام کرنا ہوگا۔افسوس ہے ایسے
لوگوں پرکہ سستی شہرت کے حصول کے لئے بے جا مقاصد پر بڑی بڑی کانفرنسیں تو سجائے
جاتے ہیں لیکن عوام کے مسئلے پر ٹھوس حکمتِ عملی اور منصوبہ بندی نہیں کرتے۔عوام نے
ووٹ کے ذریعے نئی حکومت کے سر پر جو سہرا باندھا ہے اب پھر سے یہ عوام سراپا انتظار
میں نظریں بچھائے بیٹھے ہیں کہ اس بار ان کے مسائل ضرور حل کر دیئے جائیں گے۔
اس لئے ضروت اس بات کی ہے کہ ہم پھر سے ایک بار تمام نفرتوں اور عداوتوں کو بھلا کر
الفت و محبت کی شمع روشن کریں اور اخوت و مودت کے جاوداں پیغام کو عام کریں،ہمیں
مکمل طور پر شہری حقوق حاصل ہوں، بنیادی مسائل کا حل نکلے،عوام کے جذبات مجروح نہ
ہوں،کاش کہ ایسا ہو جائے اور سب ایک ہو جائیں،پورے ملک میں الفت و محبت ، اخوت و
مودت، اتحاد و اتفاق کی ایک بار پھر سے فضا بن جائے۔اور ہم سب قائد اعظم کے پاکستان
میں عزت کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرنا شروع کر سکیں۔
آج اس قوم کا المیہ ہے کہ یہاں انصاف ناپید ہے جس سے ناانصافیوں کا شیرازہ بکھر
گیاہے۔قوم ویسے ہی تسبیح دانوں کی طرح بکھری پڑی ہے، انہیں یقینا پھر سے تسبیح میں
پِروناہے۔آزمائشوں کے باوجود یہاں کے عوام اسی طرح زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں ،غربت،مفلسی
،بے روزگاری ان کے رگ و پئے میں رچ بس چکاہے اور وہ اسی ماحول میں اپنی زندگی کی
کشتی حیات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔پتہ نہیں کب اس ملک کے عوام کی تقدیر بدلے گا۔
بنائیں کیا سمجھ کر شاخِ گل پہ آشیاں اپنا
چمن میں آہ کیا رہنا جو ہو بے آبرو رہنا
عوام کے مسائل پرجس طرح گہری نظر کے ساتھ اس مضمون میں کوئی بات بھی ایسی نہیں ہے
کہ وہ خلافِ عوام ہو اس لئے کسی کو دل شکن ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ مسائل توملتِ
بیضا کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔خدا ہمیں اور پوری قوم بشمول نئی حکومت کو اس طرف مثبت
،مستحکم اور پیہم فکر و عمل کے ساتھ مسائل کے حل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔کیونکہ
یہ حقیقت ہے کہ افراد کا وجود ملت سے ہے اور ملت کا وجود وحدت سے ہے،جس طرح پتوں کی
سر سبزی و شادابی درخت سے وابستہ ہے اسی طرح افراد کی زندگی اور اس کا نمو حکمرانوں
سے مربوط ہے۔معقول اور ٹھوس پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے غریبوں کے ارمان بھی دھواں بن
کر فضا میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔حکومتی ادارے بھی اس کے تئیں کچھ زیادہ عملی اقدامات
کی طرف راغب نظر نہیں آتے۔ان مسائل کو فراموش کرکے خوشحال بہار کا خواب بے معنی ہے
اس لئے ہم اربابِ اختیار سے یہ اپیل کرنے میں حق بجانب ہیں کہ خدارا غریبوں کی حالتِ
زار پر رحم فرمائیں اور اس ضمن میں فوری اور مثبت پیشِ رفت کی جائے تاکہ اس ملک کا
باسی بھی پھلے پھولے۔ |