جب آدمی کے حال پہ آتی ہے مفلسی
کس کس طرح سے اس کو ستاتی ہے مفلسی
پیاسا تمام رو ز بٹھا تی ہے مُفلسی
بھو کا تمام رات سلاتی ہے مُفلسی
یہ د کھ وہ جانے جس پہ کہ آتی ہے مُفلسی
جو ا ہل فضل عالم و فاضل کہلا تے ہیں
مُفلس ہوئے تو کلمہ تلک بھول جاتے ہیں
پوچھے کوئی " الف " تو اسے "ب " بتاتے ہیں
و ہ جو غریب غربا کے لڑکے پڑھا تے ہیں
ان کی تو عمر بھر نہیں جاتی مُفلسی
جب مُفلسی ہوئی تو شرافت کہاں رہی
کپڑے پھٹے تو لو گوں میں عزت کہاں ر ہی
وہ قدر زات کی وہ نجابت کہاں رہی
تعظیم اور تو اضع کی بابت کہاں ر ہی
مجلس کی جوتوں پہ بٹھاتی ہے مُفلسی
دنیا میں کے لئے شاہ سے ا ے یار و تا فقیر
خالق نہ مُفلسی میں کسی کو کرے اسیر
اشراف کو بتاتی ہے اک آن میں حقیر
کیا کیا میں مُفلسی کی خرابی کہوں نظیر
وہ جانے جس کے دل کو جلا تی ہے مُفلسی
نظیر اکبر آبادی
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں کو اس بات کی کوئی فکر ہی نہیں ہے کہ
نصف پاکستان مفلسی کی شکار ہے ۔ مفلسی میں ایک غریب کا یہ حال ہوتا ہے کہ
دن بھر رات گئے تک خوب محنت مزدوری کرتا ہے اور یومیہ لگ پھگ 300 روپیہ کے
ساتھ جب گھر لوٹتا ہے ا کے باوجود بھی اس کے بچے بھوکے سوتے ہیں غذائی قلت
کا شکار ہو جاتے ہیں ، تعلیم و تربیت سے بھی محروم ہی رہ جاتے ہیں ، بیماری
کی شکل میں ہفتوں بھر چار پائی پر لیٹے رہتے ہیں مگر انسان دشمن ڈاکٹروں کی
مہنگی فیس و دوائی لینے کی بھی زرا قوت بھی نہیں رکھتے ہیں ۔
شادی کے وقت اپنے بچوں کو خود کو کئی سال بھوکا رکھ کر بھی چند نئے کپڑے تک
نہیں دے سکتے ہیں ۔ دوسروں کے مکان میں رہتا ہے اور ہر ماہ مکان کا کرایہ ،
بجلی کی فیس ، گیس کی فیس ، پانی کی فیس جو اسے میسر تک نہیں ہوتے بے چارہ
بلیں ادا کرنے کے لئے کئی ایام سے پریشان ہی رہتا ہے ۔
مفلس آدمی کے ساتھ لوگ "السلام و علیکم " بھی نہیں کرتے ، اس کو ہاتھ تک
نہیں نہ ہی اس کے ساتھ کوئی رشتہ گوارا کرتے ہیں ۔
مفلس آدمی کو جلدی ضرورت کے وقت اپنے عزیز و عقارب سے بھی قرضہ تک نہیں
ملتا کہ وہ اپنی معصوم بیمار بچی کو علاج یا اس کو ایک کتاب کاپی خرید کر
دے سکے ۔
مفلسی ایک ایسی بیماری ہے جو صحت مند آدمی کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے
آدمی دل ہی دل میں پریشان ہوتا ہے ۔ ہر غلط فیصلے نا چاہتے ہوئے بھی کرتا
ہے ۔ یہ مفلس ایک بیٹی کو بچانے کے لئے دوسری بیٹی کو بیچنے پر بھی تیار ہو
ہی جاتا ہے سوال کے جواب میں فرماتا ہے کہ ویسے دونوں ہی جا رہے تھے اب ایک
گئی ہے ایک تو بچ گئی ہے نا۔
مفلس اندرسے تو بہت ہی پختہ ایمان دار ہوتا ہے جو صبر و تعمل کے ساتھ ہمہ
وقت کام لیتا ہے مگر دنیا کے سامنے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتا ہے ۔ یہ
مفلس آدمی ہر وہ کام کرتا ہے جس سے امیر آدمی مزے لیتا ہے ۔ مفلس آدمی کی
بیٹی ،بیٹا ، ماں باپ اکثر بازاروں ، ہوٹلوں ، بس اسٹاپ اور شاہراہوں پر
ایک روپیہ کی بھیک کی درد ناک آواز میں صدا لگاتا ہے ۔ کوئی اسے دھکے دیتا
ہے تو کوئی ایک روپیہ دے کر احسان جتاتا ہے سوال کے جواب پر خود کو مجبور
تصور کرتا ہے اور اپنی نصیب کو کوستا ہے ساتھ ساتھ خود کو مجرم بھی قرار
دیتا ہے ۔
مفلس آدمی کی ووٹ سے کسی دور کے مفلس لو گ ہی اقتدار میں آتے ہیں تو سب کچھ
بھول جاتے ہیں اور حرس کی جنگ میں مبتلا ہو کر دولت کو سمیٹنا شروع کر دہتے
ہیں ۔ آج اگر بڑے بڑے سیاسی و سماجی قد آور لوگوں کو ان مفلس لوگوں نے ہی
اپنے حقوق ادا کر دیئے ہوتے ہیں جن کے بدولت یہ لوگ صوبائی و نیشنل
اسمبلیوں کی ارکان بن کے عیش و آرام کے ساتھ لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں اور
ان موجودہ مفلسوں کو ٹھوکریں لگاتے ہیں ۔
مفلس آدمی ساری زندگی پریشان و لاچار ہی رہتا ہے ۔ اس کو بچے پیدا کرنے سے
لیکر ان کی موت تک پریشانی لاحق ہوتی ہیں ۔
ایک مفلس نے تو اپنے مردہ بچے کو بغیر کفن کے زمین دفنا دیا تھا سوال کے
جواب پر فرمایا کہ " اگر کفن کے پیسے ہوتے تو یہ معصوم لخت ِ جگر مرتا کیوں
؟" کہنے کا مقصد یہ تھا کہ عرصہ ِ بعید سے اس کا بچہ بیما ر تھا علاج کے
لئے جتنا تھا انسان دشمن ڈاکٹروں نے وصول تو کر لئے مگر بچہ مکمل صحت یاب
نہ ہو سکا آخر کار پیسہ ختم ہوا ۔ اب یہ مفلس آدمی گھر سے باہر کام پر جاتا
ہے تو کبھی کام ملتا ہے تو کبھی نہیں ، جب ملتاہے تو خود سمیت پورا خاندان
بھوک و افلاک سے ہلات ہوتے ہیں ۔ تو اپنی اس لخت جگر کی موت کا بے حد
انتظار تھا کہ ایک جائے گا تو شایدباقی چند دن تک ہی سہی زندہ تو رہ سکیں
گے ۔ ورنہ سب کے سب اس عالم میں ہیں کہ نا چاہتے ہوئے بھی سب افلاک کا شکار
ہیں ۔
بحرحال ایوان اقتدار مفلس کی درد سے تھوڑی واقف ہوتے ہیں کہ ان کے لئے کچھ
حل نکال سکتے ہیں۔
جناب اقتدار: کو معلوم ہی ہوگا کہ سرکاری ہسپتالوں میں امیروں کا علاج فری
میں ہوتا ہے جب باری مفلس کی آتی ہے تو ڈاکٹر خود مریض بن کر گھر آرام کرنے
چلا جاتا ہے ۔ گزشتہ رو ز ڈیرہ اللہ یار بلوچستان وقت کے نگران وزیر اعظم
میر ہزار خان کھوسہ کا شہر ہے جس میں ایک سرکاری ہسپتال میں ایک ایکسیڈنٹ
کیس لایا گیا تو بقول اُ ن کے ایک ڈاکٹر موجود ہ تھا لیکن نزدیک سے شراب کی
بو ں آ رہا تھا تین گھنٹے کے بعد دوسرا ڈاکٹر کو منت سماجت کر کے لایا گیا
۔
یہ حال ہے سرکاری ہسپتالوں کا کہنے کا مقصد ہے کہ مفلس و غریب کے نام پر تو
بنائے گئے ہیں مگر علاج امیروں کا اور سفارشات کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔
بحرحال: اب میاں شریف خاندان جو پنجاب اور پاکستان پر متوقع حکومت کے مالک
ہیں یہ لوگ پاکستان کے چھوتے امیر ترین لوگ ہیں ان کو کیا پتہ کہ مفلسی کیا
ہوتی ہے ؟ مفلسی میں کیا درد ہے ؟ مفلس کتنا مجبور ہوتا ہے ؟ مفلس کے پاس
کھانے پینے اور رہنے کے لئے پیسے دور کی بات مردوں کو کفن کے لئے بھی پیسے
نہیں ہوتے تو ان کے دل پر کیا گزتا ہے ؟ ہم سب جانتے ہیں پاکستان چند قد
آور شخصیات نے ان مفلسوں کی دولت کو سوئس بنک میں جمع کر رکھا ہے جو 97ارب
ڈالر ہیں جن کو پاکستان میں مفلسوں میں تقسیم کیا جا ئے تو مفلسی 100سال کے
لئے پاکستان سے دور بھاگ سکتا ہے شاید واپسی ناممکن ہی ہو ۔
لیکن کریں گے ایسا ہر گز نہیں کیوں کہ ارباب اقتدار والے ہی اس کیس میں لوث
تھے اور ہیں ۔ بس مفلس کو اللہ ہی بچائے گا ۔ |