عزیز الہند: عزیز برنی کا اخبار یا مسلمانوں کا؟

عزیز برنی تیس کروڑ مسلمانوں کی آواز کب سے بن گئے؟
عزیز الہند کی ڈمی کاپی (۳ جون ۲۰۱۳) شائع ہوچکی ہے۔ اور اس کے ہر صفحہ پر اخبار کے نام کے ساتھ ایک سرخی اور بھی موجود ہے۔ عزیز برنی کا اخبار۔

لیکن ایک سوال پیداہوتا ہے کہ یہ اخبار عزیز برنی نے اپنے لیے نکالا ہے یا ہندستانی مسلمانوں کے لیے؟ اور اس سے بھی بڑا سوال ہے (جو اندرونی صفحات کو دیکھنے کے بعد ذہن میں پیدا ہوتے ہیں) کہ کیا برنی صاحب سچ مچ آج کی تاریخ میں ہندستان کی ۳۰ کروڑ مسلم آبادی کی قیادت کرنا چاہتے ہیں۔؟ اور اس سے بھی بڑا سوال یہ کہ انہیں قیادت کی ذمہ داری کس نے دی ہے؟ بہت ممکن ہے اگر انہوں نے اپنے اخبار کا نام عزیز الہند نہیں رکھا ہوتا تو شاید یہ سوال ذہن میں پیدا نہیں ہوتے۔ لیکن اس نام کے ساتھ شہنشائیت کے وہ دور نگاہوں میں روشن ہوجاتے ہیں جب شہنشاہ اپنے نام کا سکہ چلایا کرتے تھے۔ اخبار کے صفحہ ۲ پر اس بات کی تفصیل ملتی ہے کہ ’’میں دوبارہ صحافت کے میدان میں کیوں آیا‘‘۔ اور کیا یہ جواب مناسب نہیں کہ ۲۲ برسوں تک سہارا کی ادارت سنبھالتے ہوئے جو مقبولیت آپ کے حصے میں آئی تھی، آپ اس مقبولیت کو برقرار اور بحال رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن آپ یہ بھول گئے کہ سہارا کو ۲۰۔۲۲ برسوں تک جو سہارا آپ نے دیا اس کا فائدہ ممکن ہے سہارااور آپ کو ہوا ہو۔ لیکن اسکا کوئی فائدہ ہندستانی مسلمانوں کو نہیں ہوا۔ سہارا میں ایک مکمل صفحہ آپ کے نام تھا۔ کبھی کبھی دو صفحے بھی آپ کے نام ہوا کرتے تھے ، جہاں آپ ملی مسائل پر گفتگو کرنے کے بہانے مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔مجھے کہنے دیجئے، یہ اردو صحافت کا وہ درد ناک اور زرد چہرہے جہاں آپ صرف مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرنے کا کام کرتے تھے۔ کیا آپ کبھی عملی میدان میں آئے۔ کیا آپ نے کبھی مسلمانوں کے اس Roots کو سمجھنے اور جاننے کی کوشش کی کہ ایسا کیوں ہوتا رہا ہے؟ آزادی کے ۶۶ برسوں بعد بھی مسلمان اگر حاشیہ پر ہے اور محض ووٹ بینک بن کر رہ گیا ہے تو اس کی وجوہات کیا ہیں؟ آپ نے درد مندی اور جذبات کا مظاہرہ تو کیا لیکن اس کے پس پردہ دانشمندی مفقود تھی۔ اور ایسے جذبات جو مسلمانوں کو آگ میں ڈھکیل دیں، جرم کی تربیت دیں، اور انہیں کمزور بنائیں، کیا ۳۰ کروڑ مسلمانوں کی آبادی کے لیے اسے جائز قرار دیا جائے گا؟ کاش آپ نے علامہ اقبال کی مشہور نظم شکوہ جواب شکوہ کا ہی مطالعہ کیا ہوتا تو اس میں سارے جواب موجود تھے۔ اور میں اقبال کے انداز میں آپ سے یہ باتیں تو جان ہی سکتا ہوں کہ کیا—’’مسلماں کو سکھانے کی یہی باتیں ہیں؟‘‘ دنیا میں کسی بھی زبان کا وہ کون سا اخبار ہے جہاں مدیر پورا کا پورا صفحہ خود لکھتا ہو—مسلمانوں کی نمائندگی کا دم بھرتے ہوئے آپ بھول گئے کہ سہارا کے ۲۲ برسوں کے سفر میں آپ زرد صفحات کو فروغ دیتے رہے۔ اور نتیجہ کے طور پر سہارا کے بعد نکلنے والے زیادہ تر اخبار ہندستان کی جگہ صرف مسلمانوں کے جذبات کی نمائندگی کرتے ہوئے نظر آئے۔

ایسی نمائندگی جہاں مسلمانوں کی غربت تو جھانکتی تھی لیکن ان کے کمزور حوصلوں کو مضبوط نہیں کیا جاسکتا تھا۔ بٹلہ ہاؤس کا معاملہ ہو یا اس وقت مسلمانوں سے وابستہ کوئی بھی مسئلہ— کیا نعرہ لگانے، سلگتی ہوئی تقریر کرنے، کروڑوں کے مجمع کو بھڑکانے سے مسائل کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ پھر آپ میں اور ورون گاندھی میں فرق کیا رہ جائے گا؟ مجھے یاد ہے جب بھاجپا بر سر اقتدار تھی اور منوج رگھو ونشی کے پروگرام میں آپ کو بلایا جاتا تھا تو ہندوسنت اور سنگھ کے لوگوں کے سامنے آپ کی آواز کمزور ہو جایا کرتی تھی۔ ۲۰۰۳ میں جب گجرات المیہ پر ہندی میں میری کتاب (لیبارٹری۔ پبلشر، کانفلوئنس انٹرنیشنل) منظر عام پر آئی تو میں نے اس کتاب میں آپ کے حوالہ سے یہ بات بھی کہی تھی کہ آخر ایسے پروگرام میں عزیز برنی جیسے لوگوں کو کیوں بلایا جاتا ہے جو مسلمانوں کی طرف سے بھرپور، تسلی بخش اور مضبوط جواب دینے میں ناکام رہتے ہوں۔ میں بتاتا ہوں، اس سوال کے پیچھے ایک ٹھوس وجہ تھی برنی صاحب، میں پھر کہتا ہوں، آپ نے کبھی اس روٹس پر غور نہیں کیا کہ مسلمان ترقی کی ریس میں کیوں پیچھے ہیں۔
تم مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری

کیا تدبیر یہی تھی کہ سلگتی، جذباتی تحریروں سے ان مسلمانوں کا نمائندہ بن جایا جائے جو آج بھی تعلیم سے بے بہرہ، صرف اور صرف جذبات کی زبان سمجھتے ہیں۔ وہ لوگ جو پرانی دلی سے بہار اور یوپی کے گوشے گوشے میں مل جائیں گے اور جو محض اس بات سے خوش ہوجاتے ہیں کہ کوئی تو ہے جو ان کی باتیں کرنے والا ہے۔ ان کے درد کو سہلانے والا ہے۔ لیکن برنی صاحب، آزادی کے ۶۷ برسوں کا یہ درد مختلف ہے اور اس درد کو مسلمانوں کے عالمی پس منظر میں نہیں، ہندستانی پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پسماندگی اور تنزلی کا ہر راستہ اسی بے لگام راستہ سے ہو کر جاتا ہے جہاں علم کی روشنی سے الگ آپ لوگوں نے صرف اور صرف مسلمانوں کے جذبات کو اہمیت دی۔ مسلمان وہیں رہے۔ پٹتے ہوئے مہرے۔ ذلیل وخوار ہونے کے لیے۔ جیلیں بھری جاتی رہیں۔ ہنگامے ہوتے رہے۔ سیاست کے ایوانوں میں اگر ہلچل نہیں ہوئی تو اس کی وجہہ صرف یہ ہے کہ حکومت، پارٹیاں بھی اس حقیقت سے واقف تھیں کہ مسلمانوں کے درمیان زیادہ تر مسلمان یا اخبارات محض مسلم مسائل کو فروخت کررہے ہیں۔ اس سے ان کے اخبارات بکتے ہیں۔ اور ایسے لوگوں کومسلمانوں کے مسائل میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جس دن مسلمان خبروں میں نہیں رہیں گے، ایسے بہت سے اخبار بھی بند ہوجائیں گے یا حاشیہ پر چلے جائیں گے۔ برنی صاحب، معاف کیجئے گا، اردو اخباروں کے ذریعہ اگر محض مسلمانوں تک ہی اخبار کو محدود رکھنے کا فیصلہ کیا جائے تومسلمانوں کی ترقی کے بڑے بڑے سامان کیے جاسکتے ہیں یا نئے راستے کھولے جاسکتے ہیں۔ اخبار ایک بڑاپلیٹ فارم ہے، اور یہ مت بھولیے کہ ایک بڑی مسلم آبادی پڑھے لکھوں کی بھی ہے جو اردو اخباروں سے مایوس ہوکر انگریزی اور ہندی اخباروں پر بھروسہ کرنے لگی ہے۔یہ طبقہ ایسے اردو اخباروں کو محض بھڑکاؤ، سمجھ کر ان کے مطالعہ سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے۔
مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنے کا مطلب تھا کہ آپ ان کی تعلیم اور روزگار کی باتیں کرتے۔ سائنس اینڈ ٹکنالوجی کی باتیں کرتے ۔ملک کے ایسے نوجوانوں کو سامنے لاتے، جو نمایاں طور پر اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہے۔ آپ ٹیلنٹ ہنٹ کرتے۔ مسلم نوجوانوں میں مستقبل کو تلاش کرتے۔ روزگار کے نئے ذرائع کھولتے۔ مثال کے لیے بے روزگار مسلم نوجوانوں کو اقلیتی ادارے لون دینے کا کام کرتے ہیں لیکن زیادہ تر نوجوان اس حقیقت سے واقف نہیں کہ یہ لون کیسے اور کہاں سے ملتے ہیں۔ آپ کو چاہئے تھا کہ تیس کروڑ مسلم آبادی کو ہندستان کی مین اسٹریم سے جوڑتے لیکن افسوس، آپ نے اخبارات کے ذریعہ یہ معیار پیش کیا کہ اردو زبان محض مسلمانوں سے وابستہ ہوکر رہ گئی۔ اور اردو اخبارات مسلمانوں کا ترجمان بن کر رہ گئے۔ اور اس کا نقصان یہ ہوا کہ آج بھی ایک بڑی آبادی نعرہ تکبیر اﷲ ہو اکبر کے نام پر موت کے کنویں میں کود جاتی ہے۔ آزادی کی بعد کی تاریخ دیکھیے تو یہی سیاست اپناکام کرتی رہی اور بھولے بھالے ، بے قصور مسلمان مسلم سیاست کالقمہ بنتے رہے۔
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہے کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ

برنی صاحب ، یہ ہندستانی مسلمانوں کا المیہ ہے کہ آزادی سے پہلے اورآزادی کے بعد بھی انہیں کمزور قائد ملے۔ ایسے قائد جنہوں نے ایک بڑی مسلم آبادی کو اقلیت بنا کر پیش کیا۔ دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے کہ ۳۰۔۲۵ کروڑ کی آبادی کیا اقلیت ہوتی ہے؟ جب آپ اقلیت کہتے ہیں تو مسلمانوں کو کمزور، بے سہارا اور لاچار کردیتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انکا اس ملک میں پرسان حال کوئی بھی نہیں ہے۔ پھر عام مسلمان صرف شک کے گھیرے میں ہوتا ہے۔ نہ وہ دفاع جانتا ہے، نہ حوصلہ یا مضبوطی کی زبان، سیاست کے نام پر آپ لوگ ایک عام مسلمان کو اتنا کمزور کردیتے ہیں کہ وہ ملک کی مین اسٹریم سے خود کو کٹا کٹا محسوس کرتا ہے ۔آزادی کے ۶۷ برس بعد اب مسلمانوں کوان کی کمزور یوں سے باہر نکال کر مضبوط کرنے کا وقت آگیاہے۔ اور اس کے لیے جذبات سے الگ اب جنگ عملی طور پر لڑی جائے گی۔ اور بیشک اس جنگ میں تعلیم کے حصے کو نمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔

اس ملک میں کوئی بھی لیڈر خود کو تیس کروڑ مسلم آبادی کا ترجمان نہیں کہہ سکتا۔ یہ ہندستان میں مسلم قیادت کا وہ سیاہ صفحہ ہے کہ قائد تو ملے لیکن زیادہ تر مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے والے۔ اور اسی لیے سچر کمیٹی کی سفارشات کو نافذ کرنے کا معاملہ ہو یا جیلوں میں بھرے ہوئے معصوم اور بے گناہ مسلمانوں کا مسئلہ، ان معاملات کی آواز ایوان سیاست تک اس لیے بھی نہیں پہنچتی— کہ یہ سمجھ لیاگیا ہے، جو لوگ بھی ہیں وہ مسلمانوں کے بھروسے اپنی روٹیاں سینک رہے ہیں۔ یہ چند سطور زاید لکھنے کا جذبہ اس لیے پیدا ہوا کہ میں خود تقسیم کے بعد کے حالات کا مسلسل تجزیہ کرتا رہا ہوں۔ اور یہ تجزیے میری کتابوں کی شکل میں (مسلمان، بیان، ذبح، لے سانس بھی آہستہ، آتش رفتہ کا سراغ) سامنے آتے رہے ہیں۔ آتش رفتہ کا سراغ ہندستانی مسلمانوں کی آپ بیتی ہے اور میں نے اس ناول کے ذریعہ بھی اس روٹس تک پہنچنے کی کوشش کی ، جہاں عام مسلمان آزادی کے بعد سے لے کر اب تک وہیں کھڑا ہے اور بے بس ہے۔ اسے محض ووٹ بینک بنا دیا گیا ہے۔ مسلمانوں سے کھیلنے والے اس کے اپنے زیادہ ہیں۔ جو حق کی آواز اٹھاتے ہوئے ایک دن سیاست کے ایوانوں میں بیٹھ جاتے ہیں اور حق کی آواز گم ہوجاتی ہے۔ وہ اپنا بینک بیلنس بڑھاتے ہیں اور محض مسلمانوں کے جذبات سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔ نظر اٹھائیے تو ایسے لوگوں کی تلاش کوئی مشکل کام نہیں۔ یہ وہی قائد تھے جو بابری مسجد شہادت کے وقت گم ہوگئے تھے۔ ہندی میں جب نئی دنیا اخبار (مدیر: آلوک مہتہ) کی اشاعت ہوئی تو ایک بڑی خبر یہ بھی تھی کہ بابری مسجد، مسلم لیڈران کی طرف سے ایک بڑی ڈیل تھی— آج کے ہندستانی مسلمان سیاست کی سچائیوں سے واقف ہوچکے ہیں اور اب انہیں اپنے اور بیگانے کا فرق بھی معلوم ہوچکا ہے۔ برنی صاحب، میں خلوص اور محبت میں یہ باتیں لکھ رہا ہوں۔ انہیں جملہ معترضہ ہرگز نہ جانیے گا۔ وقت بدل چکا ہے۔ یہ دنیا ہر دن کامیابی کی ایک نئی تاریخ رقم کررہی ہے۔ تسلیم، کہ ہندستان میں مسلمانوں کا اس سے برا وقت دوسرا نہیں ہوسکتا، جب ہندستان کی زیادہ تر جیلیں معصوم اور بے گناہوں سے بھری ہوئی ہیں۔ فرضی انکاؤنٹرس اور خالد مجاہد کے قتل کو مسلمانوں کے جذبات کیش کرنے کا ذریعہ مت بنائیے۔ قائد بننا ہے تو مسلمانوں کے مسائل پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ اور میں پھر کہتا ہوں، اس روٹس تک پہنچنا ہوگا جہاں بہت سے سوال کل بھی موجود تھے اور آج بھی موجود ہیں۔ حکومت مسلمانوں کے مسائل میں دلچسپی کیوں نہیں لیتی؟ مسلمان محض ووٹ بینک بن کر کیوں رہ گئے۔ مسلمانوں کو مین اسٹریم میں لانے کے لیے کیا تدبیریں کی جاسکتی ہیں؟ اب جذبات کو بر انگیختہ کرنے کا وقت نہیں، یہ خود کو ہیرو اور مسلمانوں کا مسیحا بننے کا وقت نہیں ہے۔ انہیں ساتھ لے کر چلیے اور یاد رکھیے، اب آہستہ آہستہ یہ مسلمان بھی ہوشیار ہورہے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے جذبات فروخت کرنے والے اور اپنوں کا فرق جاننے اور سمجھنے لگے ہیں۔

یہ ایک بدلی ہوئی دنیا ہے، آنے والے وقت میں انتخاب کے بعد یہ دنیا اور بھی بدل جائے گی۔ اب مسلمانوں کو منظم طریقہ سے با تدبیر اس ہندستان کا ایک مضبوط حصہ بن کر دکھانے کا وقت آگیا ہے۔ ۱۹۴۷ میں پنڈت نہرو نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ مسلمان یہاں اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ وہ کہیں اور نہیں جاسکتے۔ ممکن ہے آنے والے وقت میں مسلمانوں کا سابقہ ایک ایسی حکومت سے ہو جہاں ایک بار پھر خوف کا نظام غالب ہو۔ لیکن اب کمزوریوں سے کام نہیں چلے گا۔ اب مسلمانوں کو ہر طرح کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔

Musharaf Alam Zauqui
About the Author: Musharaf Alam Zauqui Read More Articles by Musharaf Alam Zauqui: 20 Articles with 20757 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.