عوام کا خون چوسنے والے ادارے

بجلی کی غیر اعلانیہ اور مسلسل چار چار گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ نے شہریوں کو پاگل بنا کر رکھ دیا ہے لوڈشیڈنگ کے اس جن سے جہاں دیہاتی علاقے متاثر ہیں وہیں پر شہری علاقوں میں لوڈشیڈنگ نے عام لوگوں کے کاروبار زندگی کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے دن کو کاروبار کیلئے بجلی نہیں ،گرمی سے متاثر ہونیوالے لوگ رات سکون سے گزارنا چاہتے ہیں لیکن ان اوقات میں بھی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے باعث ان کی زندگی سے آرام و سکون بالکل ہی چھن گیا ہے اور شہری چڑچڑے پن کا شکار ہو کر جھگڑوں پر اتر آئے ہیں جس کا مشاہدہ روزمرہ زندگی میں بھی کیا جاسکتا ہے-صوبہ خیبر پختونخوا کے لوگ اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہیں ایک تو ان کے صوبے میں کم قیمت پر بننے والی ہائیڈل پاور جو کہ دو روپے میں پیدا ہوتی ہے وہ اسی صوبے کے عوام کو دس روپے میں بیچی جارہی ہے دوسری طرف لوڈشیڈنگ نے نہ صرف یہاں کے لوگوں کو تباہ کردیا ہے بلکہ یہاں کی انڈسٹریز بھی گوناگوں مسائل سے دوچار ہے ایسے میں پیسکووالے یہ ڈرامے بھی کرتے ہیں کہ ہم آٹھ روپے میں انہیں فی یونٹ بجلی دے رہے ہیں اور دو روپے سب سڈی یہاں کے شہریوں کو دی جارہی ہے بیورو کریسی اور سیاستدانوں سے یہ کوئی پوچھنے کی ہمت نہیں رکھتا کہ کس کھاتے میں سستی بجلی جو کہ اس صوبے کی اپنی پیداوار ہے کو مہنگا بیچ کر اس صوبے کے غریب اور تباہ حال عوام کو لوٹا جارہا ہے - بجلی پیدا کرنیوالی کمپنیوں میں غیر ضروری بھرتیوں اور سیاسی بنیادوں پر آنیوالے افسران نے جہاں ان کمپنیوں کے اخراجات میں اضافہ کردیا ہے وہیں پر ان کے انوکھے قوانین بھی عوام کا خون چوسنے کاباعث بن رہے ہیں مختلف پائور کمپنیوں میں تعینات چپڑاسی سے لیکر افسران تک مفت بجلی کی سہولت سے مستفید ہورہے ہیں اور تو اور بعض علاقوں میں پیسکو کے ملازمین اپنے کنکشن سے بجلی کودیگر لوگوں کوبھی دیکر ان سے پیسے وصول کررہے ہیں پیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق 3.9 ملین یونٹس مفت میں پیسکو کے ملازمین استعمال کررہے ہیں جن کی رقم تقریبا بتیس کروڑ روپے بنتی ہے -حالانکہ ان پر واپڈا کا قانون لاگو ہی نہیں ہوتا کیونکہ اب تو بجلی پیدا کرنے والی مختلف کمپنیاں کام کررہی ہیں-

کسی زمانے میں واپڈا ہی بجلی کی فراہمی کا ذمہ دار تھا حالات میں بہتری لانے کے نام پر مختلف کمپنیاں بنائی گئیں جن میں سرکاری بنیادوں پر بندے لائے گئے اور پھر یہ کمپنیاں بھی صورتحال کو مزید تباہ حالی کی طرف لے جانے کاباعث بن گئیں نیشنل گرڈ سٹیشن کے نام پر مخصوص لوگوں کو لانے کیلئے سسٹم بنایا گیا جن کا کام وی آئی پی علاقوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ نہ کرنا ہی رہ گیا ہے حالانکہ اگر بجلی خیبر پختونخوا میں پیدا ہوتی ہے اور پھر اسے اسلام آباد نیشنل گرڈ سٹیشن منتقل کیا جاتا ہے تو بجلی کتنی ضائع ہوتی ہے اس کا حساب کسی کے پاس نہیں ان اداروں کا سسٹم فرسودہ ہے اور لائن لاسز کے نام پر وصولیاں ان کا مقصد رہ گیا ہے لائن لاسز کے نام پر ان لوگوں کی اپنی نااہلی کی وجہ سے بجلی غائب ہونے کا سلسلہ جاری ہے مختلف اقسام کے ٹیکس الگ ہیں اسی کے ساتھ ساتھ ڈویلپمنٹ کے نام پر عوام سے بھتہ خوری بھی کی جارہی ہے مختلف منصوبوں کیلئے عام شہریوں کیلئے اربوں روپے پتہ نہیں کب سے بلوں میں وصول کئے جارہے ہیں لیکن نہ تو ان منصوبوں پر کام ہوتا ہوا نظر آرہا ہے اور نہ ہی بلوں میں وصول ہونیوالے اس بھتے کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ آخر کار یہ رقم کہاں جارہی ہے اس کا حساب کوئی دینا بھی نہیں چاہتا اور نہ ہی کوئی پوچھتا ہے-

خیبر پختونخوا میں پیسکو کا حال یہ ہے کہ اس ادارے پر سیاسی بنیادوں پر لوگ بڑی حیثیتوں میں لائے جارہے ہیں مزے کی بات کہ اس کھیل میں اسلام کے نام پر کمائی کرنے والے سیاستدان بھی شامل ہیں جن کے لاڈلے انہیں لوٹنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں عدالت عالیہ پشاور میں چیف ایگزیکٹو پیسکو کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ ان کے اپنے بندے بجلی چوری میں ملوث ہیں لیکن ان کے خلاف کارروائی کیلئے کوئی اقدام اٹھانے کو وہ تیار نہیں شہر کے مختلف الیکٹرک سٹورز پر اسی ادارے کے اہلکار شام کو دکھائی دیتے ہیں جو شہریوں کے میٹروں کو ٹمپرڈ کرکے دیتے ہیں اور اس مد میں بھی کمائی کررہے ہیں لیکن انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں کیونکہ یہ لوگ "حجرے میں رات گزارنے "والی پشتو مثل کے مطابق زندگی گزار رہے ہیںنہ انہیں عوام کا خیال ہے نہ احتساب کا اور نہ ہی اللہ کے سامنے پیش ہونے کا اسی ادارے میں گذشتہ تیرہ سالوں سے ایک ہی سیٹ پر ایسے ترجمان بیٹھے ہیں جن کی موٹاپے اور صحتسے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ موصوف کتنا کام کرتے ہیں صوبے میں پیدا ہونیوالی بجلی کا ڈیٹا تک ان کے پاس موجود نہیں بس آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ اٹھائیس سو میگاواٹ ہماری ضرورت ہے اور چودہ سو میگاواٹ ہمیں مل رہی ہے یہ وہ جملہ ہے جو گذشتہ پانچ سالوں سے راقم بھی سن ہی رہا ہے حالانکہ اسی صوبے کے ایک صنعتکار کے مطابق تیرہ ہزار میگاواٹ بجلی اس صوبے میں پیدا کی جارہی ہے اور اس میں بھی صوبے کے عوام کا یہ حال ہے کہ یہاں کی بجلی سے پورے ملک کو روشن کیا جارہا ہے لیکن یہاں کے لوگوں کے گھروں میں اندھیرے ہیں-عدالت عالیہ پشاور میں ایکصنعت کار کی جانب سے دئیے جانیوالے بیان کے مطابق اس صوبے کے سرمایہ کاربجلی کی پروڈکشن کے منصوبے شروع کرنا چاہتے ہیں اور اس میں سرمایہ کاری کرنے کو بھی تیار ہیںلیکن یہاں پر تعینات اعلی افسران نے سیاسی بنیادوں پر مختلف سائٹس اپنے منظور نظر افراد کو دیدی ہیں جس کی وجہ سے سرمایہ کار نہیں آنا چاہتے-

سب سے افسوسناک امر تو یہ ہے کہ جن لوگوں نے بجلی کا نظام بہتر کرنے اور مفت بجلی فراہم کرنے کے دعوے کئے تھے انہی کے دور میں ملاکنڈ تھری پراجیکٹ جسے ان سے قبل کی حکومت نے شروع کیا تھا نے سیاسی بنیادوں پر مرکز کو دیدیا اور اسے نیشنل گرڈ سٹیشن کے حوالے کردیا گیا ہے حالانکہ اپنی صوبے کی ضرورت تو پوری نہیں ہوتی اگر اس سے پیدا ہونیوالے بجلی اس صوبے میں استعمال ہوتی تو بھی صورتحال بہتر ہوتی لیکن پختونوں کی علمبرداری کا دعوی کرنے والوں کی عیاشیوں نے ہی صوبے کا بیڑہ غرق کردیا-پہلے تو یہ سننے کو ملتا تھا کہ بجلی کی پیداوار وفاق کے ذمہ ہے اس لئے صوبہ اپنی حیثیت میں کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں اب تبدیلی کے دعویداروں کیلئے بھی چیلنج ہے کہ اٹھارھویں ترمیم نے وہ راستہ بھی کھول دیا جس سے اب انہیں یہ ڈرامہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ ہم کچھ کرنہیں سکتے خیر دیکھتے ہیں آگے آگے ہوتا ہے کیا-

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 497875 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More